اردو حروف تہجی کیسے پڑھیں: (با پا تا) یا (بے پے تے)؟ – بقلم أبو الحسن م علی ندوی لکھنوی حجازی

قياسي

*اردو حروف تہجی کیسے پڑھیں: (با پا تا) یا (بے پے تے)؟*
✍️ از أبو الحسن م علی ندوی لکھنوی حجازی
=•=•=•=•=•=•=•=•=
نحمده ونصلي على رسوله الكريم ، اما بعد؛

🟪 *تمہید اور صورت حال :*

اُردُو برصغیر کی ایک معیاری زبان ہے، اس کی ابتدا بارہویں صدی کے بعد مسلمانوں کی آمد سے ہوتی ہے، میری نظر میں یہ فارسی سے زیادہ ہندی سے قربت رکھتی ہے، اسکی دلیل اس سے بڑی کیا ہوگی کہ اردو اور ہندی کا خاندان ایک ہے جس خاندان کو ہند آریائی کہتے ہیں، لیکن ‌‌فرق رسم الخط اور دوسری زبانوں سے استفادہ کا ہے۔
کچھ ماہرینِ لسانیات دونوں کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔
(لینگویج ٹوڈے) میں (جارج ویبر) کے مقالہ : (دُنیا کی دس بڑی زبانیں) میں ہے کہ اُردو اور ہندی (اگر دونوں کو ایک زبان قرار دیاجائے تو) دُنیا میں سب سے زیادہ بولی جانی والی چوتھی زبان ہے۔

تیرہویں سے اٹھارویں صدی تک اردو کو عام طور پر (ہندی) ہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ اسی طرح اس زبان کے کئی دوسرے نام بھی تھے جیسے ہندوی، دہلوی وغیرہ۔ 1837ء میں اردو کو دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔

تقسیم کے بعد اردو، پاکستان کی قومی زبان بنی، جبکہ وہ بھارت کی چھے ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔
▪️اسکو بر صغیر (بشمول بنگلہ ومغربی برما)، کے لیے – ایک حد تک- رابطہ عامہ کی زبان کہا جاسکتا ہے خصوصاً مسلمانوں کے لیے. اسکو بولنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
▪️ ان تمام ممالک میں اردو سیکھی اور سکھائی جاتی ہے۔
▪️آج کل بے شمار مکاتب ومدارس کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم وشناخت رکھنے والے انگلش میڈیم اسکول بکثرت بر صغیر میں چل رہے ہیں، جنکی تعداد روز افزوں ہے۔

⛔ ان اداروں اور اسکولوں میں (عموما) عربی، قرآن، اردو تینوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔۔
⁉ مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اردو کو (الف بے پے) کے طرز پر پڑھائیں تو عربی ونورانی قاعدہ پر اسکا اثر پڑتا ہے، جیسے ماضی میں عام طور پر ایسا ہی ہوا ہے، یہاں تک کہ بعض علاقوں کے علاقے عربی قاعدہ کو بھی (بے تے ثے) کے طرز پر پڑھتے رہے ہیں (با تا ثا) کے بجائے، وہ قرآن کو بھی گویا کہ اردو میں پڑھتے رہے ہیں۔۔
✅ اس نقصان سے بچنے کے لیے بعض ادارے اردو حروف تہجی کو (با پا تا) پڑھاتے رہے ہیں، نہ کہ (بے پے تے)۔

💥 اب جھگڑا یہ پیدا ہوا کہ ایک صاحب نے اس پر تنقید کرتے ہوئے، اور غلط ٹھیراتے ہوئے کچھ یوں تاثر دیا کہ ” اس غلطی کو درست کریں، ورنہ اردو کا بیڑا غرق ہوجائے گا”۔

⛔ رضاء انٹر نیشنل اسکول (RIS) لکھنو، والوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ کیا واقعی یہ طریقہ غلط ہے؟ اور ناقد محترم کی بات درست ہے؟

🌹 بندہ نے کئی اردو کے ماہرین سے رجوع کیا لیکن انہوں نے کوئی ٹھوس بات یا تشفی بخش جواب نہ دیا۔
نتیجۃً اس مضمون کی ولادت باسعادت ہوئی، امید ہے کہ اس نو مولود سے سب کو خوشی ہوگی، اور مسئلہ حل ہوگا، اور اس جیسے تمام مکاتب ومدارس اور اسکولوں کو آج اور مستقبل میں بھی رہنمائی ملتی رہے گی ۔۔

🟪 *دونوں طریقے درست ہیں:با پا اور بے پے*
قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اردو میں دونوں طریقے درست ہیں۔
🔹 اردو کی مستند ڈکشنری (فرہنگ عامرہ) میں دونوں تلفظ دیے گئے ہیں، اس میں لکھا ہے:
“ب (باء، بے) ۔۔۔۔ ت (تاء، تے) ۔۔ ث (ثاء، ثے)۔۔ ح(حاء، حے) خ(خاء، خے) ۔۔ ر (راء، رے)۔۔ ز(زاء زے)۔۔ ف (فاء، فے).. ہ(ہاء ہے)۔۔ ی (یاء، یے)۔۔
دیکھیے: (ص63، 110، 149، 176، 192، 370، 563، 576)

🔹 اسی طرح جہاں گیر اردو لغت میں لکھا ہے:
(ب: بے، با۔۔ بھ: بھے، بھا۔۔ پ: پے، پا۔۔ تے تا۔۔ پھے، پھا۔۔ تھے، تھا۔۔ ٹے، ٹا۔۔الخ) ۔ دیکھیے ص141، 226، 241 ۔۔الخ
اسی میں ہے: (ح: حاء، حائے حطی ص629، خ: خے خا، خائے معجمہ ص673، ر: رے، را، رائے مہملہ ص801 الخ

مستند ترین لغت فرہنگ آصفیہ اور نور اللغات میں ان حروف میں ہر حرف کے تعلق سے لکھا ہے : “یہ عربی و فارسی کا حرف ہے”، گویا کہ یہ اشارہ ہے کہ اسکے تلفظ میں دونوں زبانوں کی رعایت کی جاسکتی ہے۔

🟪 *دونوں طریقے صحیح ہیں، لیکن سیدھا تلفظ: (با پا) ہمارے نزدیک اولی ہے:*

یہاں پر ایک مسئلہ یہ در پیش ہوگا کہ اگر دونوں تلفظ صحیح ہیں تو بچوں کو تو کوئی ایک طریقہ ہی پڑھایا جائے گا اگرچہ دوسرے طریقہ کا جواز بھی بتادیا جائے۔
❓لہذا کیسے پڑھانا بہتر ہوگا؟
تو اس میں رائے کا اختلاف ہوسکتا ہے:
▪️جو حضرات رواج وغیرہ کو بنیاد بنائیں گے، تو وہ (بے پے) کو ترجیح دیں گے۔۔
▪️لیکن جو تھوڑی بلندی سے اصول اور مضبوط بنیادوں کی طرف متوجہ ہوں گے وہ (با پا تا ٹا) کو ہی ترجیح دیں گے۔

▪️چنانچہ جن ڈکشنریوں نے (بے، پے) کو تلفظ بتایا ہے (جیسے فیروز اللغات وغیرہ) انہوں نے بظاہر رواج کو بنیاد بنایا ہے، جبکہ یہ رواج پختہ اصولوں پر مبنی نہیں ہے، کیوںکہ فارسی ہندی اور عربی سب کا تلفظ (با پا) ہے، بلکہ یہ رواج بظاہر غلط العوام کا نتیجہ ہے، جیسے ص ض ط ظ وغیرہ کا تلفظ صواد ضواد طوئے ظوئے، یا طو ظو، جو بعض ڈکشنریوں میں درج ہے وہ در اصل غلط العوام اور صحیح تلفظ سے لا علمی، عجز، یا عدم قدرت کا نتیجہ ہے۔
جبکہ بعض دیگر ڈکشنریوں میں اسکا تلفظ : صاد، ضاد، طاء، ظاء لکھا ہے۔ اور یہی راجح واولی ہے۔
جبکہ سابقہ تلفظ کو اگر ہم بادل ناخواستہ روا رکھیں، تو جواز ہی کی حد تک رکھسکتے ہیں، اصل مان کر نہیں۔
– اس تلفظ کی ایک دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں نہ عربی کا لحاظ رکھا گیا جس سے وہ اخذ کیا گیا ہے، نہ اردو کا لحاظ رکھا گیا جسمیں یہ زا، س اور تا کی آواز دیتا ہے، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔۔

🔷 *با پا تلفظ کی دیگر وجوہ ترجیح:*

1️⃣ بقول ماہر لسانیات : اردو اور ہندی دونوں ایک ہی لسانی خاندان سے ہیں: (ہند آریائی زبان)، دونوں برصغیر ہند میں پیدا ہوئیں، اور دونوں کی اساس یکساں ہے، صوتی اور قواعدی سطح پر دونوں زبانیں اتنی قریب ہیں کہ ایک زبان معلوم ہونے لگتی ہیں۔
بلکہ اردو کا اصل نام ہندی اور ہندوی ہے۔
اور ہندی میں حروف تہجی کی آواز: با تا پا چا جا گا گھا ۔۔ الخ ہے، نا کہ (بے پے جے ۔۔ الخ)۔

2️⃣ اردو پر فارسی کا اثر مخفی نہیں، اور فارسی کا تلفظ بھی (با تا ثا، چا ۔۔ الخ) ہے نا کہ (بے پے)، جیسا کہ :
نور اللغات ج1 ص429، ج2ص1 ۔۔۔ الخ،
جہانگیری لغت ص 143، 317 ۔۔ الخ
فرہنگ آصفیہ ج1ص 339 ، 579 ص471، .. الخ وغیرہ مستند كتابوں میں درج ہے۔

3⃣ اردو کی اکثر ڈکشنریوں میں ان حروف کا تلفظ: (بایے موحدہ، ثائے مثلثہ، حائے حطی ۔۔۔ ) جیسے الفاظ مذکور ہیں، نہ کہ: حے حطی ۔۔ الخ

4️⃣ تناسق وتناسب:
چا حا خا دال ڈال ۔۔۔ فا قاف كاف .. میں تناسب وتناسق ہے، برخلاف : چے حے دال ڈال ۔۔ فے قاف کاف ۔۔ اس میں تناسب وہم آہنگی مفقود ہے۔

5️⃣ (طا ظا) میں سہولت ہے اور اختلاف بھی نہیں ہے، برخلاف طے ظے، کہ کوئی طویے ظویے پڑھتا ہے تو کوئی طو ظو، تو کوئی طے ظے۔ 

6️⃣ (با تا) میں حرف کی آواز کے بعد الف آتا ہے جو پہلا حرف ہے اور تمام حروف پر مقدم ہے، جبکہ (بے تے) میں بڑی یاء آتی ہے جو آخری حرف ہے۔

🟪 *اشکال اور حل:*
کوئی یہ اشکال کرسکتا ہے کہ ترکی اور فارسی بھی تو اردو زبان پر اثر انداز ہوئی ہے، اسکا طریقہ بے پے ہے، اسکو کیوں نہیں لیتے؟

🔹 *پہلا جواب* :
عربی تو عربی ہے سب پر مقدم ہے، اور ہندی اسی زبان کے خاندان سے ہے، دونوں کا تلفظ با تا پا ہے۔
فارسی کا تلفظ بھی با پا ہے جیسے پیچھے حوالے دیے گیے، لیکن جیسے اردو والوں نے بے پے رائج کردیا، معلوم ہوتا ہے کہ بعض فارسی والوں نے بھی اسی طرز کو اختیار کرنا شروع کردیا ہے، جو الٹی گنگا بہانے کے مترادف ہے۔

رہی ترکی تو نہ اسکا وہ مقام ہے اردو میں نہ وہ تعلق ہے، سوائے اسکے کہ اس سے الفاظ مستعار لیے گیے ہیں، اب وہ انگریزی سے لے رہی ہے۔

🔹 *دوسرا جواب* : 
فارسی وترکی نے بھی حروف تہجی کی ترتیب اور رسم الخط عربی سے ہی لیا ہے، لیکن ترکی نے اپنے علاقائی اثر سے اسکا تلفظ ترچھا کرلیا ہے، جبکہ ہمیں ترچھا کرنے کی اور ہونے کی ضرورت نہیں، کہ ہمارے علاقہ میں، اور ہندی میں سیدھے پڑھے جاتے ہیں، اور یہی فطرت سلیمہ سے اقرب ہے۔

🔹 *تیسرا جواب* :
ترکی میں۔ تمام حروف تہجی ترچھے پڑھے جاتے ہیں: بے پے جے دے ذے سے شے صے ضے لے ۔۔۔ نا کہ جیم، دال، سین وغیرہ، یہ سب عربی تلفظ ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ ہم کہیں عربی سے لیں اور کہیں ترکی سے، کیا عربی تلفظ میں نقص ہے؟
🔹 *چوتھا جواب* :
ترک وفارس کی قوموں نے عربی سے حروف تہجی تو لیے، تاکہ عرب ومسلمانوں سے رشتہ استوار ہو، لیکن ان حروف کی آواز ومخارج نہیں لیے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قرآن کی اور محمد عربی کی زبان سے کوسوں دور رہے، اور (ذ، ز، ض، ظ) ان چاروں حروف کی آواز ایک ہی رہ گئی : وہ (ز) کی آواز ہے ۔۔
اسی طرح: (ث، س)، (ت، ط) (ح،ہ) کی آواز بھی ایک بنی۔۔
اسکا اثر قرآن اور صحت نماز پر بھی پڑا،
برخلاف شام، عراق، فلسطین، لبنان، مصر، لیبیا، تونس، الجزائر وغیرہ کے، جو بلاد عربیہ بن گیے۔
ہم اردو کو بھی عربی سے دور کرنا چاھتے ہیں کیا؟

🟪 *(بے پے) کو ترجیح دینے والوں کی خدمت میں چند گزارشات:*
امید کرتا ہوں کہ اس مضمون سے دلائل کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ (با، پا) تلفظ راجح اور اولی ہے،
لیکن اگر کوئی شخص ابھی بھی (بے پے) کو راجح سمجھتا ہے تو اول تو اس کی خدمت میں عرض ہے کہ اختلاف ہی سے ہے کائنات کی زینت۔

گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

ثانیاً: مودبانہ عرض ہے کہ :
▪️اگر (بے پے) کا تلفظ رواج کی بنیاد پر ہے، تو ہم کیوں نہ اصل تلفظ کو رواج دیں، تاکہ زبان کی پختگی برقرار رہے۔

▪️اردو نے بڑے بڑے اصولوں کو خوشدلی سے نظر انداز کیا ہے، مثلا حروف کی آوازوں کو (ان کے مخارج کو) ہی نظر انداز کر دیا، اور (ز، ذ، ظ، ض) سب کی ایک ہی آواز بنادی، جس سے ایک طرف ان حروف کا امتیاز بولنے میں ختم ہوگیا، اور لکھنے میں املاء کی دشواریاں وغلطیاں الگ پیدا ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے اردو املاء از رشید احمد ص 133 تا 163 وغیرہ۔
تو اس جزئیہ کو بھی (اگر واقعی یہ اردو تلفظ ہو تو) نظر انداز کرنے میں تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔

▪️اردو میں کئی امور ابھی بھی اختلاف کے دائرہ میں ہیں، مثلا حروف تہجی کی تعداد، 35 سے لے کر 58 تک کئی اقوال ملتے ہیں، ((من جملہ انکے رائج ومشہور قول 38 کے خلاف اردو اکادمی برائے فروغ۔۔نے کئی حروف شاملِ ابجد کرکے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد 54 بتائی ہے، مقتدرہ قومی زبان نے مزید اضافے کرکے 58 مانے ہیں، واضح رہے کہ بابائے اردو کے نزدیک 50 ہیں ۔اٹھائیس عربی سے ، چار (پ، چ ، ژ، گ )فارسی سے اور تین خالص ہندوستانی سے ( ٹ ، ڈ، ڑ ) پندرہ ہندی سے ( بھ، پھ، تھ ، ٹھ، جھ، چھ، دھ ، ڈھ ، رھ ، ڑھ ، کھ، گھ ، لھ، مھ، نھ)۔ دتاتریہ کیفی کے نزدیک 47 ہیں ( ژ ، مھ ، نھ ) کم کرکے)) ۔۔
تو تلفظ میں اختلاف ہوتو کوئی بڑی بات نہیں ہے، اس امر کو بھی اجتہادی واختلافی قرار دیا جائے تو کیا مضایقہ ہے؟ جب حروف کی تعداد، بلکہ حروف کی آواز جو اسکی پہچان ہے، کو ہی نظر انداز کیا جاسکتا ہے تو ظا، یا ظو، یا ظوئے، یا ظے، پڑھنا تو نا قابل التفات امر ہے۔
▪️ ہاں اگر کوئی اسکو اصول کی بنیاد پر صحیح تلفظ (با، پا، ثا، ظا) کو رواج دے رہا ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے: اردو کے ہمدرد ہونے، اسکے اصولوں کے قدرداں ہونے کی حیثیت سے بھی، اور مسلم اور محب قرآن ورسول ہونے کی حیثیت سے بھی۔

▪️(با پا تا) کو رواج دے کر ہم وہی کریں گے جو ہم سے پہلے والوں نے کیا، کہ اردو جو بائیں سے دائیں جانب لکھی جاتی تھی، اسکو دائیں سے بائیں جانب لکھنے کا رواج دیا۔
(واضح رہے کہ اردو آریائی خاندان سے ہے، اور تمام آریائی قومیں -اردو اورفارسی کے علاوہ- بائیں سے دائیں جانب لکھتی ہیں۔ اور سامی قومیں دائیں سے بائیں جانب۔ فارسی بھی عربوں کے تسلط سے قبل بائیں جانب سے لکھی جاتی تھی اور اردو بھی، جو بقول مولوی عبد الحق صاحب ’’ہندی کی ترقی یافتہ شکل ہے‘‘، اپنے ابتدائی دور میں دیوناگری رسم الخط میں بائیں سے دائیں جانب لکھی جاتی تھی۔)
یقینا اسی طرح (با پا تا) کو رواج دینا بھی اردو کی خدمت کی کڑیوں میں ایک ہے۔

🤚 خلاصہ یہ کہ دونوں طریقے اور تلفظ صحیح ہیں، بہتر کونسا ہے اس میں اختلاف ہوسکتا ہے، کوئی (بے پے) کو ترجیح دے سکتا ہے، لیکن:
قرآن کی، رسول کی، عربی کی، اہمیت جس کے دل میں ہوگی، وہ یقینا (با پا) کو ترجیح دے گا، خصوصا جبکہ عربی کا رسم الخط ہی اردو نے لیا ہے، فارسی نے بھی، اور جبکہ فارسی میں بھی (با پا) ہی ہے، اور ہندی میں بھی.
باقی (بے پے) کی بنیاد وحی نہیں، نہ پختہ قدیم اصول ہیں، بلکہ رواج یا غلط العوام ہے، لہذا آئیے رواج کا رخ پلٹیں، اور غلط العوام کی غلطی نہ دہرائیں، اور عربی کی تختی پر منفی اثر سے بچیں.

هذا ما عندي، واللہ أعلم، وأعلم بالحِكَم، وصلى وسلم، على النبي الأكرم، وعلى من تبعه في الحل والحرم.

کتاب استفسار –

قياسي

رد عیسایت پر ایک شہکار . طبع اولی 1261ہجری.یہ کتاب آل حسن موہانی رحمۃ اللہ علیہ تصنیف ہے۔ بعد مین یہ کتاب رد الاوہام کہ حاشیہ پر بہی چہپی ہے. تقابل ادیان پر کام کرنے والوں کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے.مصنف نہ بڑی عرق ریزی سے دلایل جمع کیے ہیں.