بسم اللّه الرحمن الرحيم
آكسفورڈ ميں گدهے بهى ہوتے ہيں
از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ
اكثر لوگوں كو اس پر تعجب ہوتا ہے كه ميں تقريبا تيس سال سے آكسفورڈ ميں مقيم ہوں، پهر بهى آكسفورڈ كا ذكر كم اور ندوه كا زياده كرتا ہوں، ان كى يه شكايت بجا ہے، تو چليں آج آكسفورڈ كى بات كرتے ہيں:
دنيا ميں آكسفورڈ كى شہرت آكسفورڈ يونيورسٹى كى وجه سے ہے، اس ميں تقريبًا پچاس كالجز ہيں، يہاں كى بوڈلين لائبريرى كو عالمى شہرت حاصل ہے، ريسرچ وتحقيق ميں يه شہر ممتاز ہے، يہاں ايك دوسرى يونيورسٹى آكسفورڈ بروكس يونيورسٹى ہے، اس شہر كا ماحول خالص علمى ہے، پروفيسروں، ريسرچ سكالروں، اور طلبه سے يه شہر بهرا پڑا ہے، جو بهى يہاں آتا ہے وه اس كى علمى فضا سے مرعوب ہوتا ہے، يہاں كے باشندے دنيا ميں جہاں بهى جاتے ہيں ان كو عزت واحترام كى نگاه سے ديكها جاتا ہے۔
يہاں آنے كے بعد يه مثل سننے ميں آئى كه آكسفورڈ ميں گدہے بهى هوتے ہيں، اس ميں حيرت كى زياده بات نہيں تهى، كيونكه دنيا ميں ہر جگه يہى حال ہے، اور ہر زمانه ميں يه ہوتا چلا آيا ہے، قريش ميں جہاں ابو بكر صديق اور عمر فاروق وغيره رضي الله عنهم تهے وہيں ابو جہل اور ابو لہب وغيره بهى تهے۔
جب سے كورونا وائرس كى وبا عام ہونا شروع ہوئى ہے اس كے علاج كى تدبيريں اور تجويزيں ملك ملك اور قريه قريه سے آ رہى ہيں، ان بهانت بهانت كے طريقہائے علاج كو ديكهكر اس مثل كى معنويت اچهى طرج واضح ہو گئى ، بهارت ميں گائے كے گوبر اور پيشاب سے اس بيمارى كو دور كرنے كى تركيب بتائى جا رہى ہے، ايك مخصوص پارٹى كے ليڈروں نے كورونا كے خلاف سخت احتجاج كيا اوربزعم خود اسے نعروں كے زور پر بهگا ديا، پيروں اور فقيروں نے بهى مختلف قسم كے علاج بتانا شروع كر ديئے، كچه لوگ نت نئے وظيفوں اور عمليات كى تلقين كر رہے ہيں، بعض بزرگوں نے كورونا وائرس كو چيلنج كر ديا ہے كه وه كسى مريض كو بهى گلے لگا ليں گے اور كورونا ان كا بال بيكا نہيں كر سكے گا، كچهه لوگوں كو خواب ميں اس كے علاج كى وحى آ رہى ہے، يه الگ بات ہے كه ہر خواب ديكهنے والے كى بات دوسرے سے مختلف ہے، انسانى تاريخ ميں ايسا پہلى بار ہوا ہے جب وحى بهى تعارض وتضاد كا شكار ہوگئى۔
بات يہيں تك ره جاتى تو كوئى بات نہيں تهى، بلكه اب شريعت مطہره كے علمبرداروں نے بهى وظيفوں كى تشہير شروع كردى ہے، اسى سے بد مزه ہوكر ميں نے دو روز پہلے “وظيفوں كى بهر مار ” كے عنوان سے ايك مضمون لكها، ليكن وظيفوں كا سيلاب تهمنے كا نام نہيں ليتا، سمجهه ميں نہيں آتا كه جو لوگ قرآن كريم كى تلاوت كرتے ہيں، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كى احاديث پر مشتمل صحيح مجموعوں كو سبقا سبقا پڑهتے ہيں، صحابۂ كرام اور تابعين عظام رضي الله عنهمم كى مبارك سيرتوں كا مطالعه كرتے ہيں وه توہمات كا شكار كيوں ہيں۔
اسى سے ملتا جلتا منظر فتووں كا بهى ديكهنے ميں آيا، ہر روز ليٹر ہيڈ پر ايك نيا فتوى اور ايك جديد تحقيق، فتوے صبح وشام بدلتے رہے، اور عوام ان تبديليوں كا ساته نه دے سكے، چنانچه ہندوستان ميں جب لاك ڈاؤن ہوا تو مفتيان كرام نے ليٹسٹ فتوى پر عمل كرتے ہوئے خاموشى سے اپنے اپنے گهروں ميں پناه لے لى، اور عوام كى بڑى تعداد پہلے ہى فتوى پر عمل كرتى رہى، اسے ناسخ اور منسوخ كا علم نه ہوسكا، اور نه وه اس تيز رفتار ارتقائے فكرى كا ساته نه دے سكى، نتيجتًا معصوم نمازيوں كو پوليس كے ڈنڈے كهانے پڑے اور كچهه لوگوں كو جيل ميں بهى ڈال ديا گيا، ان مفتيان كرام ميں سے كوئى ان كى مدد كو نہيں آيا، بلكه ان عوام كو ہى قصور وار ٹهہرايا گيا كه نه يه بات سمجهتے ہيں اور نه ہى بات مانتے ہيں، قصور كسى كا بهى ہو سارے مسلمانوں كے سر پشيمانى اور پريشانى سے جهك گئے اور ملت بيضا كى نيك نامى پر حرف آيا۔
كہاں سے ہندوستان جنت نشان كا تذكره آگيا؟ پته نہيں كيوں يه ضمنى گفتگو طويل ہوگئى؟ آپ اسے ہمارى بد مذاقى سمجهكر نظر انداز كرديں، آمدم بر سر مطلب، بات آكسفورڈ كے گدہوں كى ہو رہى تهى، اس كا مشاہده سيميناروں اور لكچرز ميں بارہا ہوا كه وه يونيورسٹى جس كى ہر جگه دهاك بيٹهى ہوئى ہے وہاں ايسے عجيب وغريب نمونے ہيں، مثاليں چونكه بہت زياده ہيں اس لئے انہيں كسى اور موقع سے قلمبند كروں گا، وه قصے دلچسپ ہيں، اور يہى واقعات ہيں جن كى وجه سے گدہوں سے ہمارے تعلقات ہميشه كشيده رہے۔
سوال يه ہے كه آكسفورڈ ميں گدہے كہاں سے آتے ہيں؟ اور اگر وه مقامى ہيں تو يہاں گدہے پيدا كيسے ہوتے ہيں؟ آكسفورڈ والوں كا دعوى ہے كه يہاں كے بعض كالجز سات سو سال پرانے ہيں يا اس سے بهى زياده دنوں كے ہيں، ان پچاس كالجوں كا مقصد يہى تها كه دنيا ميں گدہے نه پيدا ہوں، اور جو پيدا ہوگئے ہيں انہيں يہاں لايا جائے، اور چند سالوں ميں ان كى فطرت بدل دى جائے، كيا آكسفورڈ گدہوں كو انسان بنانے ميں كامياب ہوا؟ جواب ہے كه آكسفورڈ كو مكمل كاميابى نہيں ہوئى، اب بهى يہاں بہت سے گدهے گهومتے رہتے ہيں، اور يہاں كے كچهه گدهے دنيا كے دوسرے ممالك ميں بهى پائے جاتے ہيں اور وه انسان كو گدها بنانے كى مہم ميں لگے ہوئے ہيں۔
گدہوں كى فطرت نه بدلنے كى شكايت آج سے تقريبا آٹهه سو سال پہلے شيخ سعدى بهى كر چكے ہيں:
خر عیسی گرش به مکه برند
چون بیاید ہنوز خر باشد
كہتے ہيں كه شيخ سعدى نے يه مفہوم قرآن كريم كى اس آيت سے ليا ہے: “كمثل الحمار يحمل أسفارا”، آكسفورڈ كے گدہوں پر ميرا سب سے بڑا اعتراض يہى ہے كه وه خود كو گدہا نہيں سمجهتے، اور جو ان كو يه سمجهانے كى كوشش كرتا ہے وه بهى گدہا بن جاتا ہے، اس لئے گدہوں كے اس ماحول ميں حكيمانه بات يہى ہے كه ہم گوشه نشيں ہوجائيں اور گدہوں كو دنيا ميں راج كرنے ديں۔
يجب عليك تسجيل الدخول لكتابة تعليق.