مکتبہ مولانا یوسف متالا صاحب –

قياسي

🔰 مکتبہ مولانا یوسف متالاؒ 🔰

🌟 شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف متالاؒ کے کتب کا مجموعہ 🌟

💮 تمام کتب کا مجموعی آرکائیو لنک 💮

https://archive.org/details/Maktaba-Maulana-Yusuf-Motala-ra

💮 ویبسائٹ لنک 💮

http://www.inter-islam.org/BooksByHzrtShykhYusufMotalaRA.htm

✳ الگ الگ کتب کے لنکس ✳

💡 1. مختصر سوانح – وہ ستارہ جو چھپ گیا

💡 2۔ سوانح – سہ ماہی آثارِ رحمت – مولانا یوسف متالاؒ نمبر

💡 3۔ اضواء البیان فی ترجمۃ القرآن (اردو)

💡 4۔ تفسیر جزء عم (عربی)

💡 5. ائمۂ اربعہ اور صوفیاء کرام

💡 6. الخطاب الفصیح للنبی اللملیح ﷺ (عربی) – جمعہ خطبات کا مجموعہ

💡 7. بزرگوں کے وصال کے احوال

اردو :

انگلش الموسوم بہ Final Moments of the Pious :

💡 8. اطاعتِ رسول ﷺ

اردو :

انگلش الموسوم بہ Obedience to the Messenger :

💡 9. کرامات وکمالاتِ اولیاء

جلد اول :

جلد دوم :

💡 10. شام و ہند کے اولیاء عظام

💡 11. جمالِ محمدی ﷺ – درسِ بخاری کے آئینہ میں

اردو :

انگلش الموسوم بہ The Beauty of Prophet Muhammad As Reflected in Lectures on Sahih al Bukhari :

💡 12۔ جمالِ محمدی ﷺ – جبلِ نور پر

💡 13. جمالِ محمدی ﷺ کی جلوہ گاہیں (اردو)

جلد اول :

جلد دوم :

انگلش الموسوم بہ Manifestations Of Prophet Muhammad’s Beauty :

💡 14۔ جامع السیر – سیرت کے موضوع پرمضامین کا مجموعہ
https://archive.org/download/Maktaba-Maulana-Yusuf-Motala-ra/Jami-al-Siyar.pdf

💡 15. مشائخِ احمد آباد

جلد اول :

جلد دوم :

💡 16. مجموعۂ درود و سلام

💡 17. ہدیۂ حرمین
مجموعۂ رسائل :
الصلاۃ والسلام علی سید الانام بالاسماء الالھیۃ والالقاب النبویۃ
مصابیح السبیل – مصابیح الدجی – مصباح الظلام
الصلاۃ والسلام بحضرۃ سید الانام بالاسماء الالھیۃ والالقاب النبویۃ
الصلاۃ والسلام بحضرۃ سید الانام للامام النوویؒ
الصلاۃ والسلام بحضرۃ سید الانام للشیخ محمد ابی المواھب الشاذلیؒ
قصیدۃ فی المدیح النبوی ﷺ
قرآنی دعائیں

💡 18. حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرِ مدنیؒ اور انکے خلفائے کرام

جلد دوم :

جلد سوم :

نوٹ : اس کتاب کی پہلی جلد کے مؤلف مولانا یوسف لدھیانویؒ تھے

💡 19۔ انگلش – Hadhrat Shaykh ul Hadith Maulana Zakariyya Kandhalvi ra And I

💡 20۔ میرے بھائی جان – سوانح حضرت مولانا عبدالرحیم متالاؒ

💡 21۔ محبت نامے
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلویؒ کے خطوط بنام حضرت مولانا عبدالرحیم متالاؒ اور حضرت مولانا یوسف متالاؒ

جلد اول :

جلد دوم :

💡 22۔ عنایت نامے
مشائخ کے خطوط بنام حضرت مولانا یوسف متالاؒ

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حلم – ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
حضرت معاويه رضي الله عنه كا حلم

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

حلم كے معنى ہيں بردبارى، يعنى غصه، اور ديگر جذبات وخواہشات كو قابو ميں كرنا، ہر حال ميں عقل ودانائى كو غالب ركهنا، اور جلد بازى ميں كوئى ايسى بات نه كرنا يا كوئى اسى حركت نه كرنا جس پر بعد ميں پچهتانا پڑے، قرآن وسنت ميں اس صفت كى تعريف كى گئى ہے، اور اس كے حصول كى ترغيب دى گئى ہے، انبيائے كرام عليهم السلام كے اندر يه وصف بدرجۂ اتم موجود تها، گو حضرت ابراہيم، اسماعيل اور بعض ديگر پيغمبر عليہم السلام س وصف ميں زياده ممتاز تهے، علمائے صالحين حلم كے حصول كے لئے مجاہدے كرتے، اس خوبى ميں ايك دوسرے سے سبقت لے جانے كى كوشش كرتے ، اور مخالفين واعداء كو برداشت ہى نہ كرتے بلكه ان كى عزت كرتے، اور اس ميں شك نہيں كه راه اعتدال واستقامت پر چلنے كے لئے حلم سب سے زياده قيمتى توشه بلكه ناگزير زاد راه ہے۔
ہمارے زمانه ميں عوام كا ذكر نہيں، خواص ميں بهى يه صفت عنقا ہوتى جا رہى ہے، اس كا نتيجه ہے كه لوگ بات بات پر بهڑك جاتے ہيں، ہر چهوٹى بڑى چيز كو اپنى انا كا مسئله بنا ليتے ہيں، موقع وبے موقع لڑنے لگتے ہيں، گالى گلوج اور سب وشتم پر اتر آتے ہيں، دوسروں كى تحقير وتذليل ميں كوئى كسر باقى نہيں ركهتے، انہوں نے گمان كر ركها ہے كه جيتنے اور غلبه حاصل كرنے كا واحد راسته ہے: چيخنا، چلانا، اور زياده سے زياده گندى باتيں منه اور قلم سے نكالنا، غرض اس پستئ كردار اور رذالت كا مظاہره كرتے ہيں جس سے شرم نہيں بلكه گهن آئے، اور اس تعفن، غلاظت اور بد اخلاقى كو دينى غيرت كا نام ديتے ہيں، جبكه الله اور اس كے پيغمبر نے واضح لفظوں ميں اس سے منع كيا ہے اور اسے حرام قرار ديا ہے، فإلى الله المشتكى۔
انبيائے كرام عليهم السلام كے بعد سب سے زياده برگزيده جماعت صحابۂ كرام رضي الله عنهم كى ہے، چشم فلك نے ان سے زياده مقربِ بارگاه ايزدى، مضبوط ايمان، تسليم ورضا كى خو كا پابند، شاكر، اور صابر كوئى انسانى گروه نہيں ديكها، ان كى عبادت بيخودى سے عبارت تهى، ان كے دلوں ميں گداز فطرت پروانه تهى، ان كى جبينوں نے حرم كو آنكهوں كى مئے مشكبو اور جگر كے لہو سے بسايا تها، يه ما ورائے جہاں سے وارد پاك نفوس تهے، فرشتے ان پر رشك كناں تهے، خدا كا آخرى پيغمبر ان سے خوش تها، اور اس نے انهيں كى رفاقت ومعيت ميں دين الہى كو سارے اديان پر غالب كيا، اور خود رب العالمين كتاب خالد ميں ان مقدس ياران نبى كا مدح سرا ہے، يه وه ہستياں ہيں جن سے ذروں ذروں نے روشنى پائى، جن كى محبت ہر پاك سينه ميں سمائى، ہر نظر ميں جن كے لئے پيار ہے، ان كا ہر فرد مثال موج نسيم بہار ہے۔
ان صحابۂ كرام ميں متعدد حضرات كا نماياں وصف حلم تها، حضرت معاويه بن أبي سفيان رضي الله عنهما حليم كى حيثيت سے شايد سب سے زياده مشہور تهے، حضرت معاويه رضي الله عنه كے مناقب بے شمار ہيں، آپ ام المؤمنين ام حبيبه رضي الله عنها كے بهائى تهے، عمرة القضاء كے موقع پر يعنى فتح مكه سے ايك سال پہلے مسلمان ہوئے، نبى كريم صلى الله عليه وسلم سے آپ كو قربت حاصل تهى، كاتبين وحى ميں آپ كا شمار ہوتا ہے، آپ سے مروى احاديث صحيحين اور ديگر اصول ومراجع ميں موجود ہيں، ائمۂ مجتہديں نے آپ كے فتووں اور فيصلوں پر اعتماد كيا، رسول اكرم صلى الله عليه وسلم نے آپ كے لئے دعا فرمائى: “اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذاب”، اور ” اللهم اجعله هاديا ، مهديا ، واهد به” ۔
يہاں آپ كے جمله فضائل كا احاطه مقصود نہيں، صرف آپ كے حلم كے كچه واقعات نقل كئے جاتے ہيں، يه مضمون ابن ابى الدنيا (متوفى 281ه) كى كتاب (حلم معاوية) اور امام ذہبى (متوفى 748ه) كى سير اعلام النبلاء پر مبنى ہے:
ايك مرتبه ايك شخص نے حضرت معاويه رضي الله عنه كو سخت سست كہا، جس پر گهر كے لوگ برہم ہوگئے، اور آپ سے كہا گيا كه اسے عبرتناك سزا ديں، آپ نے فرمايا كه مجهے شرم آتى ہے كه ميرا حلم ميرى رعايا ميں سے كسى كے جرم كے لئے تنگ پڑجائے۔
امام ابن سيرين نقل فرماتے ہيں كه ايك شخص جو بہت سياه تها حضرت معاويه رضي الله عنه كے سامنے آيا اور كہنے لگا: اے معاويه! خدا كى قسم يا تو تم خود ٹهيك ہوجاؤ ورنه ہم تمہيں درست كرديں گے، آپ نے فرمايا: كيسے؟ اس نے جواب ديا: قتل كركے، آپ نے فرمايا: اے بدو تب تو ہم ٹهيك ہوجائيں گے۔
حضرت معاويه كے پاس كچه چادريں لائى گئيں، جنہيں آپ نے اہل شام كے درميان تقسيم كرديا، ايك بوڑهے شخص كے حصه ميں بهى ايك چادر آئى، اسے وه چادر پسند نہيں آئى، اور ناراضگى ميں قسم كها كر كہا: ميں اسے معاويه كے سر پر ماروں گا، آپ كو اس كى خبر ملى تو فرمايا كه اپنى نذر پورى كرو، ايك بوڑهے كو دوسرے بوڑهے كے ساته نرمى كرنى چاہئے۔
حضرت معاويه كى ملاقات حضرت ابن عباس رضي الله عنہم سے ہوئى تو فرمايا: اے ابن عباس حضرت حسن رضي الله عنه كى وفات پر صبر كريں، ثواب كى اميد ركهيں، اور آپ پر الله كى جانب سے نه كوئى غم آئے اور نه كوئى برائى، اس پر حضرت ابن عباس نے فرمايا: جب تك الله تعالى امير المؤمنين (يعنى معاويه) كو ہمارے درميان باقى ركهے گا، مجه پر نه كوئى غم آسكتا ہے اور نه كوئى برائى، حضرت معاويه نے ان كو دس لاكه درہم ديئے اور سامان اور ديگر اشياء عطا كيں، اور فرمايا كه ان كو ليكر اپنے گهر والوں كے درميان تقسيم كرديں۔
حلم وبردبارى كے متعلق حضرت معاويه رضي الله عنه كے قصے تواتر كو پہنچے ہوئے ہيں، اور اسى خصلت حلم نے ان كو موافق ومخالف دونوں گروہوں ميں محبوب بنا ديا تها، لوگ ان پر تنقيد كرتے اور كبهى كبهى سب وشتم كرتے ليكن وه ان بد اخلاقيوں پر صبر كرتے، ان كے مرتكبين كو كوئى سزا نه ديتے، بلكه ان كا احترام كرتے اور ان كو انعامات سے نوازتے، وما يلقاها الا الذين صبروا وما يلقاها الا ذو حظ عظيم۔
ہم صحابۂ كرام سے محبت وعقيدت كے دعويدار ہيں، ليكن ان كے اسوه سے بيزار، حضرت معاويه اور ديگر صحابۂ كرام رضي الله عنهم كے نام پر لوگوں كو گالياں ديتے ہيں، بد زبانى كرتے ہيں، سخت كلامى كرتے ہيں، اور اسى پر بس نہيں كرتے بلكه دوسرے مسلمانوں سے بهى اس كى توقع كرتے ہيں كه وه بهى اس دناءت كا مظاہره كريں، اور جو ان كى تقليد نه كرے وه ضعيف الايمان ہے، اور صحابۂ كرام سے اس كى محبت وعقيدت مشكوك ہے:
ہم په اس عہد كم نگاہى ميں
كون سا جورِ نا روا نه ہوا
ہميں اس خود ساخته جهوٹے پيمانه سے توبه كرنى چاہئے، صحابۂ كرام سے محبت وعقيدت كا تقاضا ہے كه ہم اعمال واخلاق ميں ان كى پيروى كرين، خود كو حلم وبردبارى كا خوگر بنائيں، بد زبانى سے باز آئيں، اور بد زبانى كرنے والوں كو نظر انداز كريں، بلكه انہيں معاف كريں، ان كے لئے دعا كريں اور ان كو انعام واكرام سے نوازيں،رضائے مولى ميں اپنى عزت وآبرو قربان كرديں، اس ساده بلكه فساد زده دنيا كو جنت بناديں، اور ” فبما رحمة من الله لنت لہم ولو كنت فظا غليظا لانفضوا من حولك” كى تعبير حسيں سے عالم بشريت كو محسود ملائك كرديں۔

علموں بس کریں او یار اکو الف تیرے درکار – کلام حضرت بابا بلھے شاہ

قياسي

علموں بس کریں او یار
اِکّو اَلف تیرے دَرکار

ارے یار! اس علم کا حاصل کرنا چھوڑو۔ فقط ایک الف (کو جان لینا) ہی تمہارے لیے کافی ہے۔

علم نہ آوے وچ شمار
اِکّو اَلف تیرے دَرکار
جاندی عمر نہیں اَتبار
علموں بس کریں او یار

علم کسی گنتی میں نہیں آتا۔ فقط ایک الف (کو جان لینا) ہی تمہارے لیے کافی ہے۔ گزرتی عمر کا اعتبار نہیں۔ (اس لیے) اب علم حاصل کرناچھوڑ کر (عمل پر پردھیان دو)

پڑھ پڑھ لکھ لکھ لاویں ڈھیر
ڈھیر کتاباں چار چُفیر
گردے چانن وچ اَنھیر
پچھو راہ ؟ تے خبر نہ سار
علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ کر لکھ لکھ کر ڈھیر لگا لیا۔چاروں طرف کتابیں ڈھیر پڑی ہیں۔ (گویا) اردگرد روشنی اور اندر اندھیرا ہے۔ (حالت یہ ہے کہ) راستہ پوچھو تو اس کی کوئی خبر ہے نہ حقیقت معلوم ہے۔ (پس ایسے بے فائدہ) علم کا حاصل کرنا چھوڑ دو۔

پڑھ پڑھ شیخ مشایخ ہویا
بھر بھر پیٹ نِیندر بھر سویا
جاندی وار نین بھر رویا
ڈبا وچ اُرار نہ پار
علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ کر شیخ المشائخ ہو گیا۔ (ساری زندگی) پیٹ بھر تا رہا اور سوتا رہا۔مرتے وقت آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نہ آر ہوا نہ پار ہوسکا، بیچ میں ہی ڈوب گیا۔ (ایسے دھوکے میں رکھنے والے )علم کو حاصل کرنا چھوڑ دو۔

پڑھ پڑھ شیخ مشایخ کہاویں
الٹے مسئلے گھروں بناویں
بے علماں نوں لٹ لٹ کھاویں
چھوٹھے سچے کریں اِقرار
علموں بس کریں او یار

(کتابوں سے ) پڑھ پڑھ کر شیخ المشائخ کہلواتے ہو۔ فقہی مسائل میں من گھڑت الٹ پھیر کرتے ہو، بے علم لوگوں کو لوٹ لوٹ کھاتے ہو، جھوٹے سچے اقرار کرتے ہو، (ایسے) علم کو حاصل کرنا چھوڑ دو۔

پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
اُچیاں بانگاں چانگاں ماریں
منبر تے چڑھ واعظ پکاریں
کیتا تینوں علم خوار
علموں بس کریں او یار

نفل نمازیں پڑھ پڑھ کر (اپنے نمازی ہونے کے زعم میں ہو)اونچی اونچی آواز میں اذانیں دیتے ہو۔ (تاکہ لوگوں پر تمہارا تقویٰ ظاہر ہو) منبر پر بیٹھ کر وعظ کرتے ہو، تمہیں تو علم نے خوار کر رکھا ہے۔ (ایسے) علم کا حاصل کرنا چھوڑ دو

پڑھ پڑھ مُلاں ہوئے قاضی
اللہ علماں باجھوں راضی
ہووے حرص دنوں دن تازی
تینوں کیتا حرص خوار
علموں بس کریں او یار

پڑھتے پڑھتے مُلاں لوگ بھی قاضی ہو گئے۔ اللہ تو علم کے بغیر بھی راضی ہے، (مگر) تمہارا حرص روز بروز بڑھتا ہی جا تاہے۔ تمہیں تمہارے حرص نے خوار کیا۔ (ایسے) علم کا حاصل کرنا چھوڑ دو۔

پڑھ پڑھ مسئلے روز سناویں
کھانا شک شبہے دا کھاویں
دسے ہور تے ہور کماویں
اندر کھوٹ ، باہر سچیار
علموں بس کریں او یار

(دوسروں کو ) روزانہ فقہی مسائل پڑھ پڑھ کر سناتے ہو۔ (اور اپنا یہ حال ہے کہ) صدقہ، خیرات بھی کھا جاتے ہو۔ لوگوں کو کچھ اور بتاتے ہو اور خود کچھ اور عمل کرتے ہو۔ تمہارے اندر کھوٹ ہے اور باہر سے تم سچ کے علمبردار بنے پھرتے ہو۔ (ایسے) علم کو حاصل کرنا چھوڑ دو۔

پڑھ پڑھ علم نجوم وَچارے
گندا راساں بُرج ستارے
پڑھے عزیمتاں منتر چھاڑے
اَبجد گنے تعویذ شمار
علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ کر علم ِ نجوم میں سوچ و بچار کرتے ہو، گنڈے ، راسیں ، برجوں اور ستاروں کا حساب کرتے رہتے ہو۔ عزیمتیں اور منتر پڑھتے رہتے ہو۔ تعویزوں میں ابجد کو اعداد شما ر کرتے ہو۔ (ایسے ) علم کو حاصل کرنا چھوڑ دو۔

علموں پئے قضّئے ہور
اَکھیں والے انھّے کور
پھڑے سادھ تے چھڈے چور
دوہیں جہانیں ہویا خوار
علموں بس کریں او یار

علم سے تو مسائل اور بڑھ گئے ہیں۔ آنکھوں والے آنکھوں کے باوجود بھی اندھے ہیں۔ چور چھوڑ کر بے گناہوں کو پکڑ لیتے ہیں ، (ان کیلئے) دونوں جہانوں میں خواری ہے۔ (ایسے) علم کوحاصل کرنا چھوڑ دو۔

علموں پئےہزاراں پھستے
تمبا چُک چُک منڈی جاویں
دھیلا لَے کے چُھری چَلاویں
نال قصَائیاں بوہتا پیار
علموں بس کریں او یار

علم (کے پھندے ) میں ہزاروں پھنسے ہیں، کدو (مراد سبزیاں اور اناج) لے کر منڈی جاتے ہو۔ ایک دھیلا لے کر چھری چلاتے ہو۔ قصابوں سے بہت پیار ہے۔ ایسے علم کو حاصل کرنا چھوڑ دو۔

بوہتا علم عزازیل نے پڑھیا
جُھگا جھاہا اوس دا سَڑیا
گل وچ طوق لعنت دا پَڑیا
آخر گیا اوہ بازی ہار
علموں بس کریں او یار

عزازیل(ابلیس) نے بھی بہت سا علم پڑھا تھا۔ اس کا سب گھر بار (زندگی بھر کے اعمال) (حسد اور علم کے غرور میں) جل کر راکھ ہو گیا۔ گلے میں لعنت کا پٹا پڑ گیا۔ آخر وہ (اپنے علم کے غرور کی وجہ سے) بازی ہار گیا۔ (ایسے) علم کو حاصل کرنا چھوڑ دو۔

جد میں سبق عشق دا پڑھیا
دریا ویکھ وَحدت دا وڑیا
گھمن گھیراں دے وچ اَڑیا
شاہ عنائت لایا پار
علموں بس کریں او یار

جب میں نے عشق کا سبق پڑھا۔ وحدت کے دریا کو دیکھ کر اس میں کود پڑا۔ (شکوک کے) گرداب میں اٹک گیا تھا۔ حضرت شاہ عنایت قادری نے پار لگا دیا۔ (پس) علم کو حاصل کرنا چھوڑ دو۔

بلّھا رافضی نہ ہے سنی
عالم فاضل نہ عامل جُنّی
اِکو پڑھیا علم لدّنی
واحد اَلف میم دَرکار
علموں بس کریں او یار

بلھا نہ رافضی (شیعہ) ہے نہ سنی ہے۔ نہ عالم فاضل ہے ، نہ جنات کا عامل ہے۔ بس ایک علمِ لدنی پڑھا ہے۔ ایک الف اور میم درکار ہے۔ (پس مزید) علم حاصل کرنا چھوڑ کر (اب عمل پر دھیان ) دو

کلام:۔حضرت بابا بلھے شاہ
بشکریہ مترجم:۔ جوگی

٭٭٭٭٭٭٭

ماخوذ از انا الحق فیس بک پیج

الشيخ سلمان المظاهري في ذمة الله تعالى – بقلم: د. محمد أكرم الندوي

قياسي

بسم الله الرحمن الرحيم

الشيخ سلمان المظاهري في ذمة الله تعالى

بقلم: د. محمد أكرم الندوي
أوكسفورد

توفي مساء اليوم (يوم الاثنين تاسع عشري ذي القعدة سنة إحدى وأربعين وأربعمائة وألف)، شيخنا المجيز المربي الجليل الشيخ السيد محمد سلمان المظاهري الكاندهلوي، رئيس جامعة مظاهر العلوم بسهارنفور، الهند، وهذا يوم عليها عصيب إذ فقدتْ خلال بضع سنوات أشرف أعلامها البارزين في العصر الحديث: شيخنا محمد يونس الجونفوري، والشيخ محمد طلحة الكاندهلوي، والآن الشيخ سلمان، متسابقين صلاحا وتقى، ومتشابهين علما وفضلا، رحمهم الله جميعا.
تخرج من جامعة مظاهر العلوم ودرس على شيوخها، وأجازه العلامة المحدث محمد زكريا الكاندهلوي إجازة عامة، وزوجه بنته، وأجازه غيره من شيوخه، ودرَّس في الجامعة إلى أن تم تعيينه رئيسا لها، فقام على شؤونها خير قيام، وتطورت في عهده تطورا ملموسا، مواصلة عطاءها ومتابعة خطاها، وكان مساعدا للشيخ محمد طلحة بن الشيخ محمد زكريا الكاندهلوي، يرعى أموره الدينية والتربوية في أيام مرضه، وبعد وفاته استقل بمسؤولية تربية المريدين والزائرين.
تكررت مني زياراته، وآخرها يوم الجمعة 22 ذو الحجة سنة 1440 في وفد من طلابنا من إنكلترا يقودهم الأخ زيد الإسلام، إذ تفضل الأخ الكريم العالم الأديب معاذ أحمد الندوي الكاندهلوي باستضافتنا وتعريفنا بأقسام الجامعة ومرافقها، وهو ابن أخت الشيخ سلمان مدير مظاهر العلوم، وأخذنا إلى زاوية الشيخ محمد زكريا الكاندهلوي، حيث تشرفنا بلقاء الشيخ سلمان محتفًّا بأصحابه ومريديه، والخانقاه كأنه قطعة من دور الصديقين وبيوت الصالحين في بساطته الظاهرة وجماله الباطن، دخلنا عليه، فرحب بنا ترحيبا، وأعرب عن سروره البالغ برؤيتنا، وقال لي: إنه قرأ كتابي عن فكر شيخنا محمد يونس بالأردية كلمة كلمة، وأثنى على الكتاب ثناءا، ولقد فرحت بتقديره للكتاب فرحا كبيرا، فجزاه الله خيرا.
وتحدث إلينا مهتما بنا، تتحدر الكلمات من لسانه ومن بين شفتيه مطيبة بالحب والحنان والشفقة والإكرام، قص علينا من تاريخ مبنى الزاوية وأسدى إلينا نصائح، وكان في وداده من حوله كأنما خلقت أعصابه وجوانجه من المادة الصافية التي يخلق منها القلب الرقيق الوفي، فأنسنا به جميعا أنسًا رفيقا، وأحسسنا ونحن في مجلسه بذلك الأنس يقوى لحظة فلحظة، متمتعة عيوننا بالنظر إلى وجهه المنور الوضيء، ومتنعمة آذاننا بالاستماع إلى حديثه العذب الناصح، وملتذة أهواؤنا بجمال صحبته، وهنيئة قلوبنا بصدقه وصفائه.
وسمعنا المسلسل بالأولية من لفظه، وهو يروي المسلسلات وغيرها عن العلامة المحدث محمد زكريا الكاندهلوي، وأجازنا جميعا إجازة عامة، وقد سبقت لي الإجازة منه غير مرة، وكان شيخًا وسيمًا صالحًا رفيقًا لينا، بينه وبين التشديد والغلو معاداة، وبينه وبين عبوس الوجه وتقطب الجبين مفاوز تنقطع لها أعناق المطي.
يا مظاهر العلوم! لكِ الله مفجوعة بحبيبكِ وأخيكِ، ومرزوءة بوليِّكِ وأبيكِ، حرسكِ وكلأكِ بعينه التي لاتنام، نعزيك في رجالك واحدا تلو الآخر، إن مصائبك أكبر من التعازي، وأجل من كلمات السلوان والرثاء، ولعل الذي يخفف من فاجعتك ونكبتك، بل ويلطِّف من مآسي محبيك وأحزان مُواليكِ أن ثواب الله أكبر وأجل مما حل بأهل الهند في متوفاكِ، ولن يؤمن من لم يؤمن بثوابه ولم يرض بحكمه، وأنتِ الدار التي يدرّس فيها كتاب الله ويشرح فيها سنن نبيه صلى الله عليه وسلم فلتكوني من أحسن الخلق صبرا، وأجملهم عزاءًا، وأحرِ بالصبر على البلاء أن يكون الربح المتمثل في معية الله تعالى ورضاه، فسلام عليك وتحياته، ورحم الله شيخك سلمان ومن سبقه إليه، وأنزلهم فسيح جنانه.

حضرت مولانا سید محمد سلمان مظاہری جوار رحمت میں – از: ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
حضرت مولانا سید محمد سلمان مظاہری جوار رحمت میں

از: ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
آکسفورڈ
ترجمه: مولانا سلمان ندوى، استاد دار العلوم ندوة العلماء

ہمارے شیخ و مربی جلیل القدر عالم دین حضرت مولانا سید سلمان مظاہری ناظم اعلیٰ جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور آج بتاریخ ٢٩ ذی القعدہ ۱۴۴۱ مطابق 20 جولائی 2020 دو شنبہ شام تقریباً پانچ بجے اس دار فانی سے دار بقاء کی جانب کوچ فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون، آج کا دن اہل مظاہر العلوم پر بہت سخت اور الم ناک ہے، ابھی کچھ عرصہ قبل مظاہر العلوم نے باکمال علماء و فضلاء کو خیر باد کہا، جن میں ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رح اور حضرت شیخ مولانا محمد طلحہ کاندھلوی رح اور اب حضرت مولانا سلمان مظاہری رح داغ مفارقت دے گئے، یہ تمام علم و عمل صلاح و تقوی میں ایک دوسرے کے ہم پلہ تھے، اللہ تعالی ان حضرات کو غریق رحمت کرے۔
حضرت مولانا سلمان صاحب مظاہری رح مظاہر العلوم سہارنپور سے فارغ ہوۓ، اور یہاں کے شیوخ سے علم حاصل کیا، علامہ وقت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رح نے مولانا کو اجازت عامہ سے سرفراز فرمایا، اور اپنی صاحبزادی کو مولانا کے نکاح میں دیا، فراغت کے بعد مولانا نے جامعہ مظاہر العلوم ہی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، یہاں تک کہ آپکو جامعہ مظاہر العلوم کا ناظم منتخب کر دیا گیا، آپ نے اپنے دور مين كار نظامت کو بحسن خوبی انجام دیا، اور جامعہ کو ترقی کے بام عروج تک پہنچایا، اور جامعہ کی خدمت میں لگے رہے، مولانا مرحوم حضرت شیخ محمد طلحہ کاندھلوی رح کے دست راست اور ممد و معاون رہتے، ان کی بیماری کے ایام میں ان کے دینی و تربیتی کاموں کی خود نگہ داشت کرتے، اور ان کو انجام دیتے تھے، اور حضرت شیخ مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کی وفات کے بعد ان کے مریدین اور متوسلین کی تربیت اور ان کی اصلاح کی ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتے رہے ۔
میں نے کئی مرتبہ مولانا مرحوم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا، مولانا سے میری آخری ملاقات ہمارے انگلینڈ کے طلبہ کے ساتھ ٢٢ ذی الحجہ ۱۴۴۰ بروز جمعہ کو ہوئی تھی، جس وفد کے ذمہ دار برادرم زید الاسلام تھے، مولانا مرحوم کے بھانجے عزیز مکرم معاذ احمد ندوی کاندھلوی – جو عربی ادب کے ماہر ایک اچھے عالم دین ہیں- نے ہماری میزبانی فرمائی، اور جامعہ کے تمام شعبوں کا تعارف کرایا، پھر وہ ہمیں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رح کی خانقاہ میں لے گئے، جہاں ہماری ملاقات مولانا سلمان صاحب مرحوم سے ہوئی، مولانا مریدین اور متوسلین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اور خانقاہ تو ایسی معلوم ہو رہی تھی گویا کہ وہ اپنی ظاہری سادگی اور اندرونی خوبصورتی میں صلحاء و صدیقین کے گھروں کا نمونہ ہو، ہم لوگ خانقاہ میں داخل ہوۓ، یہاں مولانا سلمان صاحب مرحوم نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا، اور ہم سے ملاقات کرکے اپنی بے انتہا خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا، اور مجھ سے کہا کہ میں نے آپکی کتاب” فکر یونس” حرفاً حرفاً پڑھی ہے، اور کتاب کے متعلق بڑے بلند کلمات کہے، مولانا کی اس قدردانی پر مجھے بڑی خوشی محسوس ہوئی تھی، اللہ تعالی ان کو جزاے خیر عطا فرمائے۔
مولانا سلمان صاحب مرحوم نے ہم لوگوں سے گفتگو فرمائی، آپ گفتگو فرما رہے تھے گویا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے محبت و شفقت کے پھول جھڑ رہے ہوں،مولانا مرحوم نے ہم سے خانقاہ کی تاریخ بیان کی، اور بھت سی نصیحتیں فرمائیں، مولانا مرحوم کے ارد گرد مجتمع لوگ آپکی محبت و شفقت بھری گفتگو سے محظوظ ہو رہے تھے، گویا کہ مولانا کے اعضاء و جوارح اسى صاف و شفاف مادہ سے تخلیق کیے گئے ہوں، جس سے ایک نرم و نازک اور شفقت سے بھرپور قلب وجود میں آتا ہے، ہم لوگ مولانا سے بھت زیادہ مانوس ہوگئے، اور اس مبارک مجلس كے دوران محسوس کر رہے تھے لمحه به لمحه وه انسيت طاقتور سے طاقتور تر هو رهى ہے، اپنی نگاہوں کو اپ کے پرنور چہرے سے لطف اندوز کر رہے تھے، اپنے کانوں کو آپ کی محبت بھری شیریں گفتگو سے لذت پہنچا رہے تھے، آپ کی بابرکت صحبت ہمارے اندرون میں تازگی، اور قلوب اپ کے صدق و وفا اور شفافیت سے سکون حاصل کر رہے تھے رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
علاوہ ازیں ہم نے مولانا مرحوم سے حدیث مسلسل بالاولیہ کی سماعت کی، مولانا تمام مسلسلات حضرت شیخ الحدیث علامہ محمد زکریا کاندھلوی رح روایت کر رہے تھے، اور پھر ہمیں مولانا نے اجازت عامہ سے نوازا، مولانا سے مجھے كئى بار اجازت حاصل ہو چکی ہے، مولانا مرحوم ایک نیک صالح، مشفق، نرم مزاج، متقی پرہیز گار اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے، وہ اعتدال پسند واقع ہوۓ تھے، ان کے اور غلو و تشدد کے مابین گویا ایک طرح کی دشمنی تھی، ان کا ترش روئی اور تلخ مزاجی سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا گویا کہ دونوں کے مابین ایک ایسا صحرا تھا جس کو عبور کرنا ناممکن تھا۔
اے مظاہر العلوم! تيرے محبوب اور تيرے بھائی کی جدائى، اور تيرے سرپرست اور والد کى رحلت کی مصیبت نے تجھ کو رنج و غم سے دوچار کیا ہے، الله تيرى حفاظت كرے، اے مظاہر العلوم! یقیناً تیرا غم تعزیت سے زیادہ بڑا ہے، اور تسلی کے الفاظ سے کہیں زیادہ عظیم ہے، شاید کہ یہ کلمات تیرے رنج وغم اور مصیبت کو ہلکا کر سکیں كه اللہ تعالی کا اجر و ثواب اس مصیبت سے زیادہ بڑا ہے جو مصیبت اہل ہند پر ٹوٹی ہے، وہ ہر گز مومن نہیں ہو سکتا جو اللہ کے اجر و ثواب کی امید نہ رکھتا ہو، اور جو اس کے فيصله پر راضی نہ ہو، اے مظاہر العلوم! تو ایسا چمن ہے جہاں کتاب اللہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور حدیث نبوی ﷺ کی تشریح کی جاتی ہے، تجھ کو يهى زيبا هے کہ تو اس عظیم مصیبت پر صبر سے کام لے، اور مصیبت پر صبر کرنے سے ہی اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے، اے مظاہر! تجھ پر اللہ کی سلامتی ہو، اور اللہ تعالی تیرے شیخ سلمان اور ان سے پہلے جو گزر گئے سب پر رحمت نازل فرماۓ، اور جنت کے سرسبز و شاداب باغات میں ان کو جگہ عنایت فرماۓ۔