جواب شافی – محمد عبد الجلیل نعمانی رامپوری

قياسي

یہ کتاب *مولوی محمد عبدالجلیل نعمانی کی جواب شافی* اپنی نوعیت کی ہماری معلومات کے مطابق لا ثانی ہے مصنف نے اپنی مطالعہ و تحقیق سے ادیان باطلہ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے تشفی بخش دلائل سے جوابات دئے ہیں حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیوکی نندن کا واقعہ مطالعہ کیا جب ناریاں ندی پر اشنان کے لئے آتی ہیں اور انکے وستر وہان سے دیوکی نندن کسی جگہ چھپا دیتے ہیں جب وہ ناریاں وستر طلب کرتی ہیں تو ان سے کیا فرمائش ہوتی ہیں.

وہ اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوا جبکہ دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا

قياسي

*وہ اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوا جبکہ دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا*

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
*بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا*
(مصطفیٰ خان شیفتہ)

گلہ کیسا حسینوں سے بھلا نازک ادائی کا
*خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے*
(سرور عالم راز سرور)

داورِ حشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ
*اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں*
(ایم ڈی تاثیر)

*میں کِس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں*
***تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے***
(مصطفیٰ زیدی)

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
*دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے*
(مرزا غالب)

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
*خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو*
(میانداد خان سیاح)

غم و غصہ، رنج و اندوہ و حرماں
*ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے*
(حیدر علی آتش)

مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی
*مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی*
(نا معلوم)

آخر گِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی
*پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا*
(مرزا جواں بخت جہاں دار)

بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
*ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں*
(مولانا الطاف حسین حالی)

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
*بہت دیر کی مہرباں آتے آتے*
(داغ دہلوی)

نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
*مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے*
(حیدر علی آتش)

غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے
*کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا*
(چراغ حسن حسرت)

جذبِ عشق سلامت ہے تو ان شاء ﷲ
*کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے*
(انشاللہ خان انشاء)

قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
*جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین کا*
(امیر مینائی)

پھول تو دو دن بہارِ جاں فزاں دکھلا گئے
*حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے*
(شیخ ابراھیم زوق)

کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
*ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا*
(مرزا غالب)

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھ ہیں
*صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں*
(داغ دہلوی)

چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے
*عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے*
(فدوی لاہوری)

مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
*اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا*
(میر طاہر علی رضوی)

لائے اس بت کو التجا کر کے
*کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے*
(پنڈت دیال شنکر نسیم لکھنوی)

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
*شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات*
(علامہ اقبال)

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
*جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی*
(علامہ اقبال)

اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں
*اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں*
(شعیب بن عزیز)

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
*بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے*
(پروین شاکر)

برباد گلستاں کرنے کو، بس ایک ہی الو کافی تھا
*ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا*
(شوق بہرائچی)

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا نکتہ سرا
*صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیئے*
(مرزا غالب)

حیات شاہ عبد الغنی مجددی محدث دہلوی – احوال و آثار اور دینی خدمات – بقلم محمد اقبال مجددی

قياسي

بقلم مدثر جمال تونسوی

حضرت شاہ عبد الغنی مجددی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے سلسلہ سند حدیث کے جلیل القدر مشایخ میں سے ہیں ۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیھما نے علم حدیث کی امہات کتب انہی سے پڑھی ہیں اور اس وقت برصغیر پاک و ہند اور بنگہ دیش وغیرہ میں جہاں جہاں علمائے دیوبند کے حلقہ ہائے درسِ حدیث جاری ہیں وہاں کا سلسلہ سند انہی سے گزرتا ہوا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک اور مزید اوپر نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی تک پہنچتا ہے ۔ الحمد للہ علی ذلک ۔
حضرت شاہ عبد الغنی صاحب کے حالات پر شاید یہ پہلی مستقل کتاب ہے ۔ اس کے مصنف بریلوی مسلک کے معروف محقق اور قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلہ نقشبندیہ کے بھی فیض یافتہ ہیں ۔
مصنف کی یہ وُسعتِ قلبی تو قابل تحسین ہے کہ انہوں نے حضرت کے تلامذہ کی فہرست میں علمائے دیوبند کے جو جلیل القدر علماء و محدثین شامل ہیں ان کا تذکرہ بھی کتاب میں شامل کیا ہے ، مگر دو باتیں قابل نظر ہیں :
ایک تو انہوں نے علمائے دیوبند کو پاک و ہند کے دیگر علماء سے الگ مستقل عنوان دے کر فہرست دے کر شامل کیا ہے اور یہ بات بھی اگرچہ اتنی بُری نہیں
مگر دوسری بات جو بڑی افسوس ناک محسوس ہوئی یہ ہے کہ مصنف نے علماء دیوبند کے عنوان والی فہرست کے میں ہی مرزا نور الدین قادیانی کا نام بھی شامل کر دیا ہے ۔ حالانکہ اس قادیانی کا علمائے دیوبند سے کیا تعلق ؟ کب اس قادیانی کو علمائے دیوبند میں شمار کیا گیا ہے ؟
شاید مصنف پر غیر جانبدارانہ رویے کے بجائے آخر کار جانبدارانہ رویہ غالب آ گیا ہو !!!
بہر کیف کتاب مجموعی اعتبار سے بہت ہی مفید اور معلومات افزاء ہے اور خصوصاً یہ مصںف کا احسان ہے کہ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب کی اسانید حدیث پر مشتمل رسالہ المورد الھنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی جسے حضرت مولانا عبد الستار دہلوی حنفی نے مرتب کیا ہے ، کا مکمل عکس کتاب میں شامل کر دیا ہے جو اس موضوع کے شائقین کے لیے یقینا نعمت غیر مترقبہ ہے ۔
حضرت شاہ عبد الغنی صاحب کا یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ جب 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد حالات کی ناسازی کے باعث وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے تو پھر تقریبا 23 سال کا طویل عرصہ اسی مبارک سرزمین پر قیام پذیر رہے اور علم حدیث کی درس و تدریس بھی جاری رکھی جس کی وجہ سے ان کے تلامذہ کا حلقہ برصغیر سے نکل کر عرب اور مغرب تک پھیل گیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واضح رہے کہ یہ شیخ عبد الغنی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے خاندان سے ہیں ۔ جب کہ ایک شاہ عبد الغنی شاہ ولی اللہ قدس سرہ کے خاندان کے ہیں جو شاہ محمد اسماعیل شہید کے والد ہیں ۔
اس لیے ان دونوں میں یہ فرق یاد رکھنا چاہیے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ ان دو شخصیات کو مکس کر رہے ہوتے ہیں ۔

تقدیس والدین مصطفی ﷺ – قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی کی تصنیف تقدیس والدین مصطفی ﷺ کا اردو ترجمہ – بقلم ڈاکٹر محمود الحسن عارف

قياسي

یہ کتاب نبی کریم ﷺ کے والدین کریمین اور تمام آباء و اجداد علیہ و علیہم السلام کے مؤمن ہونے پر لکھی گئی ہے۔
کتاب میں درج ذیل چار ابواب ہیں:
نبی کریم ﷺ کے خاندان اور اجداد کے فضائل صحاح ستہ کی روشنی میں
حضرت آدم علیہ السّلام سے لے کر حضرت عبد المطلب تک اجداد نبوی کے ایمان کا ثبوت
نبی کریم ﷺ کے والدین کریمین کے ایمان کا ثبوت
نبی کریم ﷺ کے والدین سعیدین کے مسلک و مشرب کا بیان
جبکہ خاتمہ میں اسی موضوع سے متعلق چند متفرق فوائد پیش کیے گئے ہیں۔
کتاب کے مولف، مترجم اور ناشر کی معلومات آپ کے سامنے ٹائیٹل پر موجود ہیں۔
خریدہے، پڑھیے اور ایمان تازہ کیجیے۔
و اللہ ولی التوفیق۔

بقلم مدثر جمال تونسوی

انکار حدیث – یہ وہم کہیں تجھ کو گنہگار نہ کر دے – پروفیسر طفیل ہاشمی

قياسي

انکار حدیث__یہ وہم کہیں تجھ کو گنہگار نہ کر دے


پاکستان میں غالباً غلام احمد پرویز اور ان کے مکتب فکر کے جواب میں حجیت حدیث اور انکار حدیث کی اصطلاحات متعارف ہوئیں اور کئی ایک ثقہ علماء نے بھی استعمال کیں. حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کی ایک ہی کتاب کے اردو ایڈیشن کا نام حجیت حدیث اور انگریزی ایڈیشن کا Authority of Sunnah ہے. مولانا مودودی نے، جنہوں نے براہ راست فکر پرویز سے مکالمہ کر کے کتاب تالیف کی، اپنی کتاب کا نام “سنت کی آئینی حیثیت” رکھا.
امر واقعہ یہ ہے کہ ادبیات قانون وفقہ اسلامی کے لیے حجیت حدیث اور انکار حدیث کی اصطلاحات مطلقاً اجنبی ہیں. تمام اسلامی لٹریچر “حجیت سنت” کی اصطلاح سے متعارف ہے. سنت و حدیث میں عام فہم فرق یہ ہے کہ کسی بھی قول، فعل اور خاموش تصویب کے عمل کو جس کی رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی طرف نسبت ہو حدیث کہتے ہیں، خواہ وہ نسبت درست ہو یا غلط.. اسی لئے حدیث موضوع، مردود، مدلس، مرسل، منقطع اور شاذ وغیرہ ہوتی ہے، لیکن جب کوئی حدیث شک و شبہ سے بالا تر ہو کر (مختلف ائمہ کرام کے ہاں اس کے معیار مختلف ہیں) اس قابل ہو جائے کہ اس پر عمل کرنا قرآن کے حکم اطيعوا الله و اطيعوا الرسول کے زمرے میں آ جائے تو وہ سنت قرار پاتی ہے، وہی حجت ہے اور اس کا انکار موجب نکیر ہے.
یاد رہے کہ کسی حدیث کا صحیح ہونا اس کے سنت ہونے کے لیے کافی نہیں ہوتا کیونکہ متعدد ایسی احادیث ہیں جو صحیح ہیں لیکن منسوخ ہو گئیں یا کسی خاص سیاق سے متعلق تھیں یا کسی فرد کے ساتھ مختص تھیں اور انہیں رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے سماج میں عام چلن کے طور پر متعارف نہیں کروایا.
اگر کسی ایک یا چند احادیث کا محض انکار موجب نکیر ہو تو اہل علم صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین، محدثین اور علماء کرام میں سے کوئی ایسی شخصیت تلاش نہیں کی جا سکتی، جس نے کسی نہ کسی حدیث کو رد نہ کیا ہو.
کسی ایک یا چند احادیث پر جرح کرنا یا انہیں لائق استدلال نہ سمجھنا غلط تو ہو سکتا ھے لیکن اسے انکار حدیث سے تعبیر کرنا علمی افلاس کی دلیل ھے ۔انکار حدیث ایک فکر ایک رویہ اور ایک منہج ھے. رہی کسی حدیث پر تنقید تو کوئ صاحب علم ایسا نہیں جسے یہ کام نہ کرنا پڑا ہو ۔اس کا آغاز حضرت عمر نے کیا اور ایک خاتون کی روایت رد کردی کہ قرآن سے ھم آھنگ نہیں ۔ان کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ نے کئ صحابہ کی کئ روایات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔تمام فقہاء محدثین ارباب علم و دانش کا یہی رویہ رہا ۔جب آپ یہ کہتے ھیں کہ امام بخاری نے اتنے لاکھ احادیث سے یہ دو اڑھائ ھزار احادیث منتخب کیں تو لاکھوں احادیث کو رد کرنے کی وجہ سے وہ منکر حدیث نہیں قرار پائے بلکہ ساری امت ان کی ممنون ھے کہ انہوں نے صحیح و سقیم کو الگ الگ کر دیا ۔اس پہلو سے حدیث پر گفتگو کرنا انکار حدیث نہیں بلکہ ائمہ مجتہدین و محدثین کا اتباع ھے ۔
یہ صرف قرآن ہے جو لفظاً متواتر ہے اور قرآنی اصطلاحات کی نبوی تعبیرات ہیں جو عملا متواتر ہیں.
میری رائے میں اگر کسی شخص کا یہ نقطہ نظر ہے کہ “فہم قرآن کے لیے الفاظ قرآن کافی ہیں جو اپنا مفہوم قطعیت سے بیان کرتے ہیں” تو ضروری نہیں کہ ان الفاظ میں انکار سنت کا مفہوم تلاش کیا جائے بلکہ اس سے یہ مراد لی جانی چاہئے کہ وہ الفاظ قرآنی کے حفظ و تحفظ پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہے. رہی یہ بات کہ ان الفاظ کا فہم کن کن علوم سے وابستہ ہے تو جس طرح اس عبارت میں عربی زبان و ادب، لغت جاہلی کا ذکر نہیں اسی طرح سنت کا ذکر بھی نہیں. اگر ایسا شخص قرآن کی آیت “لتبیین للناس ما نزل الیہم” پر یقین رکھتا ہے اور قرآنی اصطلاحات کی، مثلاً ایمان، اسلام، کفر، نفاق، صلوۃ، زکوۃ، صوم، حج، نکاح، طلاق وغیرہ، جن کو سنت نے ان کے لغوی معنی سے ہٹا کر اپنے خاص معانی میں استعمال کیا ہے، سنت کے متعین کردہ معانی کے مطابق تفسیر کرتا ہے تو اس پر کسی دوسرے عنوان سے بھلے تنقید کی جائے لیکن اسے اس حوالے سے منکر سنت نہیں کہا جا سکتا.
اگر اخبار احاد کے ذریعے قرآن کے معانی کے تعین کا اصول تسلیم کر لیا جائے تو قرآن کے قطعی الثبوت ہو نے کا صرف یہ مطلب رہ جائے گا کہ اس کے الفاظ قطعاً متواتر ہیں اور ان میں کوئی رد و بدل نہیں ہوا لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ الفاظ محض مفاہیم پر دلالت کا وسیلہ ہیں اور اگر مفاہیم میں اخبار احاد کی بنا پر تغیر و تبدل کی راہ کھل جائے تو قرآن کے قطعی الثبوت ہونے کا کوئی معنی نہیں رہتا.
حنفیہ اور محدثین کے اختلاف کی اساس

حدیث کے حوالے سے بیشتر بحث و مکالمہ کا تعلق در حقیقت حنفیہ اور محدثین کے اصول فقہ کے اختلافات سے ھے حنفیہ بہر طور تشریعی احکام میں کتاب اللہ کو ترجیح دیتے ہیں اور اس پر کوئ Compromise نہیں کرتے مثلا وہ خبر واحد سے کتاب اللہ کے خاص میں تبدیلی عام میں تخصیص مطلق میں تقیید اور حقیقت کو مجاز میں بدلنے کے قائل نہیں ۔نیز خبر واحد کے ذریعے ہونے والے اضافے کو صرف دوسرے درجے (واجب مندوب مکروہ )کے طور پر قبول کرتے ہیں کتاب کے حکم کا درجہ نہیں دیتے ۔نیزحنفیہ ایک مسئلہ میں وارد متعدد اور مختلف آیات و احادیث میں سے ایک کلیہ اخذ کرکے اسے مدار قرار دے کر دوسری نصوص کی اس کے مطابق تطبیق کرتے ہیں ۔
اسی طرح حنفیہ کے نزدیک سنت اور حدیث ایک نہیں ہیں اور حجت شرعیہ حدیث کے بجائے سنت ھے اور اسکی صحت کا مدار رواہ پر نہیں تواتر عملی پر ہوتا ھے۔
جرح وتعدیل اور رواہ کی بحث حنفیہ کا موضوع نہیں ھے ان کے ہاں رفع تعارض کے اصول محدثین سے مختلف ہیں اور خالصتا قانونی اوردستوری منہج پر ہیں ۔ ۔افسوس ناک پہلو یہ ھے حنفی مدارس میں سے بیشتر میں حدیث حنفی منہج پر نہیں بلکہ محدثین کے منہج پر پڑھائ جاتی ھے ۔اور اساتذہ شرح نخبہ اور ابن حجر کی معلومات پر تدریس کرتے ہیں ۔

حنفی منہج دراصل اعلی قانونی اور آئینی منہج ھے جسے صرف اعلی دستوری دماغ ہی Follow کر سکتے ہیں ۔رواہ کی داستانہائے حیات یاد کرنے والوں کو قانونی نکات سمجھنے کا وقت ہوتا ھے نہ مزاج ۔یہی وجہ ھے کہ تمام دنیا کے متمدن ممالک میں قانونی منہج وہی ھے جو اسلامی مکاتب فقہ میں احناف کا ھے اسی لئے جس طرح ہادیان عالم میں پیغبر اسلام کا اسم گرامی سر فہرست ھے اسی طرح مناہج قانون کی تشکیل کرنے والوں میں ساری دنیا ابو حنیفہ کی عظمت کی قائل ھے ۔
میرے اب تک کے مطالعے کا ماحصل یہ ہے کہ قرآن کے مفہوم کا تعین سنت متواترہ سے ہی ہو سکتا ہے. جہاں تک بعض آیات کے ظنی الدلالة ہو نے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ احادیث نہیں ہیں بلکہ کوئی بھی آیت لغوی یا ترکیبی معانی میں اشتراک کے باعث اس وقت ظنی الدلالة ہو جاتی ہے جب سنت متواترہ کے ذریعے کسی ایک مفہوم کا تعین نہ ہو جیسے قروء کے معنی میں اشتراک، الصلوۃ کے مفہوم میں نمازاور مسجد کا اشتراک اور لا یضار کاتب ولا شہید کامطلب اور الا الذین تابوا کا مستثنی منہ (اس پر ان شاء اللہ تفصیل سے لکھا جائے گا). یاد رہے کہ خوارج نے رجم کی روایات کا انکار کیا، معتزلہ متعدد مسائل میں تاویل کی بنا پر جمہور سے الگ ہوگئے، ان کی تکفیر نہیں کی گئ. بلکہ موزوں پر مسح کی روایت، جسے متواتر قرار دیا جاتا ہے، سیدہ عائشہ، ابن عباس اور حضرت ابو ہریرہ کی رائے کے مطابق نزول مائدہ سے قبل کا حکم تھا. صحابہ کرام قبول ورد روایات کی بنا پر ایک دوسرے کی تفسیق نہیں کرتے تھے.
اخبار احاد کا اختلاف، در حقیقت اختلاف تنوع ہے، جس کے باعث امت کے لیے وسعت پیدا ہو گئی اور ہر طرح کے افراد اور متنوع سماج کے لیے اسلام کے دائرے کے اندر مختلف way out دئیے گئے. جس کی تائید سنن ترمذی اور المیزان الکبری سے ملتی ہے.
طفیل ہاشمی