50 برسوں میں بھی نہیں بن پائی مسلم لیگ بھارتیہ مسلمانوں کی پارٹی تو ایم آئی کی حیثیت کیا۔۔۔ عزیز برنی

قياسي

ابراہیم سلیمان سیٹھ اور غلام محمود بناتوالا لمبے وقت تک مسلمانوں میں بہت مقبول لیڈر رہے مسلمان اُنہیں سنتے تھے پسند بھی کرتے تھے لیکن کیرلا کے باہر اُنکی پارٹی سیاسی اعتبار سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔سید شہاب الدین صاحب کا ایک دور تھا کل ہندوستان کا مسلمان اُنکی آواز پر لبّیک کہتا تھا پارلیمنٹ میں اُنکی تقریر کو بہت عزت کے ساتھ سنا جاتا تھا پھر انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی اِنصاف پارٹی صرف مسلمانوں کے دم پر وہ پارٹی نہیں چل سکی اُتر پردیش میں ڈاکٹر فریدی صاحب نے مسلم مجلس سے بہت امیدیں جگائیں کامیابی بھی ملی لیکن مسلمانوں کے علاوہ دوسرا ووٹ نہیں ملا اسلئے اُتر پردیش میں مسلمانوں کی پہلی پسند ہونے کے باوجود اسمبلی میں تعداد کے اعتبار سے بڑی پارٹی نہیں بن سکی۔حاجی مستان کا ایک دور تھا پیسہ بہت تھا امیج بدلنا تھی ایک دائرے میں لوگوں کے کام بھی کیے سیاسی پارٹی بنائی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی حیدرآباد میں سلطان صلاح الدین کو مسلم اتحاد المسلمین کی شکل میں ایک سیاسی پارٹی وراثت میں ملی کیونکہ اُسکے بانی قاسمِ رضوی پاکستان چلے گئے تھے( ایم آئی ایم کا قیام 1927 میں عمل میں آیا ) اسکے بعد 1957میں اسدالدین کے دادا عبدالواحد اویسی نے پارٹی کو ری لانچ کیا قیادت بدلی لیکن پارٹی کا مزاج نہیں بدلا وہی جناح کی سوچ۔۔۔ کانگریس تو پہلے بھی محمد علی جناح کی مسلم لیگ کو ساتھ لیکر چلتی رہی پھر ابراھیم سلیمان سیٹھ کی قیادت والی مسلم لیگ بھی کانگریس کے ساتھ رہی اور سلطان صلاح الدین والی ایم آئی ایم بھی کانگریس کے ساتھ ہی رہی سلطان صلاح الدین کے بعد اسعد الدین کی قیادت والی ایم آئی۔ ایم بھی کانگریس کے ساتھ ہی رہی کانگریس کو اس اتحاد کا سیاسی فائدہ حاصل ہوتا رہا اور ایم آئی ایم کو معاشی۔پھر ۔۔12 نومبر 2012۔۔۔۔میں ایم آئی ایم نے کانگریس اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی اور محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے نقشِ قدم پر اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھی۔
ہندو مہا سبھا کی کوکھ سے جنم لیا تھا وشو ہندو پریشد۔راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ۔جن سنگھ اور آج کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ۔ہندو مہا سبھا کا جنم 1901 میں ہوا تھا اور 1906 تک 5 سالانہ اجلاس کے باوجود کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن 1906 میں مسلم لیگ کے وجود میں آتے ہی اُسے کامیابی ملنا شروع ہو گئی لمبے سفر کے بعد آج کی مودی حکومت اسی بیج کا تناور درخت ہے۔سیدھے لفظوں میں سمجھنا ہو تو دور حاضر کی ٹی وی ڈیبیٹ پر نظر ڈالیں اگر ایک مسلم چہرہ اشتعال انگیز گُفتگو کیلئے نہ ہو تو ہندو یکجہتی کا منصوبہ کامیاب نہ ہو لہذا ایسی فکر کی ایسے مزاج کی ایک سیاسی پارٹی بھی سنگھ پریوار کے ہندو راشٹر کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے ضروری ہے۔
مولانا بدرالدین اجمل آل انڈیا مسلم یونائیٹڈ فرنٹ اپنے نرم مزاج کی وجہ سے سنگھ کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی لہٰذا آسام میں تیلنگانہ سے زیادہ کامیابی کے باوجود اُنکے کام کی نہیں۔
ایم آئی ایم کے پاس دلیلیں ہیں اپنے ہر قدم کو صحیح ثابت کرنے کیلئے بیشتر ریاستوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کے لیے۔اُنکی ہار کو مسلمانوں کی جیت ثابت کرنے کیلئے ۔
گجرات کو بھلے ہی اٹل بہاری واجپائی نے بھارت کی پیشانی کا کلنک کہا ہو مودی کے پاس دلائل ہیں گجرات ماڈل کو کامیاب ثابت کرنے کیلئے مسلمان بھلے ہی پہلے سے زیادہ خوف زدہ ہو ظلم زیادتی کا شکار ہو لیکن ایم آئی ایم کے پاس دلائل ہیں مسلمانوں کے بہتر مستقبل کیلئے ایم آئی ایم کا ساتھ دینے کیلئے۔ نوٹ بندی سے جی ایس ٹی سے کاروباری نقصان ہو بینک بند ہونے لگیں سرکاری املاک بکنے لگیں نوجوان بے روزگاری کا شکار ہوں لیکن مودی کے پاس دلائل ہیں ہندوستان کو ترقی کی طرف گامزن ثابت کرنے کیلئے۔مسلمان موب لنچنگ کا شکار ہو جامعہ میں پولیس معصوم نوجوانوں پر ظلم کرے دلّی دانگوں میں بے گناہوں کا قتل کر دیا جائے بابری مسجد کا فیصلہ آستھا کے سوال پر ہو اور قوم کے سب سے قبل بیرسٹر ایک دن بھی عدالتِ عالیہ میں نظر نہ آئیں لیکن ایم آئی ایم کی قیادت مسلمانوں میں ہر دل عزیز ثابت کر دی جائے۔ اسعد الدین کو کانگریس اتحاد سے الگ ہوئے کانگریس کو مسلمانوں کا دشمن ثابت کرتے ہوئے سیکولرزم کو زندہ نعش قرار دیتے ہوئے صرف 8 سال لگے اور بی جے پی کو واضع اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے صرف 7 سال اس کارنامے کو انجام دینے کیلئے چہرہ حلیہ اور تقریر کام آئی اویسی کی اور بھرپور تشہیر میڈیا کی بی جے پی کو وہ ملا جو اسنے چاہا اویسی کو وہ ملا جو اسنے چاہا لیکن مسلمانوں کو کیا ملا۔۔۔۔۔۔آج کے حالات۔۔۔۔
واہ کیا بات ہے دیش کے پاس بس دو چہرے ره گئے ایک ہندوتوا کا چہرہ اور ایک مسلمانوں کا چہرہ میڈیا کی توجّہ بس ان دو نظریات کے نمائندوں پر ڈاکٹر کفیل پر این ایس اے لگے جیل جائیں صفورہ ذرگر حق کی آواز بلند کرنے پر جیل جائیں ان جیسے لوگوں نے بی جے پی کو یا ہندوتوا کو اس درجہ نشانہ نہیں بنایا جتنا اسد اویسی اور اکبر اویسی نے لیکن جیل جائنگے ڈاکٹر کفيل۔صفورہ زرگر۔اعظم خان۔ڈاکٹر ایوب انصاری ۔نہ جی نہ کوئی ملی بھگت نہیں اسد کا قد اتنا بڑا ہے کہ حکومت ڈرتی ہے اس پر ہاتھ ڈالنے سے لیکن حیرت ہے اتنے طاقتور مسلم قائد جو کہ خود بیرسٹر ہیں بابری مسجد معاملہ میں آخری فیصلہ آنے تک کبھی عدالت میں اپنی دلائل کے ساتھ پیش نہیں ہوئے اگر وہ کھڑے ہو جاتے تو سرکار ڈر جاتی اور شاید فیصلہ کچھ اور ہوجاتا حیدراباد۔ مکّہ مسجد بم بلاسٹ سوامی اسماناند ایسو۔۔ ممبئ سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ گجرات 2002 مسلم کش فساد ہر موقعے پر یہ مسلم سیاست داں خاموش اور دعویٰ مسلم قائد ہونے کا کانگریس کے دور میں مرادآباد مسلمانوں کا قتل عام 1987 میرٹھ مالیانہ ھاشم پورا قتلِ عام ایم آئی ایم کانگریس کے ساتھ 6 دسمبر 1992 بابری مسجد کی شہادت ایم آئی ایم کانگریس کے ساتھ۔۔۔۔
12 نومبر 2012 کو کانگریس سرکار نے منموہن سنگھ کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف ایسا کیا کیا کہ اسد الدین کو مسلمانوں کے حق میں کانگریس سے الگ ہونا پڑا اور اچانک ایسا کیا ہوا کے سیکولرزم زندہ نعش نظر آنے لگا اور مسلمان اب اور اپنے کاندھے پر اسکا وزن نہیں ڈھو سکتا یہ اعلان کیا جانے لگا ۔مریدوں میں سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ حضور دستورِ ہند بھی سیکولر ہے کیا یہ بھی زندہ نعش۔۔۔ یہی تو ایجنڈہ ہے بی جے پی کا وہ چاہتی ہے دستورِ ہند کو بدل دینا وہ چاہتی ہے سیکولر سیاست کا وجود ختم کر دینا اور یہ کام آپ انجام دے رہے ہیں اور دعویٰ ہے مسلمانوں کی بھلائی کا آپ ہارنے کے لیے الیکشن لڑینگے اور اسے مسلمانوں کی جیت ثابت کرینگے بہت خوب جناب اس دور میں قومی میڈیا نریندر مودی اور آپ یہ تین ہی تو ہیں جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے کا ہنر رکھتے ہیں سنگھ والوں کا مکمل اعتماد قومی میڈیا پر اور آپکے والوں کا مقمّل اعتماد ایم آئی ایم پر۔۔۔۔جے ہو پربھو آپ مہا ن ہو مودی جی مہان ہیں دیش کو بس آپ دونوں کی ضرورت ہے۔
مضمون ابھی مکمل نہیں ہے اور ردِ عمل سامنے آنے لگا چلو اب ایسا کریں گفتگو کا رخ اپنی سیاست اپنی قیادت۔مسلمان سیکولرزم کا بوجھ کیوں دھوئیں بات اب انہیں جملوں کی روشنی میں کی جائے ٹھیک بات ہے مسلمانوں نے ملائم سنگھ یادو کو وزیرِ اعلیٰ بنایا اکھلیش یادو کو وزیرِ اعلیٰ بنایا اُنکے پہلے چودھری چرن سنگھ کو وزیرِ اعلیٰ بنایا مایا وتی کو وزیرِ اعلیٰ بنایا بہار میں لالو پرساد یادو کو وزیرِ اعلیٰ بنایا نتیش کمار کو وزیرِ اعلیٰ بنایا چلو بہار کی بات کریں۔بہار میں اس وقت الیکشن ہونے جا رہا ہے ایم آئی ایم سبھی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اِرادہ رکھتی ہے نتیش بی جے پی کے ساتھ ہے کانگریس کو ختم کرنا ہے تیجسوی یادو اگر ایم آئی ایم کو اتحاد میں شامل نہیں کرتا تو اُسکی کوئی اہمیت نہیں لہٰذا موقعہ ہے اس بار مسلمانوں کے پاس کیوں نتیش کمار یا تیجسوی یادو کو وزیر اعلیٰ نہ بنائیں آخر یہ طاقت تو ہے ہمارے پاس کیوں نہ اسعد الدین اویسی کو اس بار وزیرِ اعلٰی بنایا جائے کیوں کانگریس آر جے ڈی اتحاد سے دو چار سیٹوں کی بھیک مانگی جائے۔کیا ممکن ہے یہ۔۔۔۔ نہیں نہ ۔۔۔۔آپ بھی جانتے ہیں اور اویسی بھی کہ دوسرے ووٹ کے بغیر ہندو ووٹ کے بغیر صرف مسلم ووٹوں کے سہارے یہ کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی اس سچائی کو سمجھا لالو یادو اور نتیش کمار نے اور حکومت کی بہار پر۔۔۔ یہ ایکلا چلو کی نیتی اویسی کو کہاں لے جائے گی اس وقت دو ہی سیاسی طاقتیں ہیں بی جے پی اتحاد یا کانگریس اتحاد کانگریس کو دفن کرنا آپکا سیاسی مقصد ہے تنہا آپ کچھ کر نہیں سکتے بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے تو آپ کرنا کیا چاہتے ہیں بی جے پی مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم کرنا چاہتی ہے اور آپکا عمل اُسکا کام آسان کر رہا ہے ملک میں مسلمان 28 کروڑ ہے اگر ووٹر 15۔20 کروڑ بھی ہیں تو اُسکا 10% فی صد یعنی ڈیڑھ دو کروڑ ووٹ بھی آپکو کبھی مِلا نہیں نہ۔کیوں مسلمانوں کی سیاسی قبر خود رہے ہو سیاسی معاملات میں یا سماجی معاملات میں سب کے ساتھ ملے بغیر کوی راستہ نہیں ہے مسلمانوں کے پاس اپنی سیاست کیلئے اُنہیں تنہا نہ کرو یہ مودی کا فارمولا ہے کہ مذہب کا لالی پوپ دیکر سب کو سڑک پر لا دو تم خدا کیلئے مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہ کرو ایک جناح نے جو زخم دیا ہے 75سالوں میں وہی نہ بھر سکا تو اب کوئی نیا زخم نہ دو تمہاری پارٹی 93سال پرانی ہے اور دادا کی قیادت جو تمہیں وراثت میں ملی 63 سال پرانی کیا کر سکے ان 63 سالوں میں صرف 2 mp ۔۔۔
اچّھا بولتے ہو مسلمانوں کو لبھانے والی زبان بولتے ہو جناح کی ٹوپی اور شیروانی تمھارے پاس ہے داڑھی ایک اور اضافہ یہ معصوم مسلمان تو رمضان کّے ایک افطار میں سر پر ٹوپی دیکھ کر ہی دیوانہ ہو جاتا ہے تمھارے سر پر تو یہ ٹوپی 365 دن ہے وہ بیچارہ اسی میں مذہب تلاشتہ ہے اور اسی میں سیاست اُسے اپنی سیاست کا مہرا نہ بناؤ تمہارے پاس تو دولت بہت ہے مضبوط قلعے میں رہتے ہو تم۔۔۔۔لیکِن۔۔۔ اُسکے پاس نہ دو وقت کی روٹی ہے نہ سر پر محفوظ چھت مار دیا جاتا ہے اُسے سڑک پر مذہبی جنونیوں کے ذریعے مارا گیا تھا گجرات میں اور ابھی حال ہی میں دلّی میں بھی کہاں تھے تم پہلے دہشتگردی کے الزام میں اب دیش دروہ کے الزام میں سینکڑوں مسلم نوجوانوں کی زندگی اُن پر عذاب بن گئی کیا لڑا تمنے کسی کا مقدمہ۔نہیں نہ بس زبانی جمعہ خرچ اور اس معصوم مظلوم قوم کی تباہی کا سامان۔۔۔۔ خدا کیلئے اب رحم کرو ان پر۔۔۔۔

کاپی۔ پیسٹ

أضف تعليق