( یاد ماضی )
زمانہ طالب علمی کا ایک یادگار واقعہ
تحریر: محمد حشمت اللہ ندوی ( دوحہ، قطر )
میری زندگی کے سب سے حسین ایام وہ ہیں جو میں نے ندوہ کی طالب علمی اور پھر تدریس کے دوران گزارے، اس زمانہ کا ہر لمحہ حسین اور ہر دن عزیز ہے، اساتذہ کی عنایت وشفقت، دوستوں کی رفاقت، ان کے ساتھ بے تکلف مجلسیں اور علمی و فکری مذاکرے، الاصلاح اور النادی کی علمی و ثقافتی سرگرمیاں اور مختلف پروگرام، جن میں ہم لوگ پیش پیش رہتے تھے، اب یاد ماضی بن چکے ہیں جس کے گہرے نقوش ذہن پر مرتسم ہیں،لیکن آج جو واقعہ بطور خاص ذکر کرنے جارہا ہوں وہ میری زندگی کا سب سے اہم اور ناقابل فراموش واقعہ ہے، غالبا 1984 یا 85 کا زمانہ تھا، استاذ گرامی جناب مولانا واضح رشید صاحب ندوی رحمہ اللہ ہماری جماعت سے، جس میں ہمارے ساتھی اکرم صاحب، آفتاب صاحب، ضیاء الدین خیر آبادی ، خالد کانپوری اور وزیر اعظمی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، اکثر ترجمہ کا کام لیتے تھے۔
حضرت مولانا کی کتاب “پرانے چراغ” کا ایک مفصل مضمون ان کے عربی کے استاذ و مربی “خلیل عرب” صاحب پر ہے جسے آپ حضرات نے ضرور پڑھا ہوگا، اس کے ترجمہ کا کام استاذ گرامی مولانا واضح صاحب ندوی رحمہ اللہ نے میرے حوالہ کیا، وقت کی کوئی پابندی نہیں تھی، اس کے باوجود میرے لیے یہ کام مشکل تھا، اس طرح کے ترجمہ کا مجھے زیادہ تجربہ نہیں تھا؛ لیکن انکار یا معذرت کی گنجائش بھی نہیں تھی۔ میں نے عرض کیا کہ ان شاء اللہ کوشش کروں گا، چوں کہ وقت کی کوئی پابندی نہیں تھی؛ اس لیے میں مطمئن تھا کہ چلو آرام سے کر لیں گے، لیکن جب مضمون پر نظر ڈالی تو اندازہ ہوا کہ اس کے ترجمہ کے لیے میرے پاس عربی میں ذخیرہ الفاظ کافی نہیں ہے؛ اس لیے احمد امین اور طہ حسین وغیرہ کی کتابیں پڑھنے لگا اور ترجمہ کے لیے عربی کے الفاظ جمع کرنے لگا اور آہستہ آہستہ ترجمہ بھی کرتا رہا۔ ایک دن اچانک استاذ گرامی نے فرمایا کہ کیا ترجمہ ہو گیا؟ مزید فرمایا کہ در اصل یہ کام حضرت مولانا نے مجھے دیا تھا اور اب وہ اسے اپنی کتاب “شخصیات وکتب” میں شائع کرنا چاہتے ہیں اور مجھ سے طلب فرما رہے ہیں۔ سردی کا موسم تھا؛ اس کے باوجود مولانا کے اس سوال سے میرا جسم پسینہ سے بھیگ گیا، میں نے عرض کیا ان شاء اللہ جلد ہی ہو جائے گا، پھر میں نے اس کو اپنے دن رات کا مشغلہ بنا لیا اور دو تین دنوں میں مکمل کرکے دے دیا۔ نظر ثانی کا موقع نہیں ملا تھا؛ مولانا سے گزارش کی کہ آپ نظر ثانی فرمالیں اور اصلاح بھی کردیں؛ تاکہ کوئی غلطی نہ رہ جائے، لیکن مولانا بھی مشغول تھے اور انہوں نے نظر ثانی کے بغیر ہی حضرت مولانا رحمة الله عليه کو دے دیا۔ ایک دو دن کے بعد اچانک مولانا عبد اللہ حسنی صاحب رحمة الله عليه نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت مولانا تم کو بلا رہے ہیں، صبح کا وقت تھا اور حضرت مولانا مہمان خانہ کے سامنے کرسی پر بیٹھے تھے، مجھے وہاں جانے کا حکم ہوا، ڈرتے ڈرتے گیا، حضرت کو سلام کیا اور اپنا نام بتایا، میرا جسم کانپ رہا تھا اور مولانا عبد اللہ حسنی صاحب مرحوم دور سے یہ منظر دیکھ رہے تھے اور زیرلب مسکرا بھی رہے تھے۔ حضرت مولانا نے میری ہمت افزائی فرمائی اور فرمایا کہ تمہارے ترجمہ کی ہم نے اصلاح نہیں کی ہے، یہ بعینہ “شخصیات وکتب”میں شائع ھوگا، اس کے بعد کچھ نصیحت بھی فرمائی اور اپنی جیب سے سو کا نوٹ نکالا اور مجھے یہ کہ کر عنایت فرمایا کہ یہ تمہارا انعام ہے۔ کتاب شائع ہوئی اور اس مضمون کے حاشیہ میں حضرت مولانا خود اپنے قلم سے بطور مترجم میرا نام لکھا ( نقله إلى العربية العزيز حشمة الله الندوي )۔ حضرت مولانا کے ہمت افزا کلمات مجھ ناچیز کے لیے کسی علمی سند سے زیادہ اہم تھے، اللہ تعالی حضرت کو غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
یہ وہ واقعہ ہے جسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔