الإجازات الهندية وتراجم علمائها – عمر بن محمد سراج حبيب الله

قياسي

تعريف بقلم: سيد عبد الماجد الغوري

هذا الكتابُ بمثابة موسوعةٍ حافلةٍ في إجازات علماء شِبْه القارَّة الهندية وتَرَاجِمهم الْمُختصَرة، يقع في سبع مجلَّدات، وقد طالعتُ بعضها أيام العيد، والكتابُ تحفةٌ قيمةٌ للمُعتنين بالأثبات والْمَشْيَخَات والإجازات الحديثيّة. طُبع في دار المحدِّث بالرياض ومكتبة نظام يعقوبي الخاصَّة بالمنامة في البَحْرَين، عام 1443ﻫ.

واختار المؤلِّفُ شِبْهَ القارَّة الهندية مجالاً لعَمَله الجليل هذا؛ لأنَّها البلادُ التي صارت مدارَ الرِّوايةِ الحديثيةِ السَّمَاعيةِ الْمُجوَّدةِ عند المحدِّثين المتأخّرين، وسَبَقَتْ سِوَاها في مجال خدمة الحديث النبويّ وحفظِ أصوله وطباعتِها وشُرُوحِها…، وقد تصدَّى لهذا المشروعِ العظيمِ العالِمُ البَحَّاثة الشيخ عُمَر بن محمَّد سِرَاج حبيب الله، فجزاه الله عن ذلك خير الجزاء وأجزله.

وقد تحدَّث الشيخ محمَّد زياد بن عُمَر التُّكْلَة في مقالٍ عن منهج المؤلِّف في تأليف هذا الكتاب النفيس، وإليكم مُلخَّصَه بتصرُّفٍ وزيادةٍ من مُسوَّدة المجلَّد الرابع من كتابي “المدخل إلى مصادر الحديث ومراجعه”:

1 – قام المؤلِّفُ بنَشْر وتحقيق ما تحصَّل عليه من جمعٍ دَؤُوبٍ لنُصُوص الإجازات الحديثية – لا غيرها – في شِبْه القارَّة الهندية، ووسَّع الشَّرْطَ بحيث أدخل فيه مَن كان أحد طَرَفي الإجازة – الْمُجِيز أو الْمُجَاز-  منسوباً للهند الكبرى – قبل انقسامها إلى “باكستان” ثم و”بَنْغَلاَدَيْش” -، أو مُتوطِّناً فيها، واستثنى من ذلك بلادَ السِّنْدِ.

2 – رتَّب الكتابَ على تواريخ الإجازات نُزُولاً من سنة 1399ﻫ إلى سنة 999ﻫ، وهذا الترتيبُ وإنْ كان غير مُعتادٍ في كتب التَّرَاجِم؛ ولكن مُؤلِّفه تقصَّده ليُدخِل طبقةَ كبار الْمَشَايِخ المعاصرين في شرط الكتاب، وهذا من كمال الإفادة والنُّصْح؛ لأنَّ فيه الدِّلالة على كثيرٍ من الرِّوايات المعاصرة، الباقية والْمُوازَية، ليستفيد منها الطَّلَبَةُ والباحثون.

3 – قام بالتعليق على كثيرٍ من الإجازات، والتنبيهِ على كَمٍّ هائلٍ من الأخطاء والأوهام.

4 – قام بتحرير تَرَاجِم كُلٍّ من الْمُجِيز والْمُجَاز من الهنود، تَرَاجِم مُتوسّطة غالباً، ولكن فيها عنايةُ تامّةٌ بأمر تحرير الرِّواية، والتفريقِ بين شُيُوْخ الدِّراية والرِّواية، والحرصِ على ضَبْط المسموعات، وهذا أمرٌ قَلَّ مَن يهتمّ به من أهل التَّرَاجِم المتأخّرة. وفي أثناء ذلك تَرْجَمَ لكثيرين في الهوامش أثناء التَّرَاجِم الرئيسة.

5 –  خَتَم التَّرَاجِمَ بالاتِّصال الإسنادي إلى صاحبها.

6 –  حَفَل الكتابَ بمئات الوثائق النَّفيسة، ومن أَهمِّها صُوَر الإجازات التي نَسَخها وحقَّقها، وصُوَر كثيرٍ من الْمَشَايِخ، والْمَدَارِس، والأبنية والشَّواهد التاريخية، والخطوط، وفوائد أخرى متَّصلة، مما يَهُمّ الباحث في التَّرَاجِم والأسانيد، وكثيرٌ من هذه الوثائق تُنشَر للمرَّة الأولى.

7 – بَدَأ الكتابَ بتمهيدٍ سَرَد فيه تاريخيّاً مناهجَ التَّدريسِ والكتب المعتمدة في التَّدريس غالباً في الهند، إلى وقت انتشار “الدَّرْس النِّظَامِيّ” الذي سادَ البلادَ – وأورد أيضًا مَسْرَدَ المناهج وأنصبة التَّدريس في كبريات الجامعات والمدارس الهندية مِثل: “دار العلوم ديُوبَنْد الإسلامية”، و”جامعة مَظَاهِر العلوم” بسَهَارنْفُور، و”الجامعة الإسلامية” بدَابِهيْل، و”المدرسة الرحمانية” بدابِهيل، و”دار العلوم نَدْوة العلماء” بلَكْنُو، و”الجامعة السَّلَفية” ببَنَارَس؛ليتُعرَّف عَبْرَها على المسموعات.

8 – ألحق كتابَه بعَمَلٍ جليلٍ نبيلٍ، وهو سَرْدُ مئة وخمسين صفحةٍ من استدعاءاته الهندية التي حصَّلها خلال رحلاته المتتابعة للهند وغيرها، وذَكَر أثناء ذلك تَرَاجِم هؤلاء الْمُجِيزين المعاصرين، وحرَّر مرويّاتِهم.

9 – خَتَم الكتابَ بسَرْدٍ لأشهر المصادر العربية التي اعتمدها ، ثم سَرَد فهارسَ للآيات، وللأحاديث والآثار، والأشعار، والكُتُب، والتَّرَاجِم. ثم عَمِلَ فهرساً للأعلام الواردين في الكتاب، إضافةً لفهرس المواضيع العامَّة.

رمضان المبارک کا ایک بہت ہی اہم کام  – پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی

قياسي

گاہے گاہے

دوست بھی با اختیار بھی، ہمدرد بھی کارساز بھی

فطری خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا دوست ہو جس سے ہر بات شئیر کی جا سکے، جس سے کوئی پردہ نہ ہو، اپنی حماقتیں، غلطیاں، کمینگیاں اور خباثتیں بتانے میں کوئی شے مانع نہ ہو. اس کی وجہ سے بندہ ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے، کیتھارسس ہوتا رہتا ہے، ماضی کی آلودگیوں کو اتار پھینک کر بندہ آگے چل پڑتا ہے. بالخصوص اگر دوست ایسا ہو کہ وہ سب کچھ سن کر اور جان کر جذب کر جائے گا، کسی کو بتائے گا نہ کہیں رسوا کرے گا، پردہ دری اس کے ہاں بڑا عیب سمجھا جاتا ہو
تو کون ہے جو ایسے دوست کی خواہش نہیں کرے گا.
فرض کیجے کہ وہ صرف اس طرح کا نہیں جو ہم نے اوپر بیان کیا بلکہ وہ آپ کی ماضی کی غلطیوں سے ہونے والے نقصانات کا بھی ازالہ کر سکتا ہو اور آپ کو مستقبل کے متوقع نقصانات سے بچا سکتا ہو. آپ کے دن رات کے جو مشاغل ہیں ان میں ہر لمحہ آپ کے ساتھ ساتھ رہ کر آپ کے کام آسان کرسکتا ہو، آپ کو نالائقیوں سے بچاتا ہو، آپ کی کامیابی کا ضامن ہو یعنی صرف آپ کا جگری یار ہی نہ ہو بلکہ آپ کا سرپرست اور نگہبان بھی ہو تو کیا آپ ایسے دوست کو نظر انداز کرنے کی غلطی کر سکتے ہیں
ہر گز نہیں
اللہ نے ہمیں یہی بات بتائی ہے کہ وہ اہل ایمان کا” ولی” ہے.
ولی کا مطلب جگری دوست
اور ہر وقت خیال رکھنے والا، نگرانی اور حفاظت کرنے والا کہ میرے دوست کو کوئی بدنی، مالی، فکری، جذباتی اور نفسیاتی ٹھیس نہ پہنچے .
لیکن
اس کے لئے اس نے ایک ضابطہ بنایا ہوا ہے
مجھے یاد رکھو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا
مجھے بھول جاؤ گے تو میں تمہیں بھول جاؤں گا.
رمضان کا با برکت مہینہ ہے.
ہم بہت کمزور بندے ہیں، مشقت نہیں کر سکتے لیکن ہمارا دماغ ہر وقت مصروف رہتا ہے، کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے. اس سال رمضان میں ہم یہ ایک کام کریں کہ کوئی بھی کام اکیلے نہ کریں، جو کریں، اپنے ولی کو ساتھ رکھ کر کریں. ہر سوچ اس کے ساتھ شئیر کریں، ہر مسئلہ اس کے ساتھ ڈسکس کریں، ہر وقت اسے پاس رکھیں. مشکل کاموں کے لئے اسے کہیں کہ میں نے بس شروع کرنا ہے آگے کروانا اور مکمل تونے کرنا ہے، بچہ بیمار ہے، اسے بتائیں اور کہیں کہ آپ کو ڈاکٹر تلاش کر کے دے، رزق میں تنگی ہے، اس سے شکایت کریں کہ وہ آپ کے لیے وسائل مہیا کرے، آپ اس کی نگرانی میں، اس کے ساتھ مل کر بس اپنے حصے کا کام کریں گے. بیوی ناراض ہو گئی ہے تو اسے بتائیں کہ آپ بیوی کے بغیر نہیں رہ سکتے وہ راضی نامہ کے لئے اپنا کردار ادا کرے.
غرضیکہ کوئی بھی مسئلہ ہو، زبان سے بات کئے بغیر، دل ہی دل میں اسے بتائیں اور اس کے ذمے لگا دیں پھر اس کی طرف سے جو طریقہ پیدا ہوتا چلا جائے اس کو پوری دیانت داری سے استعمال کرتے چلے جائیں.اس کے ساتھ ہمہ وقتی گفتگو جاری رکھیں
ایک ماہ کی یہ مشق آپ کی ساری زندگی سکھی کر دے گی.
دعاؤں میں یاد رکھیں
طفیل ہاشمی

أدب المنفى الفلسطيني دراسة في كتابات مريد البرغوثي – دكتور مطيع الرحمن محبوب

قياسي

نام کتاب: أدب المنفى الفلسطيني: دراسة في كتابات مريد البرغوثي
تأليف: ڈاکٹر مطيع الرحمن محبوب (السلفي) ڈاکٹریٹ جواهر لال نہرو یونیورسٹی، نيو دلهي
تبصرہ بقلم راشد حسن مبارک پوری


فاضل دوست ڈاکٹر مطیع نے بہت اچھوتے عنوان پر قلم اٹھایا ہے، اور سچ یہ ہے کہ کمال کردیا، مشمول ہمہ جہت اور شاندار، اسلوب نہایت شستہ بلکہ ادیبانہ، تنوع اور جدت میں بے نظیر، یوں سمجھیں اپنے موضوع پر مکمل کتاب ہے.
خاکسار کا مقدمہ چسپاں ہے، ایم فل کے مقالے پر مقدمہ لکھنا میرا منصب نہیں، نہ کسی طرح کی خوش گمانی ہے، بس ایک بہت ہی عزیز دوست، ہم نوالہ وہم پیالہ کے حکم کی تکمیل ..
جس دوست سے عہد ماضی میں (یعنی جامعہ سلفیہ کے دنوں میں) رشتہ بندھا جو مرور ایام کے ساتھ خوبصورت اور مستحکم ہوتا چلا گیا، جو میرے ناول (ایک کتاب فروش کی ڈائری) کی وجہ بنا اور جن تین دوستوں کے نام یہ ناول منسوب ہے ان میں ایک یہ بھی ہے، جب بھی دہلی آیا یہ تینوں ہزار مصروفیات کے باوصف ایک شام گزارنے یکجا ہوگئے ..
ڈاکٹر مطیع ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک خوبصورت انسان ہیں، جس کی طرف اس مقدمہ میں اشارہ ہے، بلکہ مقدمہ کے اخیر میں میرے اوریجنل احساسات ہیں، جو پہلی ملاقات سے آج تک ہو بہو ہیں، کوئی فرق نہ آیا، ملاحظہ کرسکتے ہیں.
قارئین کی خدمت میں بس اتنا، بقیہ کبھی اور
فہرست، مقدمہ اور مؤلف کے ابتدائیہ کا کچھ عکس دیکھیں ..
اللہ قبول عطا کرے.

أدب المنفى الفلسطيني دراسة في كتابات مريد البرغوثي

پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی صاحب کا ایک شاندار انٹرویو از رانا محمد آصف

قياسي

روزنامہ 92 نیوز کی 18 نومبر 2018 کی اشاعت میں نامور سیرت نگار جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی صاحب کا شاندار انٹرویو شائع ہوا

۔ بھائی رانا محمد آصف صاحب کی عمدہ کاوش(کاپی)

مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سابق ڈائریکٹر اور ممتاز سیرت نگار پروفیسر یسین مظہر صدیقی سے ایک ملاقات

محققین کو عہد رسالت ﷺ سے متعلق آج بھی نئی معلومات مل جاتی ہیں

٭ رسول اکرم ﷺ کا تاریخی مقام ایمان نہ لانے والوں نے بھی تسلیم کیا ٭ قرآن مجید سیرت مبارکہ کا سب سے بڑا ماخذ ہے٭مکی دور میں آپ ﷺ کی تعلیم و تربیت کا حلقہ بہت وسیع تھا، عام تاثر یہ ہے کہ بہت کم افراد نے اثر قبول کیا ٭ابن اسحاق، ابن ہشام ، واقدی ، ابن سعد اور طبری سیرت کے بنیادی مصادر ہیں ٭شبلیؒ اردو میں سیرت نگاری کے معلّم اوّ ل ہیں

گفتگو: رانا محمد آصف
تصاویر: شاہ رُخ

محمد یٰسین مظہر صدیقی 26دسمبر1944ءکو اُترپردیش میں پیدا ہوئے۔والد کا نام مولوی انعام علی تھا۔ بتاتے ہیں کہ والد نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اسے عالم دین بناؤں گا۔
اپنے آبائی اور ایک تاریخی قصبے گولا سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا، جس کے بعد 1953 میں لکھنو ¿ چلے گئے۔وہاں ندوة العلماء سے 1959ءمیں ’عالم ‘ اور 1960ءمیں لکھنو ¿یونیورسٹی سے ’فاضل ادب‘ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد والد کی خواہش پر شادی ہوگئی۔ والد نے میڈیکل اسٹور کھول کر دے دیا لیکن انھیں اس میں دلچسپی نہ تھی، والد نے یہ دیکھ کر وجہ معلوم کی تو بتا دیا کہ اگر میں نے دینی علوم پڑھ کر بھی یہی کام کرنا تھا تو پڑھنے کا کیا فائدہ؟ جو پڑھا تھا، وہ بھی اب بھولتا جار ہا ہے۔ اس پر والد نے دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کی اجازت دی۔ اب انہوں نے انگریزی تعلیم کا آغاز کیا۔ جامعہ ملّیہ میں ہائیر سیکنڈری میں داخلہ لے لیا، 1960ءسے 1962ءتک ہائیر سیکنڈری کیا اور پھر بی اے میں داخلہ لے لیا۔ 1968ءمیں علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے کا آغاز کیا۔1969 میں ایم فل مکمل کیا اور 1970 میں ادارے کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ 1975 میں پی ایچ ڈی مکمل ہوئی۔ شعبہ ¿ تاریخ میں تقرر ہوا اور 14سال خدمات کے بعد 1983ءمیں شعبہ علوم اسلامیہ میں ریڈر ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا گیا۔ 1991 میں فل پروفیسر ہوگئے۔ مسلم علی گڑھ یونیورسٹی میں ڈائریکٹر شعبہ علوم اسلامیہ کی ذمہ داری انجام دیتے رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ”شاہ ولی اﷲ ریسرچ سیل“ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ آپ کو شاہ ولی اﷲ ایوارڈسے بھی نوازا گیا۔ پروفیسر یٰسین کہتے ہیں کہ سیرت نگاری کی جانب راغب کرنے والے محرک اول والد محترم تھے، اساتذہ میں مولانا سعیدالرحمن اعظمی صاحب جو ندوہ میں مہتمم بھی ہیں، وہ ابتدا میں استاد نہیں تھے لیکن انہوں نے تربیت اور تصنیف کے کام پر بہت توجہ دی۔ مولانا رابع حسنی ندوی اور مولانا سید ابولحسن علی ندوی سے کسب فیض کیا، اسی طرح مولانا اسحاق سندیلوی ، جو پاکستان آگئے تھے، حدیث کے استاد رہے، انہوں نے لکھنے کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ جامعہ میں اپنے دو شیعہ اساتذہ مجاہد حسین زیدی اور قیصر زیدی کو بہت محبت سے یاد کرتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی نے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا لیکن سیرت نگاری کے شعبے میں خدمات سے آپ کی پہچان بنی۔ آپ کی عربی، اردو اور انگریزی زبان میں متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں اور دیگر موضوعات اور بالخصوص سیرت النبی ﷺ پر آپ کے پانچ سو کے قریب مقالات مختلف جرائد میں شایع ہوچکے ہیں۔ اس موضوع کے اہل تحقیق آپ کو قاضی سلیمان منصور پوری،مولانا شبلی اور سید سلیمان ندوی کی روایتی سیرت نگاری کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ سیرت نبویﷺ کے موضوع پر آپ کی 15سے زائد مستقل تصانیف میں مصادر سیرت نبویﷺ ، تاریخ تہذیب اسلامی، عہد نبویﷺ میں تنظیم ریاست و حکومت، نبی اکرمﷺ اور خواتین: ایک سماجی مطالعہ، عہد نبویﷺ میں تمدّن اور دیگر مایہ ناز کُتب شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں پروفیسر یسین مظہر صدیقی پاکستان تشریف لائے تو کراچی میں دعوة اکیڈمی کے روح رواں اور سیرت نگاری کے نمایاں محققین میں شامل ڈاکٹر سید عزیزالرحمن کے ہاں ان سے ایک نشست ہوئی، جس کا احوال آپ کے سامنے ہے۔

٭ کیا سوانح نویسی کی طرح سیرت نگاری کے بھی مختلف اسلوب ہیں؟

یاسین مظہر صدیقی: ڈاکٹر محمود احمد غازی نے سیرت نگاری کے اسالیب بیان کیے ، جس کی تعبیر وتشریح ہمارے سید عزیز الرحمن صاحب نے فرمائی۔ دراصل سیرت نگاری تاریخ کا حصہ ہے۔ بنیادی طور پر اس کا اسلوب تاریخ ہی کا ہوتا ہے۔ البتہ دو بنیادی فرق بیان کیے جاتے ہیں، جس میں سے ایک محدثین اور دوسرا سیرت نگاروں کا اسلوب ہے۔ محدثین میں جس طرح ابن اثیر شیبانی تھے، یہ بارہویں صدی کے آدمی تھے، انھوں نے صرف حدیث کی بنیاد پر سیرت لکھی۔ موجودہ دور میں اکرم ضیا عمری ہیں جنھوں نے حدیث کی کتابوں کو بنیاد بنا کر سوانح کی تفصیلات یکجا کی ہیں۔ لیکن چوں کہ حدیث تمام سوانح کا احاطہ نہیں کرتی مجبوراً ہمیں تاریخ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اصلاً سیرت ہر ایک کا تاریخی بیانیہ ہی ہوتا ہے۔ اس میں چوں کہ قرآن سے متعلق مباحث آتے رہتے ہیں، مختلف مواقع پر ہونے والے مکالمے ہیں، جنگوں کا بیان ہے اس لیے مختلف اسلوب بھی پیدا ہوجاتے ہیں کہ یہاں کلامی مبحث ہے، یہاں دعوتی ہے۔ لیکن یہ سب کے سب بنیادی طور پر تاریخی اسالیب ہیں۔

٭آپ نے سیرت کے مصادر و مآخذ پر بھی ایک کتاب مرتب کی، اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے کچھ بنیادی مآخذ و مصادر بتائیے؟

پروفیسر یاسین مظہر صدیقی: سب سے پہلے قرآن مجید ہے، اس میں آپ ﷺ کی شخصیت، خاندان، زبان و بیان اور دیگر سوانح سے متعلق باتیں موجود ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ قرآن سوانح کی کتاب نہیں، اس میں صرف اشارے ملتے ہیں۔ قرآن مجید میں آپ ﷺ کی پوری دعوت پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد حدیث کی کتابیں ہیں جن میں تفصیلات ملتی ہیں۔ خالصتاً سیرت کی کتابوں میں ابن اسحاق، ابن ہشام ، واقدی ، ابن سعد اور طبری یہ چار پانچ بنیادی کتابیں ہیں۔ بعد میں لکھی جانے والی کتابیں انہی کی بنیاد پر لکھی گئیں۔

٭ مسلم سیاست کی بحث میں جب تاریخی روایات بیان کی جاتی ہیں تو ان میں سے بعض پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ محض تاریخ ہے اور اس میں بہت رطب و یابس ہے، اس بحث پر آپ کی رائے کیا ہے؟

پروفیسر یاسین مظہر صدیقی: دراصل تاریخ میں Internal evidenceیا داخلی شہادت کا ایک اصول ہوتا ہے۔ اس کے بعد External evidence یا خارجی شواہد کو دیکھا جاتا ہے اور واقعاتی شہادت کو دیکھنا ہوتا۔ روایات تو بہت سی ہیں اور ان میں ایک دوسرے سے متضاد روایات بھی موجود ہیں جن کی تعداد بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ ان میں سے صحیح روایات دیکھنا ہوتی ہیں، جن کے لیے بیان کردہ شواہد مل جاتے ہیں انھیں تسلیم کرلیا جاتا ہے اور باقی کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یہ سچ کو غلط سے الگ کرنے کا طریقہ ہے۔ مثلاً رسول اکرم ﷺ کی ولادت کی تاریخ سے متعلق ربیع الاول کی دو، چار ، آٹھ، نو، دس اور بارہ تاریخ کی روایات ملتی ہیں۔ مختلف تاریخیں اختیار کرنے والے مختلف دلائل دیتے ہیں لیکن وہ اتنے قوی نہیں ہیں۔ ابن اسحاق نے صرف ایک تاریخ 12ربیع الاوّل دی ہے اور بہت سے سیرت نگار 12ربیع الاوّل بیان کرتے ہیں۔ پھر جب ہم رسول اﷲ ﷺ کی زندگی کے واقعات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 12 ربیع الاوّل بہت اہم تاریخ ہے، اسی دن آپ ﷺ کی ولادت ہوئی، اسی دن نبوت ملی، اسی تاریخ کو ہجرت کی اور اسی تاریخ کو آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔ ان سب تاریخوں کو جب سامنے رکھا جاتا ہے تو خارجی اور واقعاتی شہادتیں بھی جمع ہوجاتی ہیں اور اسے زیادہ قابل قبول تسلیم کیا جاتا ہے۔

٭ حدیث کی اسناد تو مرتب کی گئی، یہ اہتمام تاریخ میں کیوں نہیں کیا گیا؟
پروفیسر یاسین مظہر صدیقی: شروع میں تو تاریخ کی سندیں نہیں تھیں اور شروع میں محدثین نے بھی سندوں کی پروا نہیں کی لیکن دھیرے دھیرے سندوں کا اہتمام بڑھتا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ سند کے بغیر آنے والا متن قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد ایک اور مسئلہ پیدا ہوگیا، لوگوں نے اپنے غلط واقعات کے لیے بھی سندیں گھڑ لیں، جعل سازی شروع ہوگئی، انہوں نے اتنا پکا کام کیا کہ سند کے اعتبار سے ان پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب سند بھی درست ہے، متن بھی درست ہے لیکن وہ بات واقعتاً غلط ہے۔ اس کی جانچ پرکھ کے لیے ایک طریقہ اختیار کیا کہ جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ ممکن ہے بھی یا نہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒ نے اصول قائم کیا کہ اگر کوئی واقعہ فطرت اور تسلیم شدہ واقعات کے خلاف ہو تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسے دس بارہ اصول بیان کردیے۔ چھوٹے سے عمل پر بہت زیادہ ثواب ہو یا چھوٹے سے گناہ پر بہت زیادہ عذاب ہو تو روایت کو نہیں مانا جائے گا۔ تو اس طرح بہت سے اصول بیان کردیے گئے۔ ان اصولوں پر پرکھنے کے بعد ہی ہم صحیح یا غلط کا فیصلہ کرپاتے ہیں پھر آپ کا جو سوال ہے تو اسے یوں دیکھنا چاہیے کہ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے سے تاریخ کی ایک زیریں رو چلی آرہی ہے، اس میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہوجائے۔ اس دور سے آج تک دیکھیں تو بنیادی چیزیں قائم رہتی ہیں اور حالات کے مطابق کچھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ادارے ہوں، اخلاق یا حقائق ہوں وہ اپنی بنیادی جگہ پر رہتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں بعض علما کہہ دیتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے باہر کی چیزیں نہیں لیں، لیکن یہ ان کے فہم کا قصور ہے۔ دینار و درہم باہر سے لیے گئے، اسی طرح جزیے کا تصور باہر کا ہے،عربوں کے ہاں مرکزی حکومت کو تصور ہی نہیں تھا، آپ ﷺ نے ان چیزوں کو قبول کیا اس لیے کہ اﷲ تعالی چاہتا تھا کہ ایک مرکزی حکومت ہونی چاہیے تاکہ قبائلی تقسیم کی بنیاد پر ہونے والی افرا تفری پر قابو پایا جائے۔ اس لیے رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں ایسے پچاسوں ادارے ہیں جو باہر سے آئے۔ اس لیے فرمایا کہ جو بھی اچھی چیز جہاں سے ملے وہ ہماری ہے، اسے ہمیں لے لینا چاہیے۔ اس لیے یہ کہنا کہ فلاں تصور بعد کے زمانے میں آیا اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ سب نے ضرورت کے تحت اسے قبول کیا۔

٭ابتداءسے لے کر آج تک سیرت نگاری میں کیا ارتقا ہوا؟

یاسین مظہر صدیقی: ارتقا تو ہوا ہے، لیکن عجیب و غریب معاملہ یہ ہے کہ ابن اسحاق نے جو پیٹرن قائم کردیا تھا ابن ہشام نے اسی پر عمل کیا اور بعد کے لوگوں نے بھی اسی پر کام کیا۔ جس کے مطابق واقعات کو تاریخی ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے، اس میں پہلے مکی دور آتا ہے اس کے بعد مدنی دور اسی ترتیب سے چلے آتے ہیں۔ اس پیٹرن کی اپنی خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ مثلاً تاریخ کو بیان کرتے ہوئے جن مباحث کا ذکر آتا ہے ان میں سے ایسے موضوعات بھی ہوتے ہیں جن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں ہوپاتا، کیوں کہ اس سے تاریخی بیان کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً یہود سے مختلف ادوار میں جنگیں ہوئیں، تین یا چار برس میں الگ الگ ہوئی ہیں۔ لیکن تاریخ بیان کرتے ہوئے مختلف گروہوں کے ساتھ ہونے والی جنگوں کو الگ الگ بیان کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوپاتا کہ مختلف ادوار میں یہود ونصاری، عرب کے شمالی قبائل یا دیگر گروہوں سے رسول اﷲ ﷺ کے تعلقات کی نوعیت کیا رہی۔ اس کے لیے تھیمیٹک یا موضوعاتی تناظر اختیار کیا گیا، جس کا آغاز اردو میں شبلیؒ نے کیا۔ انہوں نے ہر گروہ سے ہونے والی جنگوں کو الگ الگ بیان کرنا شروع کیا لیکن اسے قائم نہیں رکھ سکے، کیوں کہ خیبر کے بعد سب گروہ آپس میں ملتے گئے۔ اس میں ڈاکٹر حمید اﷲ نے کچھ اضافہ کیا، کچھ خاکسار نے بھی یہی کوشش کی۔ مثلاً رسول اﷲ ﷺ کی خارجہ پالیسی کیا تھی۔ اس طریقے پر عمل سے ایسی کتابیں وجود میں آئیں جو موضوعاتی تناظر سے لکھی گئی ہیں، جن میں خارجہ پالیسی، دیگر مذاہب کے لوگوں سے تعلقات، معاہدات وغیرہ ساری چیزیں الگ الگ آگئیں۔ یہی طریقہ بہتر ہے۔ اسی طرح معلومات کا مسئلہ ہے، روز نئی اور قیمتی معلومات سامنے آرہی ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے رسول اﷲ ﷺ کے بارے میں جو کچھ معلوم ہونا تھا وہ ہوچکا لیکن تلاش کرنے والے کو آج بھی کسی نہ کسی ذرائع سے نئی معلومات مل جاتی ہیں۔ معلومات ملنے کے بعد اس کی تعبیرات کی جاتی ہیں اور نئے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے ابن اسحاق و ابن ہشام سے لے کر بارہویں صدی میں زرقانی تک آئیں تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ زرقانی نے ان تمام ماخذات سے معلومات جمع کردیں جو آج دستیاب بھی نہیں۔ اس میں کچھ روایتیں کمزور بھی ہیں لیکن کام بہت اچھا ہے۔

٭ آپ کے خیال میں سیرت کا تھیمیٹک یا موضوعی مطالعہ روایتی انداز کے مقابلے میں بہتر اور مطلوب ہے؟

یاسین مظہر صدیقی: میرے خیال میں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ طلبا و اساتذہ اور سیرت کے قارئین کے لیے زیادہ مفید ہے۔ اگر موضوعاتی انداز نہیں ہوگا تو ہم کسی بھی موضوع سے متعلق سیرت کے پہلووں کو واضح انداز میں سامنے نہیں لاسکیں گے۔ مثلاً آپ ﷺ کے اپنے خاندان سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔ ہمارے ہاں ایک عام تاثر یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے دعوت دین کا آغاز کیا تو سب نے مخالفت کی، جب کہ ایسا نہیں تھا۔ کچھ مخالفت کرنے والے تھے اور کچھ غیر جانب دار تھے اور بعض کی رائے تھی جو کررہے ہیں کرنے دو، اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ اس پر میں نے اور اتفاق سے ڈاکٹر نثار احمد نے بھی اسی نوعیت کا کام کیا کہ اسلام کی دعوت پر قریش کا ردعمل کیا تھا۔ ایسے لوگ موجود تھے جو ایمان نہیں لائے لیکن آپ ﷺ کے معاون تھے اور سمجھتے تھے کہ اس میں عربوں کا مفاد ہے۔ یہ نئی نئی معلومات موضوعی اندازِ تحقیق کی وجہ سے سامنے آئی ہیں۔

٭ مسلمانوں کا سیرت سے جو تعلق ہونا چاہیے، سیرت پر لکھا گیا لٹریچر اس کے لیے کافی ہے؟
یاسین مظہر صدیقی: کافی تو نہیں ہوسکتا۔ رسول اﷲ ﷺ سے ہمارے تعلق کو دو طرح سے بیان کیا جاتا ہے۔ ایک ہمارا آپ ﷺ سے ایمان و عقیدے کا تعلق ہے اور ایک آپ ﷺ کا تاریخ میں مقام ہے۔ حالاں کہ یہ الگ الگ نہیں، ہمارے لیے یہ لازم و ملزوم ہے۔ لیکن جو ایمان نہیں رکھتے ان کے لیے آپ ﷺ کا تاریخی مقام تو ہے، دنیا کی سو عظیم شخصیات پر کتاب لکھنے والا رسول اﷲ ﷺ کا تذکرہ سب سے پہلے کیوں کرتا ہے حالاں کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ لیکن اس نے دیکھا کہ کس شخصیت نے دنیا پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کیے اور اسی بنیاد پر سب سے پہلے آپ ﷺ کا تذکرہ کیا۔ کیرم اسٹرانگ نے پہلے کتاب لکھی تو اس کا عنوان رکھا “A Biography of The Prophet”۔ لیکن اس کے بعد “Muhammad: A Prophet for Our Time” کے عنوان سے بھی کتاب لکھی، یعنی وہ بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ رسول ہمارے زمانے کے ہیں۔ یہ اپروچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ درست بھی ہے۔ آپ ﷺ تو سب کے لیے تھے، پہلے لوگوں کا خیال تھا کہ آپ ﷺ صرف عربوں کے لیے آئے ہیں یا مکّے والوں کے لیے آئے ہیں۔ رفتہ رفتہ انھیں احساس ہوا کہ نہیں یہ تو ہمارے لیے بھی آئے ہیں اور پھر ثابت ہوا کہ آپ ﷺ سب کے لیے تشریف لائے۔

ڈرامے اور ناول کی صنف میں بھی سیرت نگاری پر کام ہوا

٭ سیرت پر مستشرقین کے اور مغرب میں ہونے والے کام کو کیسے دیکھتے ہیں؟
یاسین مظہر صدیقی: اسے ہم تین بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا دور تو خالصتاً رسول اﷲ ﷺ اور اسلام کی مخالفت کا دور تھا، وہ تو عناد کا زمانہ تھا جس میں اعتراضات کیے گئے۔ دوسرا دور وہ ہے جب لوگوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے، اس میں کار لائل وغیرہ شامل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بہت سے باتیں تسلیم کرنی چاہییں۔ ایک جانب کار لائل آپ ﷺ کی شخصیت کی تعریف کرتا ہے لیکن دوسری جانب وہ قرآن کو نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ یہ ایسی الجھی ہوئی کتاب ہے کہ خدا کا کلام نہیں ہوسکتا۔ وہ چوں کہ قرآن کے طرز بیان سے واقف نہیں تھا اس لیے یہ بات کی۔ پھر تیسرا دور آتا ہے جو موجودہ دور ہے۔ اب لوگوں نے سنجیدگی سے پڑھنا شروع کیا، وہ ابھی بھی اپنے نکتہ نظر سے اعتراض کرتے ہیں لیکن یہ اعتراض برائے اعتراض نہیں ہوتا بلکہ بنیادی طور پر ادراک کا فرق ہے۔ اب اس کا موازنہ کرلیتے ہیں۔ مثلاً اپنے انبیاءؑ کے بارے میں یہودیوں اور عیسیائیوں کا نکتہ نظر کیا ہے، وہ نہیں ہے جو ہمارا ہے۔ وہ فلمیں بناتے ہیں وہ ان کے بارے میں نامناسب باتیں بھی ان میں دکھا دیتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے رسول ﷺ کے بارے میں یہ تصور نہیں کرسکتے۔ مجھے ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آتا ہے، توفیق حکیم نے عربی میں ڈرامے کی ہئیت کا استعمال کرتے ہوئے سیرت کی کتاب ”محمد ﷺ“ لکھی۔ توفیق حکیم ڈرامے لکھا کرتے تھے۔ اس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا کہ یہ آپ ﷺ کے شایان شان نہیں ہے۔ میں نے بی اے میں یہ کتاب پڑھی، مجھے تو بہت لطف آیا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ دور آنکھوں کے سامنے ہے۔ پاکستان میں عطیہ خلیل عرب نے اس کا بہت خوب صورت ترجمہ کیا۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ ڈرامے کی ادبی صنف میں بھی سیرت کو لکھا جاسکتا ہے۔ طہ حسین نے بالکل ناول کے انداز میں لکھا اور کتنا خوب صورت لکھا ہے، وہ چھوٹی سی کتاب ہے لیکن پڑھیے اور جھومتے جائیے۔ خالصتاً ایک تاثراتی تحریر عباس محمد العقاد کی ہے، اسے پڑھ کر آپ کو نبی ﷺ کی شخصی عظمت کا اندازہ ہوگا۔ یہ ساری تبدیلیاں ہمارے ہاں آتی رہی ہیں۔

٭ برصغیر میں سیرت پر شبلیؒ کی کتاب کو ممتاز ترین مقام حاصل ہے، کیا بعد میں آنے والوں نے اسے آگے بڑھایا؟
یاسین مظہر صدیقی: کئی لوگوں نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ سیدسلمان ندوی، ڈاکٹر حمید اﷲ نے آگے بڑھایا۔ پاکستان میں اس وقت بہت کام ہورہا ہے۔ ہندوستان میں بھی اچھا کام ہورہا ہے۔ شبلی نے جس کام کا آغاز کیا تھا اسی کی روشنی میں ہم آگے بڑھے، اس شعبے میں ہمارے معلّم اوّل وہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کتاب کو سو برس ہوچکے ہیں اس میں بہت سی تبدیلیاں ہونی چاہییں اور لوگ اس میں اضافہ کررہے ہیں۔

٭ آپ خود تحقیق سے وابستہ ہیں، برصغیر میں سیرت پر ہونے والے تحقیقی کام سے مطمئن ہیں؟
یاسین مظہر صدیقی: مطمئن تو نہیں۔ بعض لوگوں کا معیار بہت اچھا ہے، لیکن زیادہ تر لوگ صرف نقل کررہے ہیں۔ نقل کرنے میں دو خرابیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ شبلی ہی کو نقل کرتے آرہے ہیں اور اسی پر کام ہورہا ہے مثلاً شبلی کی سیرت کی جلد اوّل کا مطالعہ ، جلد دوم کا مطالعہ وغیرہ۔ اس میں صرف یہ بیان کردیتے ہیں اس جلد میں یہ مباحث ہیں ، یا یہ خاص بات ہے لیکن اس میں اضافہ نہیں کررہے ہیں۔ اس کا فائدہ کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ شبلی کا تنقیدی مطالعہ کررہے ہیں۔ نشاندہی کرتے ہیں کہ فلاں فلاں چیزیں انہوں نے چھوڑ دیں اور ان میں یہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ کام مقالات اور کتابوں دونوں شکل میں آرہا ہے۔ شبلی کا ہاں بہت سی چیزیں رہ گئیں تھیں مثلاً مواخات مکّی پر بعد میں کام ہوا۔ مکی دور میں رسول ﷺ نے جو تعلیم و تربیت کی تھی اور وہ کتنے افراد تھے؟ اس بارے میں مختلف آرا ہیں۔ پہلے لوگوں نے اسے 150تک بتایا ، مولانا مودودیؒ نے 139آدمی بیان کیے، یہ بھی ناقص رائے ہے۔ یہ حلقہ بہت وسیع ہے۔ مجھے موقعہ ملا اور تفصیل بیان کی تو سیکڑوں سے اوپر تعداد چلی گئی، ہزاروں میں ہوگئی۔ اسی طرح ڈاکٹر حمید اﷲ نے کام کیا تو نئی باتیں سامنے آئیں۔

٭ مسلمان آج جس داخلی انتشار کا شکار ہیں، اس میں سیرت سے کیا رہنمائی لی جاسکتی ہے؟
یاسین مظہر صدیقی: میں ہندوستان اور پاکستان میں مدتوں سے مختلف مواقع پر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہمارا بنیادی کام امت کی تعمیر تھا، اس کے بغیر سلطنت و ریاست تعمیر نہیں ہوسکتی۔ پاکستان میں یہ مسئلہ ہوا کہ ریاست تو بن گئی لیکن امت نہیں بن سکی۔ میں اس کی تعبیر یوں کرتا ہوں کہ پاکستان 13برس کا مکی دور گزارے بغیر ہی مدنی دور میں داخل ہوگیا، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ ہندوستان میں خرابی یہ ہوئی کہ ہم مکّی دور ہی میں رہ گئے لیکن ہم نے معاشرے کی تعمیر نہیں کی، قیادت نہیں ہے، اجتماعیت نہیں ہے، امت میں اتحاد نہیں ہے۔ بڑا بول کیا کہیں کہ ہمارے ہاں مقامی سطح کی قیادت نہیں۔ مسلکیت نے مزید بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں تنظیم یا اجتماعیت پیدا نہیں ہوسکی۔ یہی کرنے کا کام ہے۔

٭ علی گڑھ اور ندوہ برصغیر میں مسلمانوں کے قائم کردہ قدرے جدید ادارے ہیں، ان کا اثر بھی تھا۔ ان اداروں میں جو رواداری پائی جاتی تھی وہ سوسائٹی میں کیوں منتقل نہیں ہوسکی اس کا کیا سبب ہے؟
یاسین مظہر صدیقی: مسئلہ مسلکیت ،تعصب اور بے خبری کا ہے۔ میں بائبل کی ایک آیت اکثر نقل کرتا ہوں، I am holier than thou۔ یہ تصور کہ ہم تو مقدس ہیں اور آپ نالائق ہیں۔ میں توکبھی مزاحاً کہہ دیتا ہوں کہ جس کی چھے انچ کی داڑھی ہے وہ خود کو چار انچ داڑھی والے سے فرو تر سمجھتا ہے، اگر اس سے چھوٹی ہے تو کسی کام کی نہیں اور داڑھی منڈا ہے تو سمجھیے مسلمان ہی نہیں ہے۔ یہ کون سا طریقہ ہم نے اختیار کررکھا ہے؟ رسول اﷲ ﷺ کا طریقہ تو یہ نہیں تھا۔ ہماری ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ ہم برائیوں پر نظر رکھتے ہیں اچھائیں پر نہیں۔ ہم جوڑ کر رکھنے والے نہیں، توڑتے رہتے ہیں۔ ایک مغربی اسکالرنے کہا تھا کہ محمد ﷺ نے اپنے حریفوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کا دل جیت کر اپنا حامی بنانے کی حکمت عملی اپنائی۔ کتنے ایسے لوگ تھے جو آپ ﷺ کے جانی دشمن تھے اور بعد میں آپ کے ساتھی بن گئے، اور آپ ﷺ نے کبھی زندگی بھر ایسے لوگوں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا کہ تم تو مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں بھی اس انداز پر سوچنا ہوگا۔

٭ مسلم معاشروں میں بھی الحاد کی لہر پیدا ہوگئی ہے، اس تناظر میں سیرت نگار کی ذمے داریاں کیا ہیں؟
یاسین مظہر: سیرت نگار کو دو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ کہ رسول کریم ﷺ کو بحیثیت انسان اور کامل انسان پیش کیا جائے۔ اس لیے کہ ملحد دینی پہلو پر نظر نہیں رکھتا۔ آپ کے اعتقاد اپنی جگہ لیکن وہ تو کسی پیغمبر کو پہلے بطور انسان دیکھنے کی اپروچ رکھتا ہے۔ میرے دو ہندو شاگرد ایک مرتبہ مجھ سے ملنے آئے، میں اس وقت ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں چلا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سر ہمارے تو آئیڈیل آپ ہیں، آپ کا آئیڈیل کون ہے۔ میں نے کہا کہ تمھیں سن کر حیرت ہوگی، میرے آئیڈیل تو حضرت محمد ﷺ ہیں۔ ان کے چہرے پر مجھے ناگواری کا احساس ہوا۔ میں نے ان سے کہا کہ پوچھو میں نے ان کا نام کیوں لیا، پھر ان سے پوچھا کہ آپ نے میرا نام کیوں لیا تھا؟ تو کہنے لگے آپ بہت اچھا پڑھاتے تھے، ہمدردی کرتے تھے۔ پڑھانے میں خیال کرتے تھے، کبھی ہندو مسلم کا فرق نہیں کیا، ہماری حوصلہ افزائی کی، ہمارے ذاتی مسائل میں بھی مدد کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا چلیے تو واضح ہوگیا، میں اب آپ کو صرف ایک بات بتاتا ہوں۔ حضرت محمد ﷺ نے حکم دیا کہ مجھے تنہائی میں یا سب کے سامنے جو کرتے دیکھو سب کے سامنے بیان کردو۔ وہ طالب علم ایک دَم سنّاٹے میں آگئے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سوچ سکتے ہو کہ میں یا کوئی اور یہ بات کہے کہ مجھے جو کرتے دیکھو بیان کردو۔ انہوں نے جواب دیا نہیں کرسکتے۔ میں نے کہا کہ اُن کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ فرمایا جو کرتے دیکھو بیان کردو۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ بات وہی کرسکتا ہے جس کی زندگی سب کے سامنے ہو اور صحیح ہو۔ یہاں ہزارہ یونیورسٹی میں مجھے بچوں نے گھیر لیا اور کہا کہ ہم آپ سے اپنا اساتذہ کی غیر موجودگی میں الگ سے باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، انہوں نے بھی الحاد کے بارے میں سوالات کیے۔ ایک طالب علم نے کہا کہ میرا ایک دوست بڑا پابند صوم و صلوة تھا ، اس کے والد کا ایک حادثے میں انتقال ہوا تو بالکل خلاف ہوگیا اور سب نے اسے چھوڑ دیا۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل غلط بات ہے، اب اس کے ساتھ اور میل ملاپ رکھو۔ اس کا ہاتھ بٹاو، اس کے دکھ درد بٹاو، اس کی مدد کرتے رہو۔ اسے بتاو ¿ کہ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔ جس حادثے میں تم والدین سے محروم ہوئے اس میں اور بھی تو کتنے لوگ تھے جو جان سے گئے۔ اسی علاقے میں زلزلے سے ہزاروں لوگوں کی موت ہوئی۔ پھر حضرت محمد ﷺ بھی اس حادثے سے گزرے کہ ان کے والد تو پہلے ہی انتقال کرچکے تھے۔ پھر والدہ اور دادا کا بھی انتقال ہوگیا اور وہ تنہا رہے گئے۔ پھر وہ سوچنا شروع کرے گا، اسے اپنے گردونواح کا مشاہدہ کرنے کا کہیں۔ دھیرے دھیرے اسے یہ احساس ہونا شروع ہوگا کہ جو میرے ساتھ ہوا وہ انوکھی بات نہیں۔ زندگی کے ایسے حادثات سے متاثر ہونا بھی فطری ہے۔ اس لیے ایسے افراد کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہے، انھیں سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

٭ ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ طلبا ہوں یا عام لوگ مطالعے پر توجہ نہیں دے پاتے، تفصیلی چیزیں نہیں پڑھتے۔ مطالعے کے لیے مختصر مگر جامع کتابیں کیا تجویز کریں گے؟
یاسین مظہر صدیقی: سارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ پڑھتے نہیں ہیں۔ چاہے پروفیسر ہوں ، اساتذہ ہوں یا طلبہ کوئی نہیں پڑھتا۔ اب مطالعہ کرنے والے پانچ فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔ مستقل مطالعہ اور تحقیق کرنا تو اور بھی کم ہوگیا۔ اس میں موبائل اور انٹر نیٹ کی وجہ سے بھی خرابیاں پیداہوئیں، ان کی اچھائیاں بھی ہیں، لیکن مطالعے کی عادت ختم ہوگئی۔ معلومات اور علم میں فرق کرنا چاہیے۔ معلومات تو ڈھیروں ڈھیر مل جاتی ہے، لیکن علم رفتہ رفتہ آتا ہے اور اس کا تعلق قلم و کتاب سے ہے۔ بنیادی کتابوں میں ڈاکٹر حمید اﷲ کی ”محمد الرسول اﷲﷺ“ ، مارٹن لنگز کی کتاب کا ترجمہ ہوچکا ہے وہ بھی اہم ہے۔ میری تصنیف ”تاریخ تہذیب اسلامی“ کی جلد اول پڑھ سکتے ہیں۔ نوجوان طبقے کے لیے نعیم صدیقی کی ”محسن انسانیت ﷺ“ ہے۔ بچوں کے لیے ”رحمت عالمﷺ“ اور ”محمد عربیﷺ“ اور مائل خیرآبادی کی کتابیں ہیں۔

٭آپ جامعہ علی گڑھ میں ”شاہ ولی اﷲ“ ریسریچ سیل کے سربراہ بھی رہے وہاں کیا کام ہورہا ہے؟
پروفیسریاسین مظہر: وہاں کام رک تو گیا ہے لیکن انفرادی طور پر لوگ کام کررہے ہیں، سیل تو بند ہے۔ طلبا میں شوق پیدا ہوا ہے اور اسپیشل اسٹڈی آن شاہ ولی اﷲ ؒ کا کورس بھی ڈیزائن کیا گیا۔ وہاں پڑھنے والوں کا معیار بھی بہت اچھا ہے۔ اسلامک اسٹڈیز ، اردو اور تاریخ کے اساتذہ بھی اس موضوع پر اچھے مضامین لکھ رہے ہیں۔

٭ہندوستان میں ”گھر واپسی“ کی مہم بھی شروع ہوئی اور بالخصوص اتر پردیش میں مسلمانوں میں ارتداد کی لہر اٹھنے کی اطلاعات بھی آتی رہیں، اس حوالے سے کچھ بتائیے؟

پروفیسر یاسین مظہر: یہ سلسلہ آج کا تو نہیں، شدّھی سنگٹھن تو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ راجستھان اور یوپی کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں رہنے والے مسلمان صرف نام کے مسلمان ہیں، وہ کلمہ نہیں جانتے، نماز روزہ نہیں جانتے ، ان کے رسم و رواج اور لباس تک ہندوانہ ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ وہ ختنہ کرتے ہیں اور ذبیحہ کھاتے ہیں۔ ان علاقوں میں تبدیلی مذہب زیادہ ہوئی۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اصل میں مذہب تبدیل نہیں کیا بلکہ صرف دکھاوے کے لیے ایسا کیا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔ ”گھر واپسی“ مہم کا مقابلے میں ہم نے بھی ایک مہم شروع کی ہے، ہمارے ہاں کچھ تنظیمیں ہیں جو تبلغ کا کام کرتی ہیں، اس میں جماعت اسلامی کے لوگ بھی شامل ہیں، مدراس میں اس کا ایک مرکز بنایا گیا ہے جو گھر واپسی کے بارے میں کہتا ہے کہ ہاں یہ درست ہے، آپ کا اصل گھر اسلام ہے تو اس کی طرف لوٹ آؤ۔ اس حوالے سے کام ہورہا ہے۔

٭کیا مسلمانوں میں وہاں اس حوالے سے اجتماعی فکر پائی جاتی ہے؟
پروفیسر یاسین مظہر: ساری خرابی کی جڑ ہی یہی ہے کہ اجتماعی فکر نہیں اور نہ ہی اجتماعیت۔ اداروں اور مسلکی اختلافات کی وجہ سے کوئی مرکزی قیادت بھی سامنے نہیں آتی، ایک ہی تنظیم یا ادارے میں کئی کئی گروہ بنے ہوئے ہیں۔ پہلے صوفیا کے نام پرتقسیم نہیں ہوتی تھی اب یہاں بھی یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ندوہ، دارالمصنفین اور بھوپال ایک ہی ادارے کے ہیں لیکن ان میں بھی باہمی اختلاف رہتے ہیں۔ اصل مسئلہ چودھراہٹ کا ہے جس کی وجہ سے دینی ، سماجی اور سیاسی طور پر ہندوستان کا مسلمان متحد نہیں۔ ہمارے مقابلے میں جنوبی ہند کے لوگ زیادہ منظم ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کے ہاں تعلیم کا عام ہونا ہے اور دوسرا یہ کہ ان میں ملّی احساس بھی ہے۔ وہاں کئی اہم ادارے قائم ہوئے ہیں۔ گلبرگہ میں سجادہ نشین کی زیر نگرانی کالجز ، مدرسے اور ٹیکنیکل ایجوکیشن، میڈیکل کالج، ڈگری کالج وغیرہ قائم کیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں علی گڑھ میں ماہریرہ سے تعلق رکھنے والے البرکات کے لوگوں نے پورا تعلیمی نظام قائم کیا ہے۔

٭ ایک منفرد تصنیف ”عہد نبویﷺ میں تمدّن“

٭ یہ ایک منفرد موضوع تھا، اس پر کتاب لکھنے کا خیال کیسے آیا؟

یاسین مظہر: اس کتاب کے مقدمے میں ہم نے تفصیل سے اس کی وجہ تالیف بیان کی ہے۔ مولانا علی میاں صاحب کے ایک پھپھا مولانا طلحہ ندوی یہاں اوریئنٹل کالج لاہور میں ہوتے تھے۔ ہم مولانا علی میاں کی
خدمت بیٹھے ہوئے تھے وہ ان کا انتظار کررہے تھے اور بہت مضطرب تھے۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ تیس برس سے عہدِ صحابہؓ میں تمدن پر مواد جمع کررہے ہیں۔ جب وہ تشریف لائے تو ہم نے ان سے پوچھا کہ عہد نبویﷺ میں تمدن کے موضوع کا آپ نے انتخاب کیا ہے تو اس سے آپ کی مراد کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور کے کھانے، رہن سہن ، برتن، ناپ تول کی چیزیں ، لباس وغیرہ ان چیزوں کے بارے میں معلومات کو یکجا کرنا ان کا مقصد تھا، معلومات جمع تو کرلی ہیں لیکن اب ہمت ٹوٹ گئی ہے، مواد جمع ہے لیکن غالباً وہ مواد یوں ہی رہ جائے اور زندگی وفا نہ کرے۔ ہم نے کہا کہ آپ یہاں دو ماہ رکیں گے ، آپ ہمیں املا کروادیجیے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ مشکل کام ہے اور اب تمہی لوگ یہ کام کرو گے۔ اسی وقت میں نے دل سے دعا کی اے پروردگار اگر مولانا یہ کام پورا کردیں تو بہت اچھی بات ہے ورنہ یہ خدمت میرے حصے میں آئے۔مولانا علی میاں ندوی کے بیان مطابق مولانا طلحہ نے انہیں سارے مسودے اور بیاضیں بھیج دی تھیں ، لیکن مولانا علی میاں اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہ تو خود اس پر کام کرسکے اور نہ کسی اور سے یہ کام کرواپائے اور یہ سب مواد کہاں گیا یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا۔ مولانا طلحہ ندوی حسنی ؒ کے بیان کردہ خاکے سے پیدا ہونے والی آرزو لیے جو دعا کی تھی وہ قبول ہوئی۔ اس موضوع پر طویل عرصہ مواد جمع کرنے کے بعد اس موضوع پر کتاب مکمل ہوئی۔بعد میں میں نے اس کتاب میں مذکور عہد نبوی ﷺ میں رائج کھانے بھی پکا کر کھائے ، بہت لطف آیا۔

٭فکشن کا ذوق

محققین اور خاص طور پر سیرت پر تحقیق ایک انتہائی سنجیدہ اور محنت طلب کام ہے۔ لیکن اہل ذوق پھر بھی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ تھا کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہؓ کی بیٹی کی شادی کے واقعے کو ایک ڈرامے کی شکل میں لکھا تھا، ان کی بیٹی سے خلیفہ وقت نے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن انہوں نے اپنے ایک غریب شاگرد سے ان کی شادی کی۔ یہ تحریر ”تذکرہ“ میں شایع ہوئی۔ فکشن کے ذوق کے بارے میں جب سوال کیا تو مسکرا کر کہا ”کیوں راز کی باتیں کھلواتے ہیں“ اور بتانے لگے کہ ایک دور میں مظہر صدیقی کے نام سے افسانے لکھے اور دس بارہ شایع بھی ہوئے۔ فراغت ملتی یا موڈ ہوتا تو رات رات بھر افسانہ لکھتے۔ اسی طرح سیرت نبوی ﷺ پر بنارس سے ایک رسالہ نکلتا تھا جس میں خالصتاً افسانوی یا ڈرامائی طرز پر لکھے گئے مضامین شایع ہوتے ، اس کے لیے لکھتے رہے۔ اس کے بعد سنجیدگی سے اپنے ہی موضوع پر لکھتے رہے۔اردو کے ممتاز فکشن نگاروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ شاید ہی کسی کو نہ پڑھا ہو، قرة العین حیدر پسندیدہ ترین فکشن نگار ہیں۔ اس کے علاوہ ابوالفضل صدیقی، انتظار حسین ، شوکت صدیقی، عبداﷲ حسین وغیرہ کوپڑھ چکے اور بتاتے ہیں کہ سبھی ممتاز فکشن نگاروں کی کتابیں ان کے پاس ہیں اور ناول بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ بالاستیعاب پڑھتے ہیں۔ بتاتے ہیں ؛”میرے ایک دوست ظفر احمد صدیقی، عالم آدمی ہیں اور صاحب ذوق بھی اور سب سے بڑی بات دوسروں کو پڑھواتے بھی ہیں۔ میں نے ان سے شمس الرحمن فاروقی کے ناول”کئی چاند تھے سر آسماں“ کے بارے میں پوچھا تو مجھے پڑھنے کے لیے دے گئے اور میں نے پورا پڑھ ڈالا پھر ان سے کہا کہ مجھے منگوا دیجیے۔ کہنے لگے کہ جب آپ پڑھ چکے تو اب خریدنے کی کیا ضرورت ہے تو میں نے جواب دیا کہ مجھے کتابیں خریدنے کا شوق ہے اور چاہتا ہوں کہ یہ کتاب بھی میرے پاس ہو۔ انہوں نے پھر سوال کیا اب پڑھ چکے تو خریدنے کی کیا ضرورت؟ تو انھیں جواب دیا کہ جو زر خرید میں مزہ ہے وہ مستعار میں کہاں؟ میرے ایک شاگرد نے مجھے وہ کتاب منگوادی تو میں نے پھر دوسری بار ”کئی چاند تھے سر آسماں“ پڑھا۔“ ڈاکٹر یسین نے بتایا کہ انہیں طنز و مزاح سے بھی بہت دل چسپی ہے، پڑھنے کا آغاز کرنل محمد خان کی ”بجنگ آمد“ سے کیا اور پھر ”سلامت روی“ پڑھی۔ مشتاق یوسفی کو پڑھا اور اسی طرح اس موضوع پر جو کتاب ہاتھ لگی پڑھتے گئے۔ شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کبھی ایک مصرع بھی نہیں ہوا لیکن پڑھا سب کو! انہوں نے بتایا کہ جدید شاعروں میں ن م راشد اور میرا جی کو کم پڑھا جب کہ کلاسیکی شاعری میں غالب، اقبال، مصحفی، ناسخ، سراج اورنگ آبادی اور دیگر شعرا کو پڑھ چکے ہیں۔