صحافت کاشجر سایۂ دار عادل صدیقی مرحوم – بقلم ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

قياسي

*صحافت کاشجر ِسایۂ دار عادل صدیقی مرحوم*

ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی
رام لکھن سنگھ یادو کالج ، بتیا ، مغربی چمپارن۔بہار

15جنوری 2021کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے دن عادل صدیقی بھی اپنے مالک ِ حقیقی سے جا ملے ۔ دیوبند ان کا گھر تھا وہیں انھوں نے آخری سانس لی اور پیوند خاک ہوئے۔عادل صدیقی اردو صحافت کا ایک معروف و معتبر نام ہے اور ان کا صحافتی سفر تقریبا پون صدی کو محیط ہے ۔ گزشتہ ساٹھ برسوں سے ہند و بیرون ہند کے موقر اخبارات میں اپنے قلم کا جادو جگاتے رہے اور اپنے مخصوص و منفرد اسلوبِ نگارش سے اہل ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کر تے رہے ۔اپنے آخری ایام میں روزنامہ”قومی آواز“دہلی اور ہفتہ وار”الجمعیة“دہلی میں پابندی سے کالم تحریر کرتے رہے ۔
عادل صدیقی کا صحافتی رشتہ محض اردو زبان یا پرنٹ میڈیا ہی سے نہیں رہابلکہ اردو صحافت کے ساتھ ساتھ انگریزی صحافت سے بھی ان کا تعلق انتہائی مضبوط رہاہے۔اسی طرح پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا سے بھی ان کی مضبوط وابستگی رہی ہے۔
ان کا اصل نام محمد عادل صدیقی تھا اور انھوں نے 6مارچ1930کو مولانا مشفع حسین کے گھر ،دیوبند میںآنکھیں کھولیں ۔چوں کہ ان کے والد مرحوم کو فارسی زبان میں بڑی مہارت تھی اور وہ اس زبان میں استاذ کی حیثیت رکھتے تھے اور کاندھلہ(مظفرنگر )کے ایچ ۔اے۔ایس (H.A.S)کالج کے شعبہ فارسی کے عہدہ صدارت پربھی فائز تھے اس لیے ان کی تعلیم کا ابتدائی مرحلہ کاندھلہ ہی میں طے ہوا ۔1945میں اول درجے سے ہائی اسکول پاس کیا اور ریاضی و فارسی میں امتیازی نمبرات حاصل کیے۔
قدرت نے بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق ودیعت کیا تھا اور گھر کا ماحول بھی علمی تھااس لیے ان کی عمدہ نشو نما ہوتی رہی۔عمر کے ساتھ ساتھ شعور میں بھی بالیدگی آتی رہی ۔وہ اپنے عظیم خوابوںکو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے پوری طرح بیدار ہو کر یقیں محکم،عمل پیہم کے ذریعے منزل کی تلاش میں لگے رہے ۔میٹرک کے بعد 1947میں اسلامیہ انٹر کالج، سہارن پورسے انٹر میڈیٹ کیا۔اس کے بعد حالات نے ملازمت اختیار کر نے پر مجبور کیا لیکن اس کے باوجودمزید حصولِ تعلیم کا جذبہ دل میںانگڑائی لیتا رہا۔ چنانچہ ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سے بی۔اے بھی کیا اور ایم۔اے بھی۔ایم ۔اے کے بعد سپلائی آفس سہارن پورمیں کلرک کی نوکری مل گئی لیکن مستقبل میں صحافت کے ذریعے قدرت کو جس شخص کے ذریعے ملک و قوم کی خاطرکوئی عظیم کام لینا ہو ،اس کا دل کلرکی میں بھلا کیسے لگتا۔یہی وجہ ہے کہ تقدیر نے وہاں سے انھیں جاٹ مسلم کالج،اسارہ(میرٹھ)پہنچادیا اور وہ وہاں ریاضی کے استاذ مقرر ہوئے۔اسی ملازمت کے دوران میں پہلے درجے سے منشی (الہ آباد)کا امتحان پاس کیا۔کچھ دنوں بعد میرٹھ زون سے گورنمنٹ ٹیچرز ٹریننگ کالج،بریلی کے لیے صدیقی صاحب کو منتخب کر لیا گیا۔اسی کے ساتھ ساتھ ایک سالہ نصاب میں داخلہ لے کر ہاسٹل لائف گزاری اور سی ،ٹی کا امتحان پاس کیا۔پھر فیصلہ الٰہی سے اسلامیہ کالج مظفر نگر میں بحیثیت استاذ ان کا تقرر ہو گیالیکن کچھ عرصے بعد ہی مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے حکم سے مسلم قدرت انٹر کالج سیوہارہ(بجنور)منتقل ہو گئے اور وہاں تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔
والد صاحب کے سفر حج کے بعد عادل صدیقی اپنے وطن دیوبند کے اسلامیہ کالج کے لیے منتخب کر لیے گئے۔اس وقت کا لج کے صدر خان بہادر شیخ ضیاءالحق مرحوم تھے۔ابھی یہیں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے کہ دہلی میں پریس انفارمیشن بیو رو،وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند میںان کی سروس ہو گئی۔ابتدا میںکیلی گرافسٹ کی جگہ تقرر ہوا ۔اب صدیقی صاحب زندگی کی مختلف پگڈنڈیوں سے گزر کر کافی تجربات حاصل کر چکے تھے اور کامیابیوں کی شاہراہوں کو تیز رفتاری سے طے کررہے تھے ۔رڑکی ہائی اسکول میں بھی ملازمت کا موقع ہاتھ آیا لیکن انھوں نے اس کے مقابلے میں غالب و داغ کی سرزمین ’دہلی‘ کوترجیح دی۔ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد ،پرو فیسر علی جواد زیدی،گُربچن داس چند ن،لکشمی چندر یاس اور شہر یار پرواز جیسے ممتاز ادبا و محققین اور معروف شخصیات کے ساتھ رہ کر صدیقی صاحب کو علمی،ادبی اور تحقیقی کام کر نے کے مواقع ملے۔کچھ ہی عرصے بعد ترقی پاکر اسسٹنٹ جرنلسٹ، پھر محنت و لگن اور قابلیت کے پیش نظر 1979میں اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔اس کے بعد پریس انفارمیشن بیورو سے ماہنامہ”آج کل“میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی جگہ تبادلہ ہو گیا اور یہ سلسلہ جون 1979سے ستمبر 1981تک پوری خوش اسلوبی سے جاری رہا۔
عادل صدیقی صاحب نے 1981میں’ آج کل‘ کے طرز پر ماہنامہ”یوجنا“نکالنے کی تجویز پیش کی،جو منظور ہوئی۔یہ ایک سماجی،معاشی و تعلیمی رسالہ ہے جو صدیقی صاحب کی ادارت میں نکلنے لگا۔وقفے وقفے سے صدیقی صاحب پر ناموافق حالات بھی آئے،لیکن ان کی قوت ارادی اور مستقل مزاجی نے کبھی قدم ڈگمگانے نہ دیا۔وہ مکمل ذمے داری کے ساتھ”یوجنا“نکالتے رہے اور ان کا ادارتی سلسلہ1981سے لے کر 1988تک مکمل سات سال تک جاری رہا۔1988میں سبکدوشی کے بعد بھی ”یوجنا“ہنوز جاری ہے جس کو صدیقی صاحب کے جہد مسلسل اور اردودوستی، اس سے بے پناہ تعلق و رشتہ ہی کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے۔ یوں تو عادل صدیقی صاحب کی صحافتی زندگی نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے ،لیکن ان کے قلمی سفر کا آغاز بجنور(یوپی) سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے’غنچے‘سے ہو تا ہے۔اس کے بعد بتدریج ہفتہ وار ”الجمعیة“ دہلی،روزنامہ ”قومی آواز“دہلی،روزنامہ ”سیاست“حیدرآباد،روزنامہ ”آزادہند“کلکتہ،روزنامہ ”انقلاب“بمبئی،”آفتاب“سری نگراورروزنامہ ”راشٹریہ سہارا“دہلی ان کی صحافت کی جولان گاہ رہے ہیں۔انھوں نے اپنے قلم سے ہرطرح کے علمی و تحقیقی پھول کھلائے ہیں ۔تحریر میں ادب کی چاشنی ہے تو تہذیبی اقدار بھی،تاریخی حقائق ہیں تو سیاسی نوک جھونک بھی اور ساتھ ہی معاشرتی و سماجی زندگی سے گہری وابستگی بھی۔آپ کے گلشن تحریر میں رنگ برنگے پھول دکھائی دیتے ہیں جو اپنی رنگینیوں اور خوشبوﺅں سے قاری کا ذہن و دماغ تازہ کرتے ہیں اور دلوں کوموہنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
چوں کہ عادل صدیقی خود دیوبند سے وطنی تعلق رکھتے تھے اور دارالعلوم کے زیر ِسایہ ان کی تربیت ہوئی تھی اس لیے انھوںنے اپنے طویل سفر کو طے کرنے کے لیے علمائے دیوبند جیسے اصحاب فکر و نظر اور ارباب علم و دانش کے افکار کے مطالعے کو زادِ راہ بنایا۔ان کے خیالات کی پاکیزگی و شفافیت کے ذریعے اپنے فکرو نظر کو منور کیا اور ان بزرگوں کو اپنے اچھوتے قلم کا خراج بھی پیش کیا۔ان کی فہرست میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ،شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ،حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ،مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ،امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ جیسی عبقری شخصیات موجودہیںجن کی علمی،سیاسی،سماجی،ملی خدمات کی ایک دنیا معترف ہے،لیکن ان کے قلم کی سیاہی یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ہندوستان کے ان فرزندوں کو بھی اپنے قلم کی سلامی دیتے ہیں جنھیں دنیا آج شاعر مشرق علامہ اقبالؒ،مولانا حسرت موہانیؒ،ڈاکٹر بر کت اللہ بھوپالیؒ،ڈاکٹر مختاراحمدانصاری ؒ،مولانا محمد علی جوہر ؒوبیگم مولانا محمد علی جوہر ؒ،مولانا ازہر شاہ قیصر ؒ،مولانا محمد عثمان دیوبندی ؒ،مولانا محمدمیاں دیوبندی ؒکے ناموں سے جانتی ہے۔اگر صدیقی صاحب نے ایک طرف اپنی صحافت میں اِن موتیوں کو پرویا ہے تو دوسری طرف اس کی تزئین میں پنڈت جواہر لعل نہرو،مسزاندرا گاندھی،راجیو گاندھی اور لال بہادر شاستری کو بھی شامل کیا ہے۔
ویسے توصدیقی صاحب کی تحریروں کا ایک انبار ہے ،لیکن افسوس کہ ان کو اب تک کتابی شکل نہ دی جاسکی۔المیہ تو یہ ہے جنھیں انھوں نے انگلی پکڑ کرقلم چلانا سکھایا،آج وہ درجنوں کتابوں کے مصنف بن چکے ہیںلیکن ان کی تحریر کی ترتیب وتدوین کی طرف کسی نے دھیان نہیںدیا۔کاش!کوئی اٹھے اورراس خواب کو شرمندہ¿ تعبیر کردے۔
صدیقی صاحب کی مستقل تصنیف کی شکل میں کہانیوں کا ایک مجموعہ’آج کل کی کہانی‘نام سے ہے جو کئی سال پہلے منظر عام پر آئی تھی۔اسی طرح ان کے قلم نے ترجمہ نگاری میں بھی اہم رول ادا کیاہے۔انھوں نے متعدد انگریزی کتابوں کے اردو ترجمے بھی کیے ہیں۔ان میں سب سے اہم عوام الناس کے لیے گائڈ ہے جس کا اشتہار پابندی سے”یوجنا“اردو کے سرورق پر آتا رہا ہے۔
اس سے پہلے ذکر آچکا ہے کہ صدیقی صاحب کا تعلق میڈیا سے بھی بڑا گہرا رہا ہے اور ان کی زندگی کا یہ شعبہ بڑا ہمہ جہت ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ریڈیو پروگراموں میں گزارا،اردو کے مختلف پروگرام:اردو سروس،اردو مجلس اور اردو نیوزمیں ایک مدت تک اپنے فکر و نظر اور زبان و بیان کے جلوے بکھیرتے رہے اور اہل ذوق کو تازگی بھی بخشتے رہے۔
اردو سروس میں متنوع عنوانات:”شمع فروزاں“،”حرف غزل“،’دلّی ڈائری“اور ”آج کی بات“کے تحت عادل صاحب نے سینکڑوں پروگرام پیش کیے۔اردو مجلس میں حالات حاضرہ پر انتہائی چشم کشا تبصرے مدتوںنشر ہوتے رہے اور ان کی سترپچھتر سال کی عمر کے باوجود یہ سنہری سلسلہ جاری رہا۔ان پروگراموں میں ہر ماہ کے اخیر میں پورے مہینے کی خبروں کا خلاصہ اور سال کے اختتام پر عالمی منظر نامے کے جائزے کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ۔جب تک وہ چلتے پھرتے رہے پابندی سے رات سوا نو بجے کی اردو خبروں کے بعد حالات حاضرہ پر ان کے تبصرے نشر ہوتے رہے۔یہ تھی ہندوستان کے ایک بلند پایہ صحافی کی طویل اور روشن صحافتی خدمات کی مختصر جھلک اور اردو کے ایک عظیم سپوت کے چنداہم سوانحی نقوش۔امید ہے کہ ان کی طویل و عظیم اردو خدمات کے پیش نظر اردو اکیڈمیاںاور اردو انجمنیں ان کی طرف توجہ کر یں گی اور نسلِ نو عادل صدیقی مرحوم کے نام و کام سے واقف ہوسکے گی ۔ اللہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے ۔

کرونا کی وبا کے عالمی اثرات اور اس سے حاصل ہونے والا سبق – بقلم بدر الحسن القاسمی

قياسي


کرونا کی وباء نے سارے عالم کے نظام کو تہ و بالا کرکے رکھ دیاہے
بے شمار جانیں اسکا شکار ہوکر نکل رہی ہیں معیشت تباہ ہو کر رہ گئ ہے بہت سے لوگ دانے دانے کے محتاج ہوگئے ہیں تعلیمی مراکز بند پڑے ہیں عبادت گاہیں ویران ہو کر رہ گئی ہیں لوگوں میں دورریاں بڑھ گئی ہیں عورتوں کا تو ذکر ہی کیا مردوں کے چہرہ پر بھی دائمی نقاب پڑگیا ہے اور آدمی آدمی کے سایہ سے بھی ڈرنے لگا ہے اس صورت حال میں قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا کہ:
آفاقیت کا تصور جوتہذیب و ثقافت اور تجارت ومعیشت ہر میدان میں زبردستی تھوپنے کی کوشش کی جارہی تھی وہ باعت راحت ثابت ہورہی ہے یا باعث زحمت؟
کرونا جیسی عالمی وباجس نے محنت کش طبقہ کا میدان عمل چھین لیا ہے اورمحتاج انسانوں کی تعداد بے تحاشا بڑھادی ہے اس میں ان لوگوں کی ذمہ داری کتنی بڑھ گئی ہے جن اللہ نے مالدار بنایا ہے ؟

ان سوالات کے جوابات اور ان مسائل پر بحث و مناقشہ کیلئے 12او13 رمضان المبارک 1442ھ یعنی شنبہ ویکشنبہ 24 اور25 اپریل 2021م کو آن لائن سیمینار منعقد ہوا منتظمین جدہ کے مشہور صنعتکار شیخ صالح کامل مرحوم کے آغاز کردہ ندو ة البركة كا یہ سالانه اكتاليسواں سیمینار تھا جس کا عنوان
الدروس المستفادة من جائحة كارونا
رکھا گیا تھا
چالیس سمینار روں میں شیخ صالح کامل بنفس نفیس شریک رہے سال گزشتہ رمضان میں انکا انتقال ہوگیاتھا اسلئے اکتالیسواں سیمینار کا نظم انکے بیٹے عبد اللہ صالح کامل نے کیا آغاز کے بعد امام وخطیب حرم بین الاقوامی فقہ اکیڈمی کے صدر شیخ صالح بن حمید نے ا فتتاحی خطاب فرمایا اور شیخ صالح کامل کی خدمات کو سراہا اور رمضان المبارک میں چار دہائیو ں سے تسلسل کے ساتھ ندوة البركة كے انعقاد کی اہمیت پر روشنی ڈالی
سیمینار کی پہلی علمی نشست میں آفاقیت کے موضوع دومقالے پیش کئے گئے پہلا مقالہ ڈاکٹر بشیر کا اور دوسرا ڈاکٹر کمال حطاب کا تھا
دوسری نشست کی صدر دبی کے مفتی اعظم ومشہور فقیہ ڈ احمد الحداد تھے انہون نے بڑے علمی انداز سے کار وائی چلائی
اس نشست میں ملک عبد العزیز یونیور سٹی کے ڈاکٹر بلقاسم اور جامعہ زیتونہ کے ڈ الیاس دردور نے مقالات پیش کئے جن کا موضوع کرونا جیسی وباء کے زمانہ میں “اصحاب ثروت لو گوں کے مال میں زکاہ کے علاوہ انفاق کا وجوب ” تھا
مقالہ نگاروں نے شرعی نصوص فقہی واصولی قواعد و ضوابط اور استثنائی حالات کے فقہی احکام سے بھرپور استدلال کیا اور مقاصد شریعت کا بھی حوالہ دیا
مقالات طویل ومفصل ہونے کے ساتھ تحقیقی اور مدلل بھی تھے صدر اجلاس نے بھی مقالات کی تعریف کی اور مقالہ نگاروں کے طریق استدلال واستنتاج کو سراہا
مقالہ پر تعقیب کے دوران ڈ خالد المصلح نے بعض نئے پہلووں کی نشاندہی کی مثال کے طور پر مال دار افراد و اشخاص کے ساتھ اور “شخصیات اعتباریہ “رکھنے والے اداروں کمپنیوں اور اسلامی بینکوں وغیرہ کی ذمہ داریوں کے ذکر پرزور دیا کہ ایسے غیر معمولی حالات میں ضرورت مندوں کی خوراک لباس تعلیم اور علاج وغیرہ کا انتظام کرنے میں انکو حصہ لینا چاہیے
دوسرے تبصرہ کر نے والے اردن کے ڈ عثمان شبیر نے بھی بعض نئےگوشوں کی نشاندہی کی اور اس موضوع پر مراکش کے ڈ حبیب التجکانی کی مفصل کتاب کا حوالہ دیا جو تقریبا 750 صفحات پر مشتمل ہے
نشست کے صدر ڈ احمد الحداد نے بعض دوسرے فقہاء کو بھی مناقشہ کا موقع دیا اور پہلے دن کی نشست کااختتام ہوا
دوسرے دن کے پروگرام میں کرنسی کی پیچیدگیاں اور اس کا مستقبل انویسمنٹ کی الجھنیں اور اسلامی اصولوں کو برتنے میں خود اسلامی مالیاتی اداروں کا تردد جیسے موضوعات زیر بحث رہے
ہنگامی حالات میں سرکاری اداروں مالدار طبقہ اور کمپنیوں وغیرہ کی ذمہ داریوں کے ساتھ کرونا کی وبا کے اثرات سے بچنے کی تدبیریں زیر بحث رہیں
خوشی کی بات ہے کہ شیخ صالح کامل کے لگائے ہوئے اس پودے کو اب مستقل ادارہ کی حیثیت دے دی گئی ہے اس طرح ہر رمضان المبارک میں تسلسل کے ساتھ یہ سیمینار ان شاء اللہ منعقد ہوتا رہے گا
فالحمد للہ علی ذلک واللہ من وراء القصد.

مولانا وحید الدین خاں : فکری کج روی اور ذہنی دیوالیہ پن کی علامت, بقلم مولانا ندیم الواجدی

قياسي

*
مولانا وحید الدین خاں اپنی متنازعہ تحریروں، غیر ضروری مجادلوں اور مناقشوں کی بنا پر کافی شہرت حاصل کرچکے ہیں، سنگھ پریوار کی دوستی نے انہیں قومی ذرائع ابلاغ میں بھی کافی مقبول بنا دیا ہے، حالاں کہ عموماً کسی مسلمان شخصیت کو اس طرح کی پذیرائی نہیں ملتی، لیکن کیوں کہ وہ پورے تسلسل کے ساتھ اس طرح کے خیالات ظاہر کرتے رہتے ہیں جن سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے اس لیے ہندی اور انگلش میڈیا کے لوگ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، ان کا مزاج منفی ہے، اختلافی اور تنقیدی تحریروں اور تقریروں سے ان کو طبعی مناسبت ہے، جب وہ کسی پر تنقید کرتے ہیں تو تمام آداب واخلاق اٹھا کر رکھ دیتے ہیں، ان کا انداز تحریر جارحانہ او ر غیر منصفانہ ہوتا ہے، وہ خود ساختہ دلائل پر اپنی تنقید کی عمارت تعمیر کرتے ہیں، ان کی تحریروں میں اغلاط اور تضادات کی بھرمار ہوتی ہے، انہوں نے عظیم اسلامی شخصیات اور تحریکات کو اپنی تحریروں کے ذریعے جارحانہ تنقید کا نشانہ بنایا، بعض محترم اسلامی شخصیتوں کی طرف غلط باتیں منسوب کرکے وہ انہیں بے دین، ملحد، زندیق اور جہنمی تک ٹھہرا چکے ہیں اسلامی تحریکات کے متعلق ان کا عام خیال یہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہی نہیں بلکہ اسلام کے حق میں نقصان دہ رہی ہیں، ان کی جرأت اور بے باکی اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اسلام کے مسلمہ اصول وعقائد اور تصورات ومعتقدات پر بھی تیشہ زنی کرنے سے نہیں چوکتے۔
وہ ایک اچھے مصنف اور صاحب قلم ضرورہیں، عصری علوم اور اسلامی مآخذ پر بھی ان کی گہری نظر ہے، ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معمولی معمولی باتوں کا گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں اور ان سے بڑے بڑے نتائج اخذ کرلیتے ہیں، شستہ اسلوب میں منطقی اور معروضی طرز استدلال نے ان کو پڑھنے والوں میں نہایت مقبول بنادیا تھا مگر وہ اپنی یہ مقبولیت برقرار نہ رکھ سکے اور بہت جلد تجدد پسندوں میں محدود ہوکر رہ گئے۔
مولانا وحید الدین خاں کا المیہ یہ ہے کہ وہ خود کو عقلِ کُل تصور کرتے ہیں، ان کا خیال یہ ہے کہ مزاجِ اسلام اور تاریخ اسلام کو جس قدر انہوں سمجھا ہے کسی دوسرے عالم نے نہیں سمجھا، وہ غرور علم کے مرض میں مبتلا ہیں اور خود کو کسی مجدد سے کم نہیں سمجھتے ”الرسالہ” میں ان کی غیر متوازن تحریر یں اسلام پسندوں کے لے سوہان روح بنی رہتی ہیں، مذہب کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ انسان کا نجی معاملہ ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام چند معتقدات کا مجموعہ ہے مکمل نظام حیات نہیں ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ فہمِ قرآن کے لیے علوم قرآن کی ضرورت نہیں ہے، احادیث کا بڑا ذخیرہ موضوع اور من گھڑت ہے ،فقہ نے امت اسلامیہ کو انتشار اور افتراق میں مبتلا کیا ہے، تصوف امت کے لیے کسی زہر قاتل سے کم نہیں ہے، اسلامی حدود وتعزیرات مبنی بر انصاف نہیں ہیں دین اسلام مکمل اورجامع دین نہیں ہے، انہوں نے امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، ابن تیمیہؒ، جیسی مسلّم اور قابل احترام شخصیتوں کا مذاق اڑایا اور ان کی خدمات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالے جانے کے قابل گردانا، انہوں نے نواسۂ رسول حضرت حسینؓ پر بھی تیز وتند تنقید یں کی ہیں، حضرت مجدد الف ثانی ؒبھی ان کے تیر ونشتر سے نہ بچ سکے، حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اور ان کے علمی خانوادے کا ہر فرد ان کی جارحانہ تنقید کا نشانہ بنا، انہوں نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ سمیت تمام اکابر دیوبند کا جی بھر کے مذاق اڑایا ، وہ شاعر اسلام علامہ اقبال ؒکو بھی ہدف ملامت بناتے رہے، نہ ان کے یہاں کسی عالم دین کا احترام ہے، نہ کسی مصلح امت کا ،نہ کسی مجدد وقت کا، نہ مفسر ومحدث کا، نہ مجتہد وفقیہ کا، نہ غازی وشہید کا، ”الرسالہ” کے صفحات بھرے پڑے ہیں جس کا جی چاہے دیکھ لے کہ امت کی قابل احترام شخصیتوں کی کس طرح کردار کشی کی گئی ہے، اور کس طرح ان کی خدمات کو خاک میں ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان کے یہاں تو رسول خداحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی وہ درجہ ومقام نہیں ہے جو ایک مؤمن کامل کے دل میں ہونا چاہئے اور جو اس کی تحریروں وتقریروں میں جھلکنا چاہئے، یہی وجہ ہے کہ وہ تمام انبیاء کے مقابلے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کے بھی قائل نہیں ہیں، اگر کسی مسلمان نے شاتم رسول سلمان رشدی، اور دریدہ دہن اور گستاخ مصنفہ تسلیمہ نسرین کی حمایت کی ہے تو وہ وحید الدین خاں ہیں، ملی تحریکوں اور تنظیموں سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے، کوئی ہندو مسلم قضیہ ایسا نہیں ہے جس میں وہ مسلمانوں کو قصور وار نہ ٹھہراتے ہوں بابری مسجد کی شہادت پر انہوں نے خوشی سے بغلیں بجائیں، وہ اس مسجد کو ہمیشہ غاصبانہ قرار دیتے رہے اور مسلمانوں کو یہ تلقین کرتے رہے کہ وہ اس پر اپنے دعوے سے دست بردار ہوجائیں اور اس کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے چھوڑ دیں، ہم نے یہ تمام باتیں پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ لکھی ہیں، اس مختصر مضمون میں یہ گنجائش نہیں کہ ان کے افکار عالیہ کے کچھ نمونے یہاں پیش کئے جائیں جو لوگ ان کی فکری گمراہیوں کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں وہ مندر جہ ذیل کتابیں ضرور پڑھیں، ”فکر کی غلطی” (مولانا عتیق احمد بستوی) ”اسلام میں اہانت رسول کی سزا”، ”وحید الدین خاں علماء اور دانش وروں کی نظر میں” (ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی) ”وحید الدین خاں کی گمراہیاں” (حکیم اجمل خاں) ”مدیر الرسالہ اور تبلیغی جماعت”” مولانا وحید الدین خاں اور مسئلہ بابری مسجد” مولانا وحید الدین خاں کی تنقید یں” (جناب محمد اشفاق حسین)۔”قیامت کی نشانیاں اور مولانا وحید الدین خاں کے نظریات” (ندیم الواجدی)
حال ہی میں انھوں نے میانمار کے ستم رسیدہ روہنگیا مسلمانوں کے زخموں پر بھی نمک پاشی کی ہے، ”الرسالہ” کے ایک مضمون میں ارشاد فرماتے ہیں :”روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں میری رائے صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے!
روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ ظلم کا نہیں ہے، بلکہ مسلم رہ نماؤں کی طرف سے اختیار کئے گئے غلط سیاسی موقف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انجام کا ہے، جس کو روہنگیا کے مسلم لیڈروں نے بھڑکاکر ان کے لیے جذباتی ایشو بنادیا، اگر تصویر کے دونوں رُخ کو دیکھا جائے تو اس سے ایک آدمی اس نتیجے پر پہنچے گا کہ روہنگیا مسلمان ظلم کا شکار نہیں ہیں”۔ یہ ہے وہ موقف جو انھوں نے میانمار کے حالیہ واقعات کے سلسلے میں اختیار کیا ہے، انھیں اس کی پرواہ نہیںہے کہ زمینی حقیقت کیا ہے، اور دنیا کیا کہہ رہی ہے، ان کے خیال میں میانمار کی جمہوری حکومت مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے میں حق بہ جانب ہے، کیوں کہ وہ بغاوت کو کچل رہی ہے جو اس کا آئینی حق ہے، اپنے کسی درسی ساتھی کی شہادت کی بنا پر جو برما کا رہنے والا تھا انھوں نے بدھسٹوں کی تحسین بھی کی ہے کہ وہ بڑے اچھے لوگ ہیں، مولانا نے اراکان (موجودہ نام راکھین) میں مسلمانوں کی آمد کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اسے برما کا ایک صوبہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ صدیوں تک اراکان کے مسلمان برما کے باقی لوگوں کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرتے رہے، اور یہ پُرامن حالت اس وقت تک باقی رہی جب تک کہ ان کے درمیان علیحدگی پسند رجحانات پیدا نہیں ہوئے۔
روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر بحث کا موضوع بنا ہواہے، اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور متعدد ممالک نے میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم وتشدد کا سلسلہ بند کرے اور جو لاکھوں مسلمان وہاں کی فوج اور عوام کے ظلم وستم سے عاجز آکر پڑوسی ملکوں کی طرف ہجرت کرگئے ہیں انھیں واپس لاکر دوبارہ آباد کرے، خود ہندوستان میں بھی چالیس ہزار کے قریب تارکین وطن روہنگیا مسلمان بے سروسامانی کی حالت میں بے یارومدد گار پڑے ہوئے ہیں، مودی حکومت نہیں چاہتی کہ وہ لوگ یہاں رہیں، حالاں کہ ہندوستان کے مسلمان اور یہاں کے سیکولر مزاج اور انصاف پسند ہندو نہیں چاہتے کہ ان مظلوموں کو ملک بدر کیا جائے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ ایک کیس کی سماعت بھی کررہا ہے، پناہ گزینوں کی طرف سے پیروی کرنے والے ایک نامی گرامی ہندو وکیل ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو یہاں سے نکالنا انسانیت کے منافی تو ہے ہی بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہے، مگر ہماری حکومت پوری سنگ دلی کا مظاہرہ کررہی ہے، دوسری طرف وہ سری لنکا ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن پر مہربان ہے، صاف ظاہر ہے کہ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کو اس لیے ملک بدر کرنا چاہتی ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ایسے ماحول میں اور ان دل گداز حالات وواقعات کے تناظر میں مولانا وحید الدین خاں کی تحریر انتہائی تکلیف دہ اور بدبختانہ ضرور ہے مگر حیرت انگیز نہیں ہے، بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگر وہ یہ سب کچھ نہ لکھتے تو مجھے حیرت ہوتی، یہ تو خیر روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ ہے وہ تو فلسطینیوں کی جدوجہد کی بھی تائید نہیں کرتے، انھوں نے ”الرسالہ” (شمارہ اپریل ۲۰۰۹ء) میں قرآن کریم کی ایک آیت کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ارض فلسطین یہودیوں کا جائز اور حقیقی وطن ہے، یہودی ظالم نہیں مظلوم ہیں، ان کے خلاف سیاسی یا فوجی اقدام کرکے اُن کو وطن سے نکالنا غلط ہے، کیوں کہ اس وطن کا وارث اللہ نے انھیں بنایا ہے، احقر نے اسی وقت اپنے ایک مضمون کے ذریعے مولانا کے ان خیالات کا تعاقب کیا تھا اور انھوں نے قرآنی آیات کو توڑ مروڑ کر جس طرح اپنے حق میں استعمال کیا ہے اس کا جائزہ لیا تھا، میرایہ مضمون اس وقت کے اخبارات میں چھپ چکا ہے اور میری کتاب ”قیامت کی نشانیاں اور مولانا وحید الدین خاں کے نظریات” میں بھی شامل ہے، وہاں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے، یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ مولانا وحید الدین خاں اپنے لیے ہر معاملے میں بالکل الگ راستے کا انتخاب کرتے ہیں، خواہ وہ راستہ امت کے سواد اعظم کی راہ سے ہٹ کر کیوں نہ ہو، جو نظریہ وہ قائم کرتے ہیں اس کی بنیاد خود ساختہ دلائل پر ہوتی ہے، حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، ب اراکان کے متعلق ان کے خیالات ہی کو لے لیجئے وہ یہ مانتے ہیں کہ یہاں مسلمان آئے، ان کے اخلاق اور عادات سے متأثر ہوکر یہاں کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا، مگر وہ یہ نہیں مانتے کہ اسلام کے حلقہ بہ گوشوں کی تعداد اس قدر بڑھی کہ اس علاقے میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی، اور یہ حکومت ۱۷۸۴ء تک قائم رہی، وہ یہ کہتے ہیں کہ اراکان صدیوں سے برما کا صوبہ رہا ہے مگروہ یہ نہیں بتلاتے کہ بدھسٹوں نے فوجی کاروائی کے ذریعے ایک آزاد اسلامی ریاست اراکان کو اپنے ملک میں شامل کرلیا تھا، مولانا تو بڑا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں موجود ہیں کاش وہ ایک ایک انگریزی کتاب ” The Muslim of Burma” ہی دیکھ لیتے جس کے مصنف Moshhe yogarہیں اور جس میں انھوں نے اراکان کے وجود سے لے کر آج تک کی مفصل تاریخ رقم کردی ہے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانون کو ان کی بغاوت کی سزا مل رہی ہے، اوّل تو ہمیں یہ تسلیم ہی نہیں کہ دبے کچلے اور بھوکے ننگے لوگ مسلح بغاوت بھی کرسکتے ہیں، اور اگر اسے تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا ان کی یہ جدوجہد غلط قرار دی جائے گی، آخر اُن سے ان کا ملک چھینا گیا، پھر اس ملک میں ان کا جینا دوبھر کیا گیا، ان سے حقوقِ شہریت چھین لئے گئے، ان کی مسجدیں مدرسے سب بند کردئے گئے، ان کے گاؤں دیہات سب جلاکر خاک کردئے گئے، اگر کچھ لوگ ان میں سے اٹھ کھڑے ہوئے ہوں اور انھوں نے جدوجہد کا راستہ اپنایا ہو تو کیا غلط ہے، اس طرح تو ہندوستان کی تحریک آزادی پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے، انگریز بھی تو بدھسٹوں کی طرح ہمارے ملک پر قابض ہوئے تھے، ویسے بھی مولانا وحید الدین خاں کو یہ بتلانا چاہئے کہ اراکان میں مسلمانوں کی کونسی اور کتنی مسلح تنظیمیں سرگرم ہیں، اور ان کی جدوجہد کے نتیجے میں بدھسٹوں کو کتنا جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے برعکس وہاں مسلمانوں کی جو حالت ِ زار ہے وہ ساری دنیا پر عیاں ہے، یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں راکھیں کے روہنگیا مسلمانوں کو ”دنیا کی مظلوم ترین اقلیت”قرار دیا ہے، ہوسکتا ہے مولانا وحید الدین خاں کو اس طرح کی تحریروں سے کچھ وقتی فائدہ پہنچ جائے مگر اس عارضی زندگی کے بعد وہ خالق کائنات کی بارگاہ میں حاضرہوکر اپنے ان نظریات وخیالات کی کیا توجیہ اور تاویل کریں گے جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وقتاً فوقتاً ظاہر کرتے رہتے ہیں۔

مولانا وحید الدین خان – ایک مفکر ایک مصنف / بقلم بدر الحسن القاسمی

قياسي

مولانا وحید الدین خان صاحب بھی اپنی زندگی کے ایام پورےکرکے اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اناللہ وانا الیہ راجعون
وہ ایک اچھے قلم کار اورممتاز انشاپرداز تھے
اپنی زندگی میں وہ کئی مراحل سے گزرے
ایک زمانہ میں وہ مولانا ابوالاعلی مودودی کی جماعت کے معتمد افراد میں شمار کئے جاتے تھے مرکزی شوری کے رکن بھی تھے اور انکے بعض مضامین جماعت کے نصاب کی کتاب” تعمیری ادب “کا حصہ تھے
پھر مودودی صاحب کے فکر سے اختلاف ہوا تو انہوں نے طویل خط وکتابت کی جس میں دو “انا “کا ٹکڑا ؤ یہاں تک پہنچا کہ مودودی صاحب کو یقین ہوگیا کہ اب یہ قابو سے باہر جا چکے ہیں اب انکی فہمائش ممکن نہیں رہی اور انکو یہ یقین ہوگیا کہ مودودی صاحب کے پاس میرے اشکال کا جواب نہیں ہے نتیجة 15سال کے بعد وہ جماعت سے علاحدہ ہوگئے
پھر ان کی منزل ندو ةالعلماء کا ادارہ تحقیقات بھی بنا اور اس زمانہ میں مولاناابو الحسن علی ندوی صاحب کی شخصیت کے بعض پہلو سے اپنے تاثرکا بھی اظہارفرمایا
پھر جلدہی انکی منزل مولانا اسعد مدنی کی جمعیت علماء بن گئی اور وہ ہفت روزہ ” الجمعیہ “کے ایڈیٹر بنائے گئے جبکہ روز نامہ الجمعیہ کے ایڈیٹر ناموراوربزرگ صحافی جناب عثمان فارقلیط صاحب تھے
ہفت روزہ الجمعیہ وحید الدین خاں صاحب کی ادارت میں بیحد مقبول ہوا اسکے پہلے صفحہ پر کسی واقعہ یا خبر سے انکے نتیجہ اخذکرنے کا انداز نرالا تھا اسکے پڑھنے کیلئے نوجوانوں میں خاص طور پر اشتیاق پایا جاتاتھا اس سے ذوق عمل پیدا ہوتا کر کو جلا ملتی
وہ ریڈر ڈائجسٹ وغیرہ میں شائع شدہ بعض خبروں سے بہترین اور تعمیری نتائج مستنبط کرتے تھے اس نے خاص طور پر ہفت روزہ کو کافی مشہور و مقبول بنادیا تھا
اور جمعیت سے قریب ہونے کی وجہ سے دارالعلوم دیو بند میں بھی انکی آمد ورفت کا دروازہ کھل گیاتھا چنانچہ استاذ گرامی مولانا وحید الزماں کیرانوی صاحب کی معیت میں دارالعلوم کی دار الحدیث میں انکی تقریریں بھی ہونے لگیں
انہوں نے مولانا کیرانوی صاحب سے انٹرویو بھی لیا تھا
پھر جمعیت سے بھی الگ ہوکراپنی ا سابقہ ڈگر پر آگئے
انکی کتابوں میں “علم جدید کا چیلنج” بیحد مقبول ہوئی جو ادارہ تحقیقات سے شائع ہوئی تھی اور اس کا عربی ترجمہ” الاسلام یتحدی” بھی عرب دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا جس میں انکے لائق بیٹے ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کی کوششوں کو بھی دخل ہے جنکے لیبیا اور مصر کے علمی وثقافتی حلقوں سے تعلقات ا چھے تھے
کرنل معمر القذافی کی ” الکتاب الاخضر “کے اردو ترجمہ نے انکو بڑی حد تک کسی کا ماتحت رہ کر یا کسی ادارہ سے وابستہ ہو کر کام کرنے کی ضرورت سے بے نیاز کردیاتھا
نظام الدین میں انکی کوٹھی ہی انکے آفس اور الرسالہ کے دفتر اور انکی تصنیفات کے دارالنشر کیلئے کافی تھی
انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں
جنمیں سیرت کی کتاب قرآن کریم کی عوامی اور دعوتی انداز کی مختصر تفسیر
اور تجدید دین وغیرہ کے موضوعات شامل ہیں
انہوں نے تبلیغی تحریک کے نام سے بھی ایک رسالہ لکھاہے اور تبلیغی جماعت کے بعض بزرگوں سے وہ ملتے بھی رہتے تھے
جماعت اسلامی اور عصر حاضر کی دوسری اسلامی سیاسی تحریکوں اخوان وغیرہ کے سخت ناقد تھے
مودودی صاحب کی چار بنیادی اصطلاحوں پر تنقید میں انکو سبقت حاصل ہے بعد میں دین کی تفہیم و تشریح کے عنوان سے جو کچھ لکھاگیا ہے وہ انکی کتاب پڑھنے کے بعد ہی لوگوں نے لکھا ہے
انکی کتاب” تعبیر کی غلطی “کے نام سے چھپی تھی شروع میں مودودی صاحب کے ساتھ خط وکتابت کی تفصیل ہے
پچھلے سالوں میں انکا رویہ مسلم مسائل میں بیحد سلبی ہوگیا تھا فسادات وغیرہ میں مسلمانوں ہی کو ذمہ دار ٹھہرانے کا رویہ انہوں نے اپنالیا تھا اسلئے مسلم دشمنوں کے حلقہ میں انکی پذیرائی بڑھ گئی تھی جو کسی طرح انکے شایان شان بات نہیں تھی
انکی تحریریں عام طور پر حشو وزوائد سے پاک اور اچھی نثر کا نمونہ ہواکرتی تھیں
انہوں نے بہت سے نزاعی مسائل بھی چھیڑے ہیں کسی زمانہ میں ایک طویل مضمون تاریخ ندوہ سے شبلی کے اخراج کے عنوان سے لکھ دیا
تفسیر کا نام ہی انہوں نے ایسا رکھا ہے جسکی طرف علمی نکات کے خوگر علما ء کی توجہ نہیں ہوسکتی
تجدید دین کا تخیل بھی مودودی صاحب کی طرح علماء کی تنقید کی زد پر رہاہے
کوئی مسقل تحریک برپا کرنے میں تو وہ کامیاب نہیں رہے لیکن انہوں نے خود کو مودودی صاحب کی سطح کے قائد اور مولاناابو الحسن علی ندوی کے درجہ کے داعی سے کم تر کبھی نہیں سمجھا بلکہ اپنے آپ کو استثنائی قسم کا داعی مہدی اور مسیح کے طرز کا مصلح بناکر بھیجے جانے کا اشارة ذکر کرتے رہے
انہوں نے تحریری کام بہت کیا ہے اورفکری غلطیاں بھی بعض بڑی اور پہاڑ جیسی ہیں دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے دعاء ہے کہ اللہ تعالی انہیں جنت نصیب کرے اور دین کی غلط سمجھ سے لوگوں کو محفوظ رکھے آمین
خان صاحب سے اپنی بعض ملاقاتوں کا ذکر میں نے النخیل کے” احوال مطالعہ” نمبر میں کیا تھا انکی تفصیل وہاں دیکھی جاسکتی ہے
انکی گفتگو کا انداز عموما فلسفیانہ باتیں بیشتر ناقدانہ اورتحریریں خوبصورت ہی نہیں بڑی حد تک ساحرانہ ہوتی تھیں
مولانا وحید الدین خاں نے طویل عمر پائی 1925 م میں پیدا ہوئے2021م وفات پائی اور ہوش سنبھالنے کے بعد سے وفات تک برابر لکھتے ہی رہے
انکی لکھی ہوئی کتابوں اور تحریروں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرلینا چاہیے :
1 “علم جدید کا چیلنج”جسے بعد میں “مذھب اور جدید سائنس کے نام سے شائع کیا گیا اور اس کا عربی ترجمہ “الاسلام یتحدی” کے نام سے متعارف ہے وہ مفید ہے اور اسی سلسلہ کی بعض دوسری تحریریں بھی جن میں استدلال کا نیا انداز اختیارکیا گیا ہے
2 وہ کتابیں جو انہوں نے مہدی مسیح دجال اور بعض دیگر علامات قیامت کے بارے میں لکھی ہیں بعض نصوص کا انکار کیا اور بعض کی ایسی تاویل کی ہے جو شرعی اصولوں کے قطعی خلاف ہے
اسی طرح وہ تحریریں جو غلام احمد قادیانی جیسے کذاب اور دگر مدعیان نبوت کے بارے میں لکھی ہیں وہ انتہائی گمراہ کن ہیں ان سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے
3 وہ تحریریں جن میں اسلام کی تعلیمات کے بعض حصہ کو ناقابل عمل اور عیسائیت کی بعض تعلیمات کو ان پر ترجح دینے کی بات کہی گئی ہے وہ بھی دیوانہ کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی” ان الدین عند اللہ الاسلام ”
4جہاد کے الغاء اور ہر حال میں دشمنوں کے ظلم کو برداشت کرنے کی تلقین فلسطینیوں کو اپنے حق سے یھودیوں کے حق میں دست بردار ہونے کے بارے میں یہی کہا جاسکتا کہ اسکااسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے انکی رائےہے:
ومن یھن یسھل الھوان علیه
وما لجرح بميت ايلا م
اب وه اس دنيا ميں نہیں رہے دعاء ہے کہ رب کائنات انکی لغزشوں کو معاف کر ے اور جو اچھے کام انہوں نے کئے ہیں انکو قبولیت سے نوازے اور امت مسلمہ کو فکرو عقیدہ کی گمراہیوں سے محفوظ رکھے
مرنے والے کے محاسن علمی اوصاف یااخلاقی خو بیوں کےذکر کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے لو گ جنکی غلطیاں متعدی ہوں اور لوگوں کی طرف سے مبالغہ آمیز تحریریں آرہی ہوں اور انکے بارے میں سکوت سے دین کے نقصان کا اندیشہ ہو وہاں غلطیوں سے لوگوں کو آگاہ بھی نہ کیا جائے
پھر توعلم الجرح والتعدیل کی اساس ہی منھدم ہو جائیگی

مولانا وحيد الدين خان رحمة الله عليه (1925-2021) – بقلم ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم مولانا وحيد الدين خان رحمة الله عليه
(1925-2021)

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

برسوں لگى رہى ہيں ان مہر ومہ كى آنكهيں
تب كوئى ہم سا صاحب صاحب نظر بنے ہے
ابهى خبر ملى كه آج (بروز چہار شنبه 9 رمضان المبارك 1442ه مطابق 21 اپريل 2021) ہندوستان كے معروف اسلامى مفكر ومصنف مولانا وحيد الدين خان كا چهيانوے سال كى عمر ميں انتقال ہوگيا، كئى دہائيوں سے بر صغير ميں ان كى انفراديت مسلم تهى، وه تقليد ، قدامت پسندى اور اكابر پرستى سے دور تهے، مجتہدانه اور محققانه شان كے حامل تهے، اور ان كو تخليق وابتكار سے دلچسپى تهى، وه “نہيں” كو “ہيں” ميں بدلنے كے قائل تهے، اور اس كے لئے ہر قسم كى جد وجہد كرتے، يه انہيں كا قول ہے: “جو لوگ تخليق كى صلاحيت كهو ديں، وه كسى اور چيز كے ذريعه يہاں اپنا مقام نہيں پاسكتے، خواه وه كتنا ہى شور وغل كريں، خواه ان كے فرياد واحتجاج كے الفاظ سے تمام زمين وآسمان گونج اٹهيں، وه لاؤڈ اسپيكروں كا شور تو برپا كرسكتے ہيں، مگر وه استحكام كا خاموش قلعه كبهى كهڑا نہيں كرسكتے” (كتاب زندگى ص 11) ۔
مولانا كى پيدائش اعظمگڑه كے ايك گاؤں ميں ہوئى تهى، مدرسة الاصلاح سرائے مير ميں تعليم پائى، ذاتى محنت سے انگريزى ميں دسترس حاصل كى اور علوم جديده كا گہرائى سے مطالعه كيا، دار العلوم ندوة العلماء ميں قيام كے دوران اپنى سب سے معركة الآراء كتاب مذہب اور جديد چيلنج تصنيف كى، جو مجلس تحقيقات ونشريات اسلام سے سنه 1966 ميں شائع ہوئى، اور اس كا عربى ترجمه “الاسلام يتحدى” كے نام سے كويت سے سنه 1970 ميں طبع ہوا، جماعت اسلامى سے وابسته رہے، الجمعيت ميں كچه روز كام كيا، پهر سب سے الگ ہوكر اپنى منفرد شناخت بنائى، اور مثبت تحريروں كے ذريعه فكر اسلامى كے ارتقاء ميں حصه ليا ۔
ندوه كى طالبعلمى سے ميں الرسالة كا قارى رہا ہوں، اور ہميشه مولانا كے مضاميں بڑے شوق سے پڑهتا ، مولانا ريڈرز ڈائجسٹ اور انگريزى اخبارات اور مجلات سے چهوٹى كہانيوں كو ليكر ان سے بہترين استنتاج كرتے تهے، انگريزى مواد سے غير معمولى شغف كى وجه سے ان پر انگريزى تعبيرات كا غلبه ہوگيا تها، اس سے ان كى اردو بهى متاثر ہوئى، جس طرح كه ہمارے بہت سے علماء پر عربى تعبيرات كا غلبه رہتا ہے، علامه شبلى ، علامه سيد سليمان ندوى، مولانا سيد ابو الحسن على ندوى،اور مولانا مودودى كے بعد علماء ميں وه لوگ نادر الوجود ہيں جو خالص اور مستند اردو لكهتے ہوں ۔
مولانا سے پہلى ملاقات نظام الدين ميں ان كے گهر پر سنه 1983 ميں ہوئى، وه ابهى جلد ہى وہاں منتقل ہوئے تهے، اس وقت وه زياد تر نمازيں مركز نظام الدين ميں ادا كرتے تهے، اور تبليغى جماعت كى افاديت كے قائل تهے، بعد ميں تبليغ كے متعلق ان كى رائے بدل گئى تهى، اس ملاقات ميں ان سے ايك خاص تعلق ہوگيا تها، پهر جب بهى دلى جانا ہوتا تو ان سے ملاقات كى كوشش كرتا، مولانا كے صاحبزادے جناب ڈاكٹر ثانى اثنين خان اور ان كى پوتياں يہاں آكسفورڈ مجه سے ملاقات كے لئے بهى آئے، اور ان سے ايميل كے ذريعه وقتا فوقتا رابطه بهى رہا، ہر ملاقات ميں مولانا اپنى كوئى نه كوئى كتاب ضرور ہديه كرتے، اور ان كى گفتگو سے فكر ونظر كے نئے دريچے وا ہوتے، ايك بار ان سے ملاقات كے لئے حاضر ہوا تو اپنے گهر كے سارے افراد كو بلايا اور مجه سے كچه نصيحت كرنے كے لئے فرمايا، ميں نے عرض كيا كه آپ كے سامنے كچه كہنے كى ہمت نہيں پڑتى، مگر مولانا كا اصرار جارى رہا تو مولانا ہى كى زندگى كے كچه اسباق ان كے سامنے ركهے، مولانا نے ايك بار مجه سے ميرى كتاب محدثات كے متعلق دريافت كيا اور پوچها كه ان خواتين كى زندگى ميں غير مسلم عورتوں كے لئے سيكهنے كى كيا چيز ہے؟ ميں نے كسى وجه سے اس موضوع پر گفتگو كرنے سے معذرت كرلى ۔
انہوں نے بڑى فعال، متحرك اور سرگرم زندگى گزارى، وه ايك محنتى انسان تهے، راحت طلبى سے كوسوں دور تهے، ايك بار گرميوں ميں ان سے ملنے گيا تو اپنے بالائى كمره ميں سخت گرمى ميں اپنے كام ميں مشغول تهے، چهت كى تپش جسم پر محسوس ہو رہى تهى، ہم لوگوں كے لئے وہاں بيٹهنا مشكل تها، ميں نے عرض كيا كه اس گرمى ميں آپ كو كسى ٹهنڈے كمره ميں كام كرنا چاہئے تو انہوں نے كہا كه مجهے اس كى عادت ہوگئى ہے، اور كچه پته نہيں چلتا، محنت كا يه جذبه ان كى حيرت انگيز كاركردگى كى روح ہے، ان كى يه بات بڑى قيمتى ہے:”حقيقت يه ہے كه تمام علوم محنت كى درسگاه ميں پڑهائے جاتے ہيں، تمام ترقياں محنت كى قيمت دے كر حاصل ہوتى ہيں، اور محنت وه چيز ہے جو ہر آدمى كو حاصل رہتى ہے، حتى كه اس آدمى كو بهى جس كو بيمارى نے معذور بناديا ہو، جو كالج اور يونيورسٹى كى ڈگرى لينے ميں ناكام ثابت ہوا ہو، محنت ايك ايسا سرمايه ہے جو كبهى كسى كے لئے ختم نہيں ہوتا” (كتاب زندگى ص 12) ۔
مولانا بنيادى طور پر ايك مفكر ودانشور تهے، يعنى وه جذبات واحساسات كى گرفت سے آزاد ہوكر عقل كى رہبرى ميں كوئى بات كہتے تهے يا كوئى اقدام كرتے تهے، بر صغير ميں عام مسلمان رہنما اس فكر ميں رہتے ہيں كه كہيں ان كا حلقه ان سے كٹ نه جائے، كہيں ان كى مقبوليت پر آنچ نه آجائے، نتيجه ہے كه ان كى فكر رسوم وروايات كى بندشوں سے نكل نہيں پاتى، اور وه اسى دائره ميں گردش كرتے رہتے ہيں، انہيں نه دوسرے جہانوں كا علم ہوتا ہے اور نه اپنے بادۂ دردى آميز كے سوا كسى شراب خالص وصافى كى جستجو ہوتى ہے:
آئين نو سے ڈرنا طرز كہن په اڑنا
منزل يہى كٹهن ہے قوموں كى زندگى ميں
مولانا كا خيال تها كه ہندوستان كے علما ء ومصلحين روح عصر سے خالى ہيں، انہيں يه اندازه نہيں كه آزادى كے بعد ايك نئے ہندوستان نے جنم ليا ہے، ان كے رويوں سے لگتا ہے كه گويا وه مغليه دور ميں، يا خلافت عباسيه ميں، يا عہد آل عثمان ميں جى رہے ہيں، كور پسندى اور غفلت كے اس ماحول ميں وه تنہا مفكر ہيں جو روح عصر كى منادى كرتا ہے، طبقۂ علماء ميں اس وقت ان كے علاوه كوئى نہيں جو عصرى اسلوب ميں لكهتا ہو، اس ميں شايد كچه مبالغه ہو، ليكن اس سے كون انكار كرسكتا ہے كه جس استقلال كے ساته انہوں نے اپنے زمانه كے انسانوں كو خود ان كى زبانوں ميں پيغام حق سنانے كى ذمه دارى نبهائى ہے وه ان كا عظيم كارنامه ہے ۔
ان كو سوچنے كى عادت تهى، اور اس دائره سے باہر نكل كر سوچتے تهے جس كے اندر عام پڑهے لكهے لوگ مقيد ہوتے ہيں، اور جس سے نكلنے كى نہيں سوچ سكتے، بلكه نكلنے كو كفر وفسق سے تعبير كرتے ہيں، مولانا ان بندشوں سے آزاد تهے، ان كى يه بات بالكل سچ ہے: “ہر زمانه ميں ايسا ہوتا ہے كه بعض خيالات آدمى كے ذہن پر اتنا زياده چها جاتے ہيں كه ان سے نكل كر آزادانه طور پر سوچنا آدمى كے لئے نا ممكن ہو جاتا ہے، يه مذہبى دائره ميں بهى ہوتا ہے، اور غير مذہبى دائره ميں بهى، يه بند ذہن ہر قسم كى ترقى كے لئے سب سے بڑى ركاوٹ ہے” (كتاب زندگى ص 39) ۔
اس پر ان كا ايمان واجب الاذعان تها كه مسلمانوں كى ترقى كا راسته پر امن ماحول ميں كام كرنا ہے، ان كا يه ارشاد گرامى اسلامى مراجع كے وسيع وعميق مطالعه كا ثمره ہے: “حقيقت يه ہے كه اسلام ميں امن كى حيثيت عموم (rule) كى ہے، اورجنگ كى حيثيت صرف استثناء (exception) كى، اسلام كى تمام تعليمات اور پيغمبر اسلام كى عملى زندگى اس كى تصديق كرتى ہے” (امن عالم ص 13) ۔
انہوں نے لوگوں سے اختلاف كيا اور لوگوں نے ان سے اختلاف كيا، اور اختلاف اگر مہذب اور معقول ہو تو افكار ونظريات كى تطہير كا ذريعه ہوتا ہے، مگر افسوس كه ان كے متعلق بدگمانياں بہت پهيلائى گئيں، ان كے خيالات كو صحيح ومعتدل معيار پر نہيں جانچا گيا، خود مولانا نے علامه اقبال، مولانا مودودى، اور مولانا ابو الحسن ندوى رحمہم الله پر جو تنقيديں كيں ان ميں نقائص تهے، انہوں نے ان بزرگوں كے سياق كو سمجهنے كى كوشش نہيں كى، اور كہيں كہيں صاف معلوم ہوتا ہے كه ان كى تنقيد بالكل بيجا ہے ۔
مولانا نه فقيه تهے، نه محدث اور نه قديم علوم كے ماہر، وه ہندوستان كے موجوده ماحول ميں مسلمانوں كو زنده رہنے، پر امن طريقه سے اسلام كى تعليم اور دعوت عام كرنے اور ترقى كى راه پر گام زن ہونے كا درس ديتے تهے، وه ممكن كى موجودگى ميں ناممكن كے پيچهے وقت ضائع كرنے كو بيوقوفى سمجهتے تهے، واقعه ہے كه متعدد حيثيتوں سے ان كا طريقۂ كار قابل عمل ہے، اور شايد آئنده ان كے مخالفين بهى وہى باتيں كريں گے جن پر اب تك تنقيد كرتے رہے ہيں ۔
كون ہے جو اس كا اعتراف نه كرے كه مولانا نے بے شمار انسانوں كے ذہنوں كو متاثر كيا، ان كى تحريروں نے جديد تعليميافته طبقه كى رہنمائى ميں بڑا كردار ادا كيا، انہوں نے مثبت اور پر امن طريقه سے ٹهوس اور پائيدار كام كرنے كا نمونه پيش كيا، اور كتنے مايوس لوگوں كو ياس ونا اميدى سے نكالا اور انہيں جينے كا حوصله ديا ، وه يه كہ سكتے ہيں “شادم از زندگى خويش كه كارے كردم”، رحمه الله رحمة واسعة ۔