دین اور کلچر بر صغیر ہند و پاک کے تناظر میں – پروفیسر محمد طفیل ہاشمی صاحب

قياسي

دین اورکلچر برصغیر کا ایک گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں دعوت دین دو مختلف ذرائع سے ہوئی. ایک صوفیاء کے ذریعے اور دوسرے علماء کے ذریعے. ان دونوں کی دعوت میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ صوفیاء کی سپیشلایزیش تزکیہ و اخلاق ہے جب کہ علماء کی فقہ وشریعت. کار دعوت پر اس کے اثرات یوں مرتب ہوتے ہیں کہ صوفیاء جس معاشرے میں جاتے ہیں وہاں کے کلچر، رسم و رواج کے خلاف جنگ کرنے کے بجائے اسے دعوت کے لئیے استعمال کرتے ہیں. بر صغیر میں صوفیاء نے یہاں کے طریق عبادت یعنی موسیقی وغیرہ کو اسلامی عقائد کی زبان دے کر، اور ہندی تصوف کا مرجع تبدیل کر کے اس خام مواد کو اسلام کی عمارت کی تشکیل کے لیے استعمال کیا جو یہاں وافر مقدار میں موجود تھا. جیسے ازمنہ وسطی کے مسلمانوں نے یونان، ہند اور فارس کی سائنس کو مشرف باسلام کر لیا تھا. دوسری طرف علماء کے پاس فقہی جزئیات کی شکل میں عرب یا ماوراء النہر کا کلچر تھا اور انہوں نے اصل دین اور کلچرل دین میں امتیاز کرنے کی کوشش کے بجائے یہ کوشش کی کہ اپنا وہی عرب یا سنٹرل ایشیا کا کلچر رائج کر دیا جائے.جس کا مرتب ذخیرہ ان کے پاس موجود تھا. شاہ ولی اللہ جیسا عبقری جو اصل دین اور عرب کلچر میں واضح خط امتیاز کھینچتا ہے یہاں اپنے حلقہ احباب میں عرب کلچر پروموٹ کرنے پر مصر رہا ہے ، یہی بات مجدد الف ثانی کی ہے. ہم دیکھتے ہیں کہ مثلاً اردو بولنے والے پاکستان میں جہاں بھی آباد ہیں اپنے کلچر اور زبان کا تحفظ کرتے ہیں. پچھلے سالوں میں سعودی اثرات بڑھنے سے بدوانہ کلچر کو اسلام کا حوالہ مل گیا. علمی طور پر بات آسان ہے کہ کتاب اللہ اور اس کی تبیین یعنی سنت متداولہ ہی دین ہے باقی کلچر ہے.تاہم اہل علم کی ایک ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو خالص علمی اور سائنٹفک بنیادوں پر دین اور کلچر میں خط امتیاز کھینچ سکے. میری رائے یہ ہے کہ اگر علمی بنیادوں پر یہ فرق کر کے مغرب میں اس اساس پر دعوت دین کا کام کیا جائے تو کامیابی کے بے پناہ امکانات ہیں.

21521510 Comments48 SharesLikeCommentShare