*آہ مولانا شاہد صاحب قاسمی ندویؒ* – ابو سفیان ندوی علیگ

قياسي

*آہ مولانا شاہد صاحب قاسمی ندویؒ*
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
دنیا میں انسان آنکھیں کھولتا ہے پلتا ہے بڑھتا ہے زندگی کی بہاریں دیکھتا ہے بچپن سے لیکر زندگی کے مختلف مراحل میں ہزاروں قسم کے افراد انسان کی زندگی میں آتے ہیں ہزاروں دوست یار ملتے ہیں کچھ ساتھ رہتے ہیں کچھ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں کچھ کا ساتھ متعین مدتوں کے لئے ہوتا ہے کچھ کا غیر متعینہ مدت تک۔ کچھ کا ساتھ نہ ہی ملنے اور نہ ہی بچھڑنے کا ہوتا ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو پل بھر کے لئے ملتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے بچھڑ جاتے ہیں ۔ مگر کچھ پل اتنے حسین اور اتنے دلکش ہوتے ہیں کہ وہ میٹھی اور پیاری یادیں بن کر زندگی بھر آپ کا ساتھ نھباتے ہیں اور زندگی کے حسین لمحوں میں ان پلوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔ زندگی کے ان حسین پلوں میں بے حد حسین پل میرے لئے وہ پل بھی ہے جب میں ضیاء العلوم رائے بریلی میں ہوا کرتا تھا۔ رائے بریلی میں میں نے زندگی کی سات بہاریں دیکھی ہیں۔ اعدادیہ سے لیکر عالیہ ثالثہ تک کی تعلیم حاصل کی۔ ضیاء العلوم میں یوں تو ہمارے تمام اساتذہ کرام بے حد مشفق۔ بے حد شفیق۔ بے حد مہربان۔ اور طلباء کو اپنی اولاد کی طرح treet کرنے والے تھے مگر ان میں مولانا شاہد صاحب ندوی قاسمی کا مقام تھوڑا الگ اور قدرے مختلف تھا مولانا ہمارے استاذ کم دوست زیادہ ہوا کرتے تھے مولانا سے ملتے ہوئے یا مولانا سے پڑھتے ہوئے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ مولانا ہمارے استاذ ہیں اور ہم سب ان کے شاگرد۔ مولانا جب پڑھاتے تو ایسا لگتا کہ کوئی دوست یا بھائی اپنے چھوٹے بھائیوں کو پڑھا رہا ہے یا اپنے دوستوں کو درس دے رہا ہے ، دوران درس کسی طالب علم کو کبھی بوریت نہیں ہوتی طلباء ہمیشہ نشیط رہتے کیوں کہ دوران تعلیم مولانا کا ایک وصف تھا کہ طلباء سے باتوں باتوں میں مذاق کیا کرتے تھے مگر مولانا کا مذاق بہت عمدہ منطقی اور informative ہوا کرتا تھا جس سے طلباء لطف اندوزی کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلباء کو بھی پوری اجازت ہوتی کہ وہ بھی ان سے بنا hesitation کے بات کرے۔ سوال کرے ۔جو چاہے پوچھے کوئی بھی بندش نہیں ہوا کرتی تھی حتی کہ سنجیدہ مذاق و مزاح کی بھی کھلی اجازت ہوا کرتی تھی،
مولانا کے کچھ گھنٹے عائشہ للبنات شہر رائے بریلی میں بھی تھے جہاں مولانا طالبات کی کلاسیز لیا کرتے اور عالمات کو پڑھایا کرتے تھے غالبا وہاں کتاب الطلاق کتاب النکاح وغیرہ کا درس دیا کرتے تھے جب کبھی ہم تمام ساتھیوں کو پڑھنے کا موڈ نہیں ہوتا تو مولانا کو الجھانے کی کوشش کرتے, مولانا آج آپ نے وہاں کیا پڑھایا؟ کون کون سی احادیث پڑھائی؟ ادھر سے کیا کیا سوالات ہوئے؟ کیا کیا اشکالات کئے گئے؟ لیکن مولانا اتنی خوبصورتی سے بات کو ٹالتے ہوئے ہمیں جواب دیتے کہ پھر ہم سب سے اور کوئی سوال ہی نہیں بن پاتا اور وہ ہمیں پڑھا بھی دیتے۔ نا چاہتے ہوئے بڑی خوشی کے ساتھ ہم سب آگے کا سبق پڑھ بھی لیتے اور ہمیں کوئی بوریت بھی نہیں ہوتی ،

خوش مزاجی اور خوش اخلاقی :

مولانا نہایت خوش مزاج اور باذوق تھے خوش مزاجی و خوش اخلاقی ان کا امتیازی وصف تھا جن سے بھی ملتے ہنستے اور مسکراتے ہوئے ملتے حال احوال ایسے دریافت کرتے گویا خون کا رشتہ یا برسوں کا یارانہ ہو۔ طلباء سے باتیں کرتے تو ایسا محسوس ہوتا گویا ان کا دوست ہو۔ اساتذہ کرام سے باتیں کرتے تو ایسا لگتا گویا شقیقی رشتہ ہو یا اپنے خاندان کا محبوب ترین فرد ہو۔ مولانا کو ایسی طبع ودیعت کی گئی تھی کہ باتوں باتوں میں مزاح کے نمونے ٹپکتے رہتے۔ کلام ایسے کرتے گویا لبوں سے پھول جھڑ رہے ہوں۔

تواضع انکساری اور خود داری:

اسی طرح مولانا کا امتیازی وصف تواضع انکساری اور خود داری تھا ہر ایک کے ساتھ ملاقات کے وقت بہت تواضع پسند ہوا کرتے تھے ، تکیہ سے میدان پور سائیکل سے آتے اور درس کے بعد پھر سائیکل سے ہی روانہ ہو جاتے اسی طرح عائشہ للبنات بھی بذریعہ سائیکل ہی جاتے اور درس دے کر واپس تکیہ آ جاتے۔ غالبا ہمیشہ یا کبھی کبھی مولانا کا کھانا ضیاء العلوم سے بنگلے میں یعنی تکیہ جایا کرتا تھا جب کبھی کوئی شناسا طالب علم موجود نہیں ہوتا وہ اپنا کھانا خود لیکر چلے جایا کرتے تھے اگر یوں کہا جائے تواضع خود ان سے شرما جایا کرتی تھی تو بیجا نہیں ہوگا۔ مولانا نہایت سادہ طبیعت کے حامل تھے ۔ بات چیت۔ گفتگو۔ میل ملاپ۔ ملاقات ومصاحبت ہر چیز میں سادگی ان سے ٹپکتی تھی اور تواضع جھلکتی تھی ۔

خوش لباسی اور نفاست پسندی:

مولانا سادگی پسند تو تھے ہی مگر سادگی خوش لباسی اور نفاست پسندی کا حسین امتزاج دیکھنا ہو تو وہ مولانا میں نمایاں طور پر دیکھنے کو مل جاتا تھا مولانا لباس بہت سلیقے سے پہنا کرتے ۔ لباس کی caring اور نفاست پسندی کیا چیز ہوتی ہے یہ مولانا سے سیکھا جا سکتا تھا پرانے سے پرانا لباس جب وہ پہن کر آتے تو ایسا لگتا مولانا نے کوئی نیا لباس زیب تن کیا ہوا ہے. پتہ کرنے پر معلوم ہوتا کہ یہ تو برسوں پرانا ہے ۔ مولانا نہایت خوب رو اور خوش شکل تھے ہر لباس مولانا پر بدرجہ اتم جچا کرتا تھا لباس میں وہ ایسے لگتے گویا لباس نے ان کی زینت نہیں بلکہ انہوں نے لباس کی زینت بڑھائی ہوئی ہے،

خاطر و مدارات اور مہمان نوازی:

اسی طرح مولانا کا ایک وصف خاطر و مدارات اور مہمان نوازی تھا جب بھی کوئی طالب علم ان سے ملنے جاتا ان کے پاس جو کچھ ہوتا وہ اس کے ذریعے ضرور خاطر داری کرتے بسا اوقات طلباء خود ان سے مطالبہ کر کے اپنی خاطر داری کروا لیا کرتے تھے۔ وہ ذرہ برابر بھی نہیں کتراتے جو کچھ ہوتا آگے کر دیتے کھجور پانی ہی سہی وہ ان کے سامنے پیش کر دیا کرتے ۔ طالب علم اسی سے نہال ہو جاتا ،

ظرافت بے ساختگی اور حاضر جوابی:

مولانا کو اللہ نے ظرافت کا وافر مقدار عطا فرمایا تھا باتوں باتوں میں بڑی ظریفانہ گفتگو کیا کرتے تھے۔ بے ساختگی اور حاضر جوابی اس قدر اچھوتے انداز میں مولانا کی باتوں میں دیکھنے کو ملتی جس کا جواب نہیں۔! بے ساختگی اورحاضر جوابی کی ظرافت کے سانچے میں ڈھلنے کے بعد کیا صورت ہوتی ہے وہ صورت مولانا کی گفتگو میں نمایاں طور پر جھلکتی تھی ۔ جس کا ان سے مل کر ہر بات کرنے والے نے مشاہدہ کیا ہوگا،

شرم و حیا پاکبازی اور پاکدامنی:

اسی طرح مولانا پاکباز پاکدامن کافی شرمیلے اور حیا کے پیکر تھے کوئی بھی ایسی بات جو سنجیدگی اور متانت کے زمرے سے الگ ہوتی ۔ کرنے سے بہت شرماتے اور اس سے گریز کیا کرتے۔ مسکراتے ہوئے اور تبسم کے ساتھ ایسے topics اور ایسے موضوع کو ٹال دیتے یا ignore کر دیا کرتے یا بچ بچا کر نکل جاتے۔ کسی کی ایسی بات جس پر وہ کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے اور اس سے کیسے نکلنا ہو کہ سامنے والے کو برا بھی نہ لگے اور وہ بچ بچا کر نکل بھی جائے یہ مولانا سے سیکھنے لائق ہوتا۔

اصول پسندی وعدہ ۓ وفا اور امانت داری:

اسی طرح مولانا کافی اصول پسند اور وعدے کے پکے تھے اصول شکنی سے انہیں نفرت تھی اور وعدہ وفائی سے پیار۔ جب بھی یہ کہتے کہ کل نہیں پڑھاؤں گا نہیں پڑھاتے یا کہتے کہ پڑھاؤں گا تو ضرور پڑھاتے اور اس میں کوئی compromise نہیں کرتے کلاس کا ناغہ کرنے سے گریز کرتے لیٹ ہو جاتے پر کلاس کا ناغہ بلا ضرورت اور بنا وجہ نہیں کرتے۔ 5 منٹ کے لئے ہی سہی کلاس ضرور آتے ۔ اسی طرح مولانا کے اندر امانت داری کا وصف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ,کوئی بھی کوئی چیز بطور امانت انہیں دیتا یا ان کے پاس رکھتا تو بعینہ اسی صورت میں انہیں لوٹا دیتے ۔ ایسا محسوس ہوتا گویا اسے کسی نے چھوا تک نہیں ہے ۔

حسنی خاندان سے محبت اور بے پناہ الفت:

حسنی خاندان سے مولانا کو بے پناہ محبت اور الفت تھی اسی طرح حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ مولانا عبداللہ حسنیؒ مولانا واضح رشید ندویؒ حضرت مولانا رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم سے بڑی والہانہ محبت تھی جس کا وہ گاہے بگاہے اظہار کیا کرتے تھے۔ جہاں بھی موقع ہوتا حسنی خاندان کی خوبیوں کا تذکرہ ضرور کیا کرتے ۔ حسنی خاندان کی سادگی ایک دوسری کے حقوق کی ادائیگی کے نظام اور طریقہ کار کا تذکرہ خود کئی بار مولانا کی زبان سے میں نے سنا ہے ۔ مولانا حسنی خاندان کے بچوں سے بے حد پیار اور محبت کیا کرتے تھے اس کی ایک وجہ مولانا کا خود تکیہ میں قیام بھی تھا کیوں کہ مولانا نے تکیہ کو جتنا قریب سے دیکھا ہے ہم سب نے نہیں دیکھا اسی لئے تکیہ اور اہل تکیہ سے محبت ان کی نسوں میں خون بن کر دوڑتی تھی ۔ مولانا حسنی خاندان کی خوبیوں کا اعتراف جس طرح کیا کرتے تھے وہ اپنے آپ میں بہت انمول ہوا کرتا تھا ۔ حسنی خاندان اور تکیہ سے جڑی ہوئی ایسی ایسی باتیں بتاتے جس سے یہ گمان ہوتا گویا وہ خود اس خاندان کا ایک فرد ہو ۔ خاندانی رشتوں کا تذکرہ ایسے کرتے گویا وہ رشتوں اور نسبتوں کا حافظ ہو ۔ آخر ایسا کیوں نہ ہو جس نے اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ حضرت مولانا علی میاں ؒ کے ساتھ گزارا ہو ۔ جسے ان کی قربت میسر رہی ہو ۔ خادم خاص کے مقام پر فائز رہے ہوں۔ ان سے اکتساب فیض کیا ہو۔ ان کی صحبت سے خود کو فیضیاب کیا ہو ان کے لئے یہ باتیں نئی نہیں ہو سکتیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ مولانا حسنی خاندان کے ہی ایک فرد جیسے تھے تو مبالغہ نہیں ہوگا ۔

مولانا کی زندگی کے بے شمار مخفی پہلو ہیں جن کے بیان کرنے میں صفحات کے صفحات کالے ہو سکتے ہیں صرف مولانا کی حضرت مولانا رابع حسنی دامت برکاتہم, مولانا واضح رشید ندوی ؒ سے والہانہ تعلق اور حسنی خاندان سے بے پناہ محبت کا ہی تذکرہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح مولانا کے عادات و اطوار۔ قناعت پسندی۔ ملنساری۔ امانت داری۔ پاکبازی۔ پاکدامنی۔ خودداری ۔سادگی۔ تواضع۔ انکساری ۔مزاح ۔ظرافت ۔نفاست پسندی ۔خوش روی ۔خوش گوئی۔ خوش لباسی۔ خوش طبعی۔ اور خوش اخلاقی پر دفاتر تیار ہو سکتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ حضرت مولانا علی میاں ؒ کی شخصیت کا فیض پیکر کامل بن کر مولانا کی شخصیت کی شکل میں ہمارے درمیان تھا جو اب نہیں رہا ،
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ،

اللهم اغفرله وارحمه, وعافه واعف عنه. وأدخله الجنة و أسكنه أعلى درجات الفردوس،

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

*#ابو_سفیان_ندوی_علیگ*
*ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی،*

صيام ستة أيام من شوال – بقلم: د. محمد أكرم الندوي

قياسي

بسم الله الرحمن الرحيم

صيام ستة أيام من شوال

بقلم: د. محمد أكرم الندوي
أوكسفورد

صح في صيام شوال حديث أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه الذي أخرجه الإمام مسلم رحمه الله في صحيحه، قال في كتاب الصوم: حدثنا يحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وعلي بن حجر، جميعا عن إسماعيل – قال ابن أيوب: حدثنا إسماعيل بن جعفر – أخبرني سعد بن سعيد بن قيس، عن عمر بن ثابت بن الحارث الخزرجي، عن أبي أيوب الأنصاري رضى الله عنه أنه حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر.

انفراد عمر بن ثابت به:
روي هذا الحديث عن أبي هريرة وثوبان وجابر رضي الله عنهم، ولكنه لم يصح عن أحد منهم، وتركت كلام الأئمة في رواياتهم روما للاختصار.
وصح – كما أسلفت – من حديث أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه، ولكن للأئمة فيه كلاما من عدة وجوه، الأول: أن أبا أيوب الأنصاري رضي الله من أهل المدينة، ولم يروه عنه غير عمر بن ثابت، قال ابن عبد البر في الاستذكار 10/256-257: في هذا المعنى عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث انفرد به عمر بن ثابت عن أبي أيوب الأنصاري… وقال مرة أخرى 10/258: انفرد بهذا الحديث عمر بن ثابت الأنصاري، وهو من ثقات أهل المدينة.
ولأبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه أصحاب معروفون: البراء بن عازب، وعبد الله بن عباس، وجابر بن سمرة، وسفيان بن وهب الخولاني، وأبو امامة الباهلي، والأسود بن يزيد النخعي، وجبير بن نفير الحضرمي، والربيع بن خثيم، وزيد بن خالد الجهني، وسالم بن عبد الله بن عمر، وسعيد بن المسيب، وعبد الله بن حنين، وعبد الله بن أبي عتبة، وعبد الله بن عمرو بن عبد القاري، وعبد الله بن يزيد الخطمي، وعبد الرحمن بن أبي ليلى، وعروة بن الزبير، وعطاء بن يزيد الليثي، وعطاء بن يسار، وعلقمة بن قيس، وعمرو بن ميمون الأودي، ومحمد بن كعب القرظي، ومحمد بن المنكدر.
ومما يستغرب أن لا يروى الحديث عن أحد منهم، وصوم الستة من شوال مما تتضافر الدواعي على نقله، وفي المدينة أئمة فقهاء لم يعرفوا هذا الحديث، وعمر بن ثابت قليل الحديث، لم يخرج له البخاري شيئا، وإنما أخرج له مسلم هذا الحديث وحديثا آخر.

كلام الناس في سعد بن سعيد:
وسعد بن سعيد الأنصاري، لم يخرج له البخاري شيئا، تكلم الناس فيه من قبل حفظه، قال أحمد بن حنبل: ضعيف، وكذلك قال يحيى بن معين في رواية، وقال في رواية أخرى: صالح، وقال محمد بن سعد: كان ثقة قليل الحديث، وقال النسائي: ليس بالقوي، وقال عبد الرحمن بن أبي حاتم: سمعت أبي يقول: سعد بن سعيد الأنصاري مؤدي يعني أنه كان لا يحفظ ويؤدي ما سمع، وقال أبو أحمد بن عدي: له أحاديث صالحه تقرب من الاستقامة ولا أرى بحديثه بأسا بمقدار ما يرويه، وذكره ابن حبان في كتاب الثقات وقال: كان يخطىء. (انظر: ترجمته في تهذيب الكمال).
وقال الترمذي بعدإخراجه لحديث أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه: وسعد بن سعيد هو أخو يحيى بن سعيد الأنصاري وقد تكلم بعض أهل الحديث في سعد بن سعيد من قبل حفظه.

الاختلاف في حديث أبي أيوب رفعا ووقفا:
اختلف الناس فيه رفعا ووقفا، أخرجه الحميدي فقال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا سعد بن سعيد، عن عمر بن ثابت الأنصاري، عن أبي أيوب، قال: من صام رمضان، وأتبعه ستا من شوال فكأنما صام الدهر. قال الحميدي: فقلت لسفيان، أو قيل له: إنهم يرفعونه، قال: اسكت عنه قد عرفت ذلك.
وقال النسائي: أنبأ محمد بن عبد الله بن عبد الحكم، قال: حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ، قال: حدثنا شعبة بن الحجاج، عن عبد ربه بن سعيد، عن عمر بن ثابت، عن أبي أيوب الأنصاري، أنه قال: من صام شهر رمضان ثم أتبعه ستة أيام من شوال فكأنما صام السنة كلها. موقوفا.
وقد أخرجه ابن عبد البر أيضًا في الاستذكار 10/257-258 موقوفا من وجهين.
وفي العلل للدارقطني رقم المسألة 1009: ورواه عبد ربه بن سعيد، عن عمر بن ثابت، عن أبي أيوب موقوفا، كذلك قال عنه شعبة، وقال عثمان بن عمرو الحراني: عن عمر بن ثابت، عن محمد بن المنكدر، عن أبي أيوب مرفوعا.

اختلاف فيه آخر:
قال الدارقطني في الموضع المذكور من العلل: يرويه جماعة من الثقات الحفاظ، عن سعد بن سعيد، عن عمر بن ثابت، عن أبي أيوب. منهم: ابن جريج، والثوري، وعمرو بن الحارث، وابن المبارك، وإسماعيل بن جعفر، وغيرهم. ورواه يحيى بن سعيد الأنصاري، واختلف عنه؛ فرواه حفص بن غياث، عن يحيى، عن أخيه سعد بن سعيد. وخالفه إسماعيل بن إبراهيم الصائغ، وعبد الملك بن أبي بكر الحضرمي، فروياه عن يحيى بن سعيد، عن عمر بن ثابت، لم يذكر في إسناده سعد بن سعيد. ورواه إسحاق بن أبي فروة، عن يحيى بن سعيد، عن عدي بن ثابت، عن البراء، ووهم فيه وهما قبيحا، والصواب حديث أبي أيوب.

حاصل كلام المحدثين فيه:
قال الحافظ ابن رجب في لطائف المعارف: ثم اختلف في هذا الحديث وفي العمل به، فمنهم من صححه، ومنهم من قال: هو موقوف، قاله ابن عيينة وغيره، وإليه يميل الإمام أحمد، ومنهم من تكلم في إسناده.

العذر للإمام مسلم:
فإن قيل: كيف أخرجه مسلم في صحيحه وفيه ما تقدم من الكلام؟ قلت: أخرجه لما توفرت فيه شروط الصحة عنده، وقد صححه الإمام الترمذي أيضًا، وهما من أئمة الاجتهاد في التصحيح، ورجح مسلم رفعه لأن الرفع بمثابة زيادة الثقة في بعض الأحوال، وكأنه رأى أن وقف من وقفه لا يضره لأنه بمثابة المرفوع حكما لا سيما في الأمور التعبدية.

عدم ثبوت سنيته:
قلت: لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه صام هذه الأيام، ولم يؤثر أيضًا عن الخلفاء الراشدين، ولا عامة الصحابة المعروفين بالفقه والفتوى وكثرة الرواية من أمثال ابن مسعود، وعائشة، وابن عمر، وأبي هريرة، وأنس بن مالك، وجابر، وأبي سعيد الخدري، وعبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهم أنهم صاموا الست من شوال، على ما عرف من حرصهم على الصوم.

لم يبلغ مالكا عن السلف أنهم كانوا يصومونها:
ومالك إمام المدينة وأعلم الناس بسننها، ولكنه لم ير شيوخه يصومون هذه الأيام، ولم يبلغه ذلك عن أحد من السلف، قال في الموطأ: “إني لم أر أحدا من أهل العلم والفقه يصومها ولم يبلغني ذلك عن أحد من السلف، وأن أهل العلم يكرهون ذلك ويخافون بدعته”.
وقال الباجي فى المنتقى شرح الموطأ: وهذا كما قال، إن صوم هذه الستة الأيام بعد الفطر لم تكن من الأيام التي كان السلف يتعمدون صومها، وقد كره ذلك مالك وغيره من العلماء.

اشتباهه برمضان:
في مصنف عبد الرزاق: عن داود بن قيس، عن سعد بن سعيد بن قيس، أخي يحيى بن سعيد، عن عمر بن ثابت، عن أبي أيوب الأنصاري، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صام شهر رمضان، وأتبعه ستا من شوال كتب له صيام السنة، يقول: لكل يوم عشرة أيام وبه نأخذ.
وفي المعجم الكبير للطبراني: حدثنا إسحاق بن إبراهيم الدبري، عن عبد الرزاق، عن ابن جريح وداود بن قيس، وأبي بكر بن أبي سبرة، كلهم، عن سعد بن أبي سعيد أخي يحيى بن سعيد، عن عمر بن ثابت بن الحجاج من بني الخزرج، عن أبي أيوب الأنصاري، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من صام رمضان، وأتبعه ستا من شوال فذلك صيام الدهر، قال: قلت له: كل يوم عشر؟، قال: نعم.
ففي هذين الخبرين وردت تسوية صيام شوال بصيام رمضان، وأن كل يوم من رمضان وشوال يعدل عشرة أيام، وهذا أمر خطير للغاية أن يجعل شوال قرينا لشهر الله رمضان الذي أنزل فيه القرآن، وجعل له فضائل لا تحصى، ومن ثم قال مالك في الموطأ: … “وأن أهل العلم يكرهون ذلك ويخافون بدعته وأن يلحق برمضان ما ليس منه أهل الجهالة والجفاء لو رأوا في ذلك خفته عند أهل العلم ورأوهم يعملون ذلك”.
وقول مالك هو الصواب، روى أصحاب السنن عن عمار بن ياسر: من صام اليوم الذي يشك فيه فقد عصى أبا القاسم ﷺ، وأخرج أصحاب السنن عن عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بقي نصف من شعبان فلا تصوموا . وقال الترمذي: حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح . وأورد ابن القيم في شرح السنن (814/2431) بأنه إذا نهى عليه السلام عن الصوم قبله فكيف بما يضاف إليه بعده، ونقل المباركفوري في التحفة (419/677) عن السيوطي قوله: والحكمة في النهي ألا يختلط صوم الفرض بصوم نفل قبله أو بعده حذرا مما صنعت النصارى في الزيادة على ما افتض عليهم برأيهم الفاسد. وقال الحافظ في فتح الباري: قال كثير من الشافعية بمنع الصوم من أول السادس عشر من شعبان. وفي تحفة الأحوذي: وقال الروياني من الشافعية: يحرم التقدم بيوم أو يومين لحديث لا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين، ويكره التقدم من نصف شعبان للحديث الآخر.

كلام الأئمة الفقهاء فيه:
قال ابن أبي شيبة في المصنف: حدثنا حسين بن علي عن أبي موسى عن الحسن قال إذا ذكر عنده ستة أيام التي يصومها بعض الناس بعد رمضان تطوعا كان يقول لقد رضي الله بهذا الشهر للسنة كلها .
وقال الترمذي بعد إخراجه لحديث أبي أيوب رضي الله عنه: حدثنا هناد قال أخبرنا الحسين بن علي الجعفي عن إسرائيل أبي موسى عن الحسن البصري قال كان إذا ذكر عنده صيام ستة أيام من شوال فيقول والله لقد رضي الله بصيام هذا الشهر عن السنة كلها.
وقال المرغيناني الحنفي في الهداية: صوم ست من شوال عن أبي حنيفة وأبي يوسف كراهته.
وقال النووي في شرحه لحديث مسلم: وقال مالك وأبو حنيفة يكره ذلك.
ونقل في المغني عن مالك أنه قال: ما رأيت أحدا من أهل الفقه يصومها ولم يبلغني عن أحد من السلف وأن أهل العلم يكرهون ذلك ويخافون بدعته وأن يلحق برمضان ما ليس منه .
وقال البغوي في شرح السنة 6/332: وحكى مالك الكراهية في صيامها عن أهل العلم، وقال: كانوا يخافون بدعته، وأن يلحق برمضان أهل الجهالة ما ليس فيه.
وقال الحافظ ابن رجب في لطائف المعارف: وكرهها الثوري وأبو حنيفة وأبو يوسف وعلل أصحابهما ذلك مشابهة أهل الكتاب يعنون في الزيادة في صيامه المفروض عليهم ما ليس منه.

الأحوط في الأمر:
قلت: الأحوط في الأمر أن يواظب الإنسان على صوم الاثنين والخميس والأيام البيض، وذلك أكثر من ثلث الشهر، وصيام هذه الأيام صح عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه والتابعين، ولم يختلف فيه أحد من الفقهاء.

آن لائن امام كى اقتداء ميں نماز كى ادائيگى – از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
آن لائن امام كى اقتداء ميں نماز كى ادائيگى

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

چند روز سے ہندوستان ميں آن لائن عيد كى نماز كى ادائيگى كے تعلق سے ايك غير ضرورى بحث چهيڑ دى گئى ہے، انديشه ہے كه اردو زبان ميں اس موضوع پر كسى واضح تحرير كى غير موجودگى سے لوگوں ميں كنفيو ژن نه پيدا ہو، ميں نے اس مسئله پر ايك ماه پہلے انگريزى ميں ايك مفصل فتوى لكها تها، مناسب معلوم ہوا كه بر صغير كے مزاج كے مطابق كچه رد وبدل كركے اسى فتوى كو اردو ميں پيش كردوں، خدا كرے كه يه حقير كوشش موجوده بحث ميں كوئى مفيد كردار سكے :
اقتداء كى صحت كى ايك متفق عليه شرط يه ہے كه امام اور مقتدى كے ما بين زمان ومكان كا اتحاد ہو، زمان كے اتحاد كا مطلب يه ہے كه امام جس وقت ظہر كى نماز پڑها رہا ہو مقتدى بهى اسى وقت ظہر كى نماز اس كے پيچهے پڑهه رہے ہوں، اگر كسى نے امام كى نماز ركارڈ كركے بعد ميں كسى وقت اسى ريكارڈنگ كے ذريعه امام كى اقتداء كى تو نماز صحيح نہيں ہوگى، مكان كے اتحاد كا مطلب يه ہے كه اگر امام كسى جگه نماز پڑها رہا ہو تو لوگ اسى جگه اس كے پيچهے نماز پڑهيں، اگر امام ايك جگه اور مقتدى كسى اور جگه ہوں تو اقتداء صحيح نہيں ہوگى، مثلا اگر امام مسجد ميں ہو اور لوگ اپنے اپنے گهروں سے اس كى اقتداء كر رہے ہوں تو ان مقتديوں كى نماز صحيح نہيں ہوگى۔
اگر امام مسجد ميں نماز پڑہا رہا ہو اور مسجد كا مصلى اور صحن نمازيوں سے بهر گيا ہو، تو كيا لوگ مسجد كے باہر سے امام كى اقتدا كرسكتے ہيں؟ اس كا جواب يه ہے اگر وہاں تك نمازيوں كى صفيں متصل ہوں تو اقتداء درست ہوگى ، صفوں كے متصل ہونے كى شرط دو وجہوں سے ہے: 1- ايك يه كه صفيں جب متصل ہوں گى تو اسے ايك ہى جگه كہا جائے گا، اور اس سے اتحاد مكان كى شرط پر اثر نہيں پڑے گا، 2- دوسرے يه كه مقتدى كے لئے ضرورى ہے كه وه امام كے ايك عمل سے دوسرے عمل ميں منتقل ہونے كو اچهى طرح سمجهے، اس ميں امام كى آواز كا سننا كافى نہيں، كيونكه امام غلطى بهى كرسكتا ہے، مثلا ظہر كى دوسرى ركعت ميں اس نے الله أكبر كہا اور بجائے بيٹهنے كے كهڑا ہوگيا، جو لوگ صرف امام كى آواز سنيں گے وه بيٹهے ره جائيں گے اور امام كے ساته ديگر اركان كى ادائيگى نہيں كرسكيں گے، اس لئے مقتدى كے لئے ضرورى ہے كه يا تو وه امام كى نقل وحركت سے واقف ہو، يا اپنے سامنے كے مقتديوں كى نقل وحركت سے، اب اگر كوئى شخص ايسى جگه ہے جہاں سے وه نه امام كو ديكه سكتا ہے اور نه ہى مقتديوں كو تو ظاہر ہے كه وه اقتداء پر قادر نه ہوگا۔
اس مسئله ميں ايك تفصيل ايسى ہے جس ميں جزئى اختلاف ہے، وه يه ہے كه اگر صفيں متصل ہوں ليكن مجمع كى زيادتى كى وجه سے كچه مقتديوں اور سامنے كے صفوں كے درميان كوئى ندى حائل ہو، يا كوئى عام رہگزر، تو صحابۂ كرام، تابعين اور فقہاء كى اكثريت اس كى قائل ہے كه اقتداء صحيح نہيں ہے (اختلاف الأئمة العلماء لابن هبيرة 1/144، المغني لابن قدامة 2/474-475، الفقه على المذاهب الأربعة 1/357، الموسوعة الفقهية الكويتية)، كيونكه ندى كى وجه سے امام كى تكبير كا سننا اور ندى كے اس پار مقتديوں كى نقل وحركت كا سمجهنا ممكن نه ہوگا، اور يہى حال شاہراه عام كا ہے، اسى لئے ازواج مطہرات رضي الله عنهن اپنے كمروں سے جو كه مسجد كے بالكل متصل تهے امام كى اقتداء نہيں كرتى تهيں، كچه خواتين حضرت عائشه كے حجره ميں نماز پڑه رہى تهيں تو آپ رضي الله عنها نے فرمايا كه تم امام كى اقتداء نه كرو كيونكه تمہارے درميان اور امام كے درميان ديوار حائل ہے (المغني لابن قدامة 2/473) ، اس پر امام ابن قدامه تبصره كرتے ہوئے فرماتے ہيں كه غالبًا اس طرح اقتداء ممكن نہيں ہوگى۔
امام حسن بصرى، امام مالك وغيره كے نزديك اگر اس طرح كا حائل ہے ليكن امام كى تكبير اور اس كى نقل وحركت كى اطلاع سے مانع نه ہو تو اقتداء صحيح ہو گى، امام حسن بصرى اور امام مالك وغيره كے اس قول كى وجه سے كچه مالكيه اور ان كى نقل ميں كچه اور لوگوں نے آن لائن نماز كے جواز كا فتوى ديا ہے، ان كا خيال ہے كه اگر امام نماز پڑها رہا ہو اور اس كى نماز ٹكنالوجى كى مدد سے ٹى وى، كمپيوٹر يا موبائل فون كى سكرين پر نقل ہو رہى ہے، تو يه اقتداء صحيح ہے۔
اس مضمون ميں اس كى وضاحت كى جا رہى ہے كه يه قياس غلط ہے، اور جولوگ اسكرين كى مدد سے امام كى اقتداء كر رہے ہيں ان كى نماز درست نہيں ہوگى، اس كى تين وجوه ہيں:

پہلى وجه يه ہے كه جن لوگوں نے ندى وغيره كے حائل ہونے كے باوجود نماز كى اجازت دى ہے وه اسى وقت ہے جبكه امام اور مقتدى ايك جگه ہوں، اور جگه ميں گنجائش نه ہونے كى وجه سے وه كسى حائل كے پيچهے پڑه رہے ہوں، اور ساته ہى وه امام كى نقل وحركت سے واقف ہوں (اختلاف الأئمة العلماء لابن هبيرة 1/144، والمغني 2/475، الموسوعة الفقهية الكويتية)، آن لائن امام ميں دونوں شرطيں مفقود ہيں: 1- آن لائن نماز ميں اتحاد مكان نہيں ، امام حسن بصرى اور امام مالك اس كے قائل نہيں ہيں كه كوئى بهى ندى كہيں بهى ہو اس كے دوسرى طرف نماز صحيح ہوگى، بلكه وه اس ندى كى بات كر رہے جہاں تك امام كے پيچهے نماز پڑهنے والوں كى صفيں پہنچ گئى ہيں، اور مجبورى ميں كچه لوگ دوسرى طرف نماز پڑه رہے ہيں ، 2- اگر ٹكنالوجى فيل ہوگى، تو مقتديوں كا رشته امام سے منقطع ہو جائے گا، اور اس كى پيروى نہيں كرسكيں گے، اور ٹكنالوجى خواه كتنى ہى ترقى كر جائے اس سے غلطى كے امكان يا اس كے معطل ہونے كے احتمال كو نظر انداز نہيں كيا جا سكتا۔
يه بات ياد ركهيں كه امام كا تصور (image) امام كا قائمقام نہيں ہوسكتا، انسان اور ٹكنالوجى ميں بہت بڑا فرق ہے، كسى انسان كى جسمانى موجودگى اور اور سكرين پر اس كا تصور دونوں دو الگ الگ چيزيں ہيں، جب كسى انسان سے آپ قرآن كريم سنتے ہيں تو آپ كے احساسات اور آپ كى ذہنى وقلبى حالت اس سے مختلف ہوتى ہے جب كسى اميج سے اس كو سنتے ہيں، اگر اميج كى اقتداء ميں نماز ہو سكتى تو پهر يه مسئله بے معنى ہوجاتا ہے كه كهڑا شخص ليٹے ہوئے امام كى اقتداء كرسكتا ہے كه نہيں، كيونكه ليٹا شخص بهى قرآن پڑه سكتا ہے اور تكبيريں كه سكتا ہے، بلكه اس كى حيثيت ايك اميج سے بہت زياده ہے، صحيح نه ہونے كى وجه يہى كه اس كى نقل وحركت مقتديويں كى سمجه ميں نہيں آئے گى، اور اميج كا دار ومدار چونكه ٹكنالوجى پر ہے اس لئے يہاں اشتباه كئى گنا بڑه جاتا ہے، اسى طرح اگر سكرين پر امام كا اميج امام كے قائمقام ہوتو صف اول كى فضيلت بے معنى ہو جاتى ہے۔

دوسرى وجه يه ہے كه نماز اسلام كا سب سے مقدس فريضه ہے، يه بنده اور اس كے مولى كے درميان ہمكلامى ہے، اس ميں جسم، عقل اور قلب كا سكون (قنوت)، اور خدا كے سامنے كهڑے ہونے كى ہيبت (خشوع) كا ہونا ضرورى ہے، اگر خدا اور اس كے بندے كے درميان ٹكنالوجى آگئى تو توجه نماز پر نہيں ہوگى، خدا سے ہمكلامى كے آداب سے محرومى ہوگى، اور قنوت وخشوع متاثر ہوگا، مسلمانوں كو چاہئے كه ايسى كوشش كريں جس ميں خشوع وقنوت كامل سے كامل تر ہو، نه يه كه وه كسى ايسى چيز كو گوارا كريں جو نماز كى روح كو متاثر كردے۔
ٹكنالوجى كا حائل ہونا شاہراه عام يا ندى وغيره كے حائل ہونے سے شديد تر ہے، امام حسن بصرى اور امام مالك كے قول پر ٹكنالوجى كا قياس فاسد ترين قياس اور واضح سفسطه ہے، كيونكه يہاں صرف ديواريں، شاہراہيں اور ندى اور دريا حائل نہيں، بلكه ٹكنالوجى حائل ہے، يه تاثر دينا كه آن لائن نماز امام حسن بصرى اور امام مالك كے قول كے مطابق ہے يه افترا پردازى ہے كيونكه يه ٹكنالوجى ان كے زمانه ميں تهى ہى نہيں، اور اس حائل كو ندى اور روڈ پر قياس كرنا تسفيه عقول كے ہم معنى ہے۔

تيسرى وجه يه ہے كه ہمارا رب رحمن رحيم ہے، اس كے فرائض كى حيثيت بينكوں كے قرض كى نہيں كه جيسے تيسے مرمر كر ادا كرنا ہے، اس كے فرائض اس كى رحمت كا مظہر اتم ہيں، جب كوئى چيز خير كثير كا ذريعه ہو تو اس كى ايك مقدار وه بندوں پر فرض كرديتا ہے تاكه اس خير كثير سے وه محروم نه ہونے پائيں، روزوں ميں كس قدر خير ہے، اور خاص كر رمضان كے مہينه كے روزوں ميں، اور اگر وه انہيں فرض نه كرتا تو ہم ميں سے بہت سے لوگ روزه نه ركهتے اور اتنى بڑى بركت سے محروم رہتے، اس كے احكام اس كى رحمت كا مظہر ہيں، اسى طرح اس كى رحمت كا يه بهى مظہر ہے كه مشقت كى وجه سے اپنے بندوں كو وه بعض احكامات سے مستثنى كرديتا ہے يا ان احكام ميں تخفيف كرديتا ہے، مثلا سفر ميں ظہر كى نماز دو ركعت كردى، ہم جب اس كے احكام كى پيروى كرتے ہيں تو اس كى رحمت كے مستحق ہوتے ہيں اور جب اس كى رخصتوں پر عمل كرتے ہيں تب بهى اس كى رحمتوں كے مستحق ہوتے ہيں۔
عيد اور جمعه كى نمازيں امت كى اجتماعيت كا مظہر ہيں، اگر كسى وجه سے اس اجتماعيت كا مظاہره ممكن نه ہو تو جمعه كى جگه ظہر پڑهى جائے گى كيونكه ظہر كى نماز اصل تهى، اور عيد صرف اجتماعيت كے لئے ہے، يه كسى نماز كى جگه نہيں آئى، اس لئے اس جگه كوئى نماز نہيں ہوگى، اور عيد كى نماز نه پڑهنے سے آپ كسى كوتاہى كے مرتكب نہيں ہوں گے، آپ اس وقت دوسرى عبادتيں كرسكتے ہيں، قرآن كريم ميں تدبر كرسكتے ہيں، اپنے گهر والوں كے ساته خوشياں مناسكتے ہيں ، ذكر كر سكتے ہيں، اور خير كے دوسرے كاموں ميں مشغول ہو سكتے ہيں۔
آپ سے گزارش ہے كه اس دين كى حقيقت كو سمجهيں، عبادت كا ثبوت صرف وحى سے ہوتا ہے، اس ميں عقل انسانى اور قياس كا كوئى دخل نہين، محض عقل ورائے سے مسلمانوں پر كوئى چيز فرض كرنا يا اسے ان كے دين كا حصه قرار دينا ظلم عظيم ہے “ومن أظلم ممن افترى على الله كذبا” (سورة الأنعام 21)، اور دين كے اندر اپنى خواہش سے كوئى بات داخل كرنا بدعت اور احداث في الدين ہے، اور اس بنا پر مردود ہے، حضرت عائشة رضي الله عنها نے نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كا ارشاد نقل كيا ہے “من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد”. (صحيح بخارى اور صحيح مسلم)۔

دار العلوم ندوۃ العلماء كے طلبہ سے دلِ درد مند كى صاف صاف بات – از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم آپ فرقه پرستى سے كيسے بچيں؟
دار العلوم ندوة العلماء كے طلبه سے دلِ دردمند كى صاف صاف بات

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

فرقه پرستى كسى قوم كو برباد كرنے والى مہلك ترين بيمارى ہے ، قومون كے عہد زوال ميں يه زہر ان كو چهوٹے چهوٹى اجزاء ميں تقسيم كركے كها جاتا ہے ، فرقه پرستى قومون كے خاتمه كا بگل ہے ، خالق كائنات كے خلاف بغاوت ہے، اس فطرت كو مسخ كرنے كے مرادف ہے جس پر الله تعالى نے انسانوں كى تخليق كى ہے اور جس پر اس نظام كائنات كى بنياد ركهى ہے ۔
سخت تكليف والم كا مقام ہے كه يه زہر دار العلوم ندوة العلماء كى طرف انتساب كرنے والوں ميں بهى سرايت كر رہا ہے، ندوه كا عظيم ترين مقصد مسلمانون كو اسى فرقه واريت اور اس كے تباه كن اثرات سے بچانا تها، فروعى مسائل اور جزئيات مين تعدديت اور اختلاف كى اجازت ديتے ہوئے ان كو اصول وكليات پر متحد كرنا تها، اور مسلمانوں كى بكهرى ہوئى ٹوليوں كو امت واحده بنانا تها ۔
ندوه كے علماء كى يه نشانى رہى ہے كه انهون نے جزئيات اور فروعى مسائل كى بنا پر امت ميں كسى تفريق كو گوارا نهيں كيا، بلكه اس تفريق وتقسيم كو ختم كرنے يا اس كا اثر كم كرنے كے لئے ہر ممكن كوشش كى، يه اس اداره اور اس كے علمائے ماضى كى تاريخ كا روشن باب ہے، اور آج بهى حيات شبلى، مقالات شبلى،سيرت مولانا محمد على مونگيرى، حيات عبد الحي، حيات سيد سليمان ندوى، مقالات سليمانى، تاريخ ندوة العلماء، روداد چمن، پرانے چراغ، كاروان زندگى وغيره كے اوراق اس روشن سچائى كے على رؤوس الاشہاد مثل “نذير عريان” گواه ہيں ۔
افسوس كه ندوه كے جديد فارغين علم كى گهرائى اور نظر كى وسعت سے محروم ہوتے جا ر ہے هيں، نتيجتًا وه بهى انہيں گروهوں ميں تقسيم هو ر ہے هيں جن كے نقصانات سے امت كو متنبه كرنا ان كا اہم مشن تها، علمائے ندوه كى پهچان قرآن وسنت مين گهرائى تهى، انهون نے يه راز جان ليا تها كه امت كو صرف قرآن وسنت پر متحد كيا جا سكتا ہے، اب ايك نيا طبقه جنم لے رہا ہے جو متاخرين كى كتب فقه وفتاوى كو بغير كسى فہم وتدبر كے نقل كر رہا ہے، طوطے كى طرح ان كو رٹ رہا ہے، اور ان كے ذريعه تفرق وانتشار كى دعوت دينے كو دين كى خدمت كا نام دے رہا ہے، “برعكس نہند نام زنكى كافور” ۔
اس سے پہلے كه يه بيمارى وبا كى شكل اختيار كرلے، آپ عقل وشعور سے كام ليں، قوموں كى تاريخ عروج وزوال كا مطالعه كريں، اور اس غلطى سے صدق دل سے توبه كرليں جس كا حتمى انجام ہلاك امم وشعوب اور فنائے بلاد وديار ہے ۔
ميرے دل ميں ايك درد ہے اور اس درد كو آپ تك منتقل كرنا چاہتا ہوں، اور اسى درد سے بيتاب ہوكر آپ كو ميں چار باتوں كا مشوره دے رہا ہوں:
1- پہلى اور سب سے اہم بات يه ہے كه قرآن كريم اور سنت نبوى كا گهرائى سے مطالعه كريں، قرآن وسنت سے اصول دين: ايمان، اسلام، تقوى، شكر، صبر، امانت دارى، احترام مسلم وانسان وغيره اخذ كريں، ان اصول كا عميق فہم پيدا كريں، اور ان كو اپنى زندگيون مين نافذ كريں، نرم مزاجى پيدا كريں، تحمل وبردبارى سے يارى كريں، اور اخلاق حسنه سے خود كو سنواريں ۔
2- فروعى مسائل كا علم ضرور حاصل كريں ليكن ان كى بنياد پر مسلمانون مين تفريق نه پيدا كريں، كسى شخص كى دوسرے پر ترجيح تقوى اور خدا سے قربت كى بنياد پر ہے نه كه رفع يدين وآمين بالجهر وغيره مسائل كى بنياد پر، آپ ان لوگون كى طرح نه بنين جو ہر بات پر مسلمانون كو كافر، فاسق، بدعتى، گمراه اور ضال ومضل بتاتے رہتے ہيں، بلكه آپ داعى بنين، مسلمانوں اور عام انسانوں سے محبت كرنے كا ہنر سيكهيں، اور لوگون كو اسلام مين لانے والے بنين نه كه ان كو اسلام سے نكالنے والے اور ملت اور سواد امت سے خارج كرنے والے ۔
3- جب آپ ندويون كے درميان ہون تو ندوى ذوق كا حواله دے سكتے هيں، جب آپ حنفيوں كے درميان ہون تو حنفى مسلك كى دليل پيش كر سكتے ہيں، جب آپ جماعت اسلامى كے درميان ہوں تو ان كے اصول كے مطابق گفتگو كرسكتے ہيں، اور جب آپ تبليغى جماعت ميں ہوں تو ان كے قواعد كى پابندى كى دعوت دے سكتے هيں ۔
4- ليكن جب آپ جمعه كا خطبه دے رہے ہوں، يا كسى مجمع عام سے خطاب كر رہے ہوں، يا كسى ايسے موضوع پر لكه رہے ہوں يا بول رہے ہوں جو مسلمانوں كے درميان مشترك ہيں تو پهر آپ ان اصول وكليات كى تعليم ديں جو مسلمانوں كے درميان متفق عليه ہيں، آپ قرآن وسنت كے حواله سے گفتگو كرين، آپ فقه حنفى، يا فقه شافعى، يا مسلك اہل حديث، وغيره كا حواله هرگز نه دين، ورنه آپ تقسيم كى بنياد كو مستحكم كرنے والے بنيں گے ۔
دعا ہے كه الله تعالى ان اصول پر ہميں عمل پيرا ہونے كى توفيق دے، وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين، وصلى الله على نبينا الكريم وعلى آله وصحبه أجمعين ۔

بكرياں چَرانے والا مفتى – از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
بكرياں چَرانے والا مفتى

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

مت سہل ہميں جانو، پهرتا ہے فلك برسوں
تب خاك كے پردے سے انساں نكلتے ہيں
بكرياں چرانے والے پيغمبروں كے بارے ميں آپ كو علم ہوگا، بخارى شريف وغيره كى روايت ميں ہے كه بشمول نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے انبياء عليہم السلام نے بالعموم بكرياں چرائى ہيں، گله بانى سے وه جہاں بانى كا ہنر سيكهتے تهے، آج آپ كو بكرياں چرانے والے ايك ايسے ذى علم كى داستان سنانے جا رہا ہوں، جو ايك محقق مفتى، كامياب مدرس، اور جادو بياں واعظ تهے ، وه مفتى صاحب كے نام سے جانے جاتے تهے، جس تندہى سے وه اپنے علمى مشغلوں كو انجام ديتے اسى وارفتگى سے وه بكريوں پر وقت صرف كرتے، جس طرح وه طلبه پر شفقت كرتے، سامعين كا خيال كرتے، اور مہمانوں كى خاطر دارى كرتے اسى طرح بكريوں پر بهى جان چهڑكتے، جب كوئى ان سے ملنے آتا تو اگر انہيں ان كے حجره ميں نه پاتا تو اسے يه جاننے ميں دير نه لگتى كه مفتى صاحب اس وقت بكريوں كے جهنڈ ميں ہوں گے۔
مفتى صاحب بكريوں سے والہانه باتيں كرتے، ان باتوں ميں حلاوت ہوتى، محبت كى آميزش ہوتى، پيار كا لہجه ہوتا، اور وه بكرياں مفتى صاحب كو ديكهكر نازنينوں كى طرح ناز كرتيں، اور ادائے دلبرانه سے ان كا استقبال كرتيں، اگر مجهے بكريوں سے ہمكلامى كا موقع ملتا تو ان سے ضرور پوچهتا كه وه مفتى صاحب كى باتوں كو كتنا سمجهتى ہيں؟ بہر حال خواه وه بكرياں جملۂ فعليه اور جملۂ اسميه كى تقسيم سے واقف نه ہوں، تاہم جملوں كى شيرينى، نگاه محبت، انداز الفت، دل نواز مسكراہٹ، اور پيار بهرے ہاتهوں كے لمس كو ضرور سمجهتى تهيں، اور اپنے مالك كو ديكهكر زبان حال سے گويا ہوتيں:
ميكدے ميں تو چند خم ہوں گے
تيرى آنكهوں ميں چشمۂ مے ہے
يه ہيں ميرے گاؤں كے رہنے والے مفتى محمد حنيف صاحب رحمة الله عليه، ايك شخصيت منفرد، ايك جہان دانش، ايك گوشه نشين، اور ايك مرجع فقه وفتوى، كسانوں كے ايك غريب گهرانه ميں پيدا ہوئے، بچپن دوسروں كے يہاں مزدورى كرتے گزرا، مجه سے كئى بار فرمايا كه ميرے دادا مرحوم كے يہاں بهى انہوں نے كام كياتها، جوان ہونے كے بعد علم كى طرف رغبت ہوئى، ضياء العلوم مانى كلاں ميں مولانا عبد الحليم صاحب اور مولانا ضياء الحق صاحب رحمة الله عليهما سے فارسى اور عربى كى تعليم حاصل كى، اس دوران حكيم الامت مولانا اشرف على تهانوى رحمه الله كے پاس بيعت واسترشاد كى درخواست پر مشتمل ايك عريضه ارسال كيا، حكيم الامت نے پيرانه سالى اور بيمارى كى وجه سے معذرت كردى، البته اپنے كچه خلفاء كے نام لكهديئے كه ان ميں سے كسى سے ربط پيدا كرليں، اور ساته ہى اس كى اجازت دى كه وقتا فوقتا دعا كے لئے خط وكتابت كرسكتے ہيں۔
ہمارے علاقه ميں اس وقت مولانا تهانوى كے خليفۂ اعظم شاه وصى الله فتحپورى كا شہره تها، مفتى صاحب شاه صاحب كے گاؤں فتحپور پہنچے، اور ان كے پاس مجاہدانه اٹهاره سال گزار كر طلب علم اور سلوك كى منزليں طے كيں، راه كٹهن تهى، ہمت سے كام ليا، لگن اور دهن سے رشته استوار كيا، شاه صاحب سے اصول سته كى سارى كتابيں پڑهيں، باره مرتبه صحيح بخارى كى سماعت كى، شاه صاحب حديث شريف ميں مولانا انور شاه كشميرى رحمه الله كے شاگرد تهے۔
صحبت كيميا گر نے اثر دكهايا، مس خام كو كندن بنايا، شاه صاحب نے مفتى صاحب كو اجازت وخلافت سے نوازا، ان كے جوہر كو پہچانا اور اپنے پاس روك ليا، تقريبا سوله سال تك شاه صاحب كى خدمت كى اور اله آباد ميں ان كے مدرسه ميں تدريس كے فرائض انجام ديئے، بعد ميں كئى سال ضياء العلوم ميں پڑهايا، اور سنه 1974 ميں جب مدرسۂ رياض العلوم گورينى كا وجود عمل ميں آيا تو وہاں منتقل ہوگئے، سالہا سال فقه اور حديث كى اونچى كتابوں كا درس ديا، بخارى شريف اٹهائيس بار پڑهائى، عمر كے آخرى چند سالوں ميں بيت العلوم سرائے مير ميں تدريس كى خدمات انجام ديں، عمر طويل پائى، بڑهاپے ميں بهى صحتمند تهے، انتقال سے كچه پہلے اختلاط ہوگيا، ليكن شديد نہيں، اس حال ميں بهى جب ميں ان سے ملا پہچان ليا، كچه غير مربوط باتيں كرتے، ليكن فرائض وواجبات كى ادائيگى ميں آخر تك نشاط قائم رہا۔
ضياء العلوم ميں ميں نے دو سال فارسى اور ايك سال عربى پڑهى، اس وقت وه وہاں مدرس اعلى تهے، مشكاة المصابيح وغيره پڑهاتے تهے، ميرا كلاس روم ان كے حجره سے قريب تها، دن ميں بار بار آمنا سامنا ہوتا، اور مجه پر ہميشه شفقت فرماتے، ضياء العلوم ميں مفتى صاحب سے كچه پڑهنے كى نوبت نہيں آئى، جب وه گورينى منتقل ہوگئے تو ميں نے ايك دوسرے مدرسه مولانا آزاد تعليمى مركز ميں داخله لے ليا، كبهى كبهى ملاقات كى غرض سے حاضر ہوتا، ان كى مجالس وعظ ميں شركت كرتا، اور ايك بار رمضان كى چهٹيوں ميں رياض العلوم ميں قيام كيا اور مفتى صاحب سے الگ سے مشكوة كے كچه ابواب پڑهے، ندوه آجانے كے بعد بهى چهٹيوں ميں وطن جاتا تو مفتى صاحب سے ضرور ملتا، شفقت ومحبت كے كيا لطيف جذبات تهے! محبت سے ہاته پكڑ ليتے اور اپنے كمره ميں لے جاكر كچه نه كچه كهلاتے اور پلاتے، ميں ان كى مجلسوں كا عاشق تها، رمضان ميں ہر روز ظہر سے پہلے گورينى جاتا، ان كا بيان سنتا اور افطارى سے كچه پهلے گهر آتا، مفتى صاحب نے مجهے اور ميرى اولادكو اجازت عامه بهى دى، ميرى بڑى بچى كا نكاح پڑهايا، اور ميرى دعوت پر گاؤں ميں مدرسه محموديه كى تأسيس كى تقريب كى صدارت فرمائى۔
تصوف وطريقت ميں خلافت ہونے كے باوجود مفتى صاحب نے اس فن كى طرف توجه نہيں، خانقاہيت ان كے مزاج سے مناسبت نہيں ركهتى تهى، ان پر علم كا غلبه رہا، پڑهنا پڑهانا ان كا اوڑهنا بچهونا تها، تبحر علم اور وسعت نظر سے متصف تهے، اور بيحد ذہين تهے، ان كى ذاتى لائبريرى منتخب كتابوں كا خزانه تهى، فن تدريس ميں يگانۂ عہد تهے، سارى عمر تدريس ميں گزار دى، سيكڑوں طلبه ان كے فيض تربيت سے علماء بن كر نكلے، مطالعه كركے محنت سے پڑهاتے، تقرير دروس ميں مہارت تامه حاصل تهى، ان كے سبق ميں دل لگتا، اور دلچسپى آخر تك قائم رہتى، درس عالمانه ہوتا، كتاب كے ما له وما عليه كى تشريح كرتے، بين السطور مضامين كو بهى سمجهاتے، كبهى كبهى رقت طارى ہوجاتى تو پهر آنسوؤں كو سنبهال نه پاتے، افسوس كه ايسے با كمال مدرسين سے دنيا خالى ہوتى جا رہى ہے۔
شعله بيان مقرر تو نہيں تهے، ليكن واعظ سحر آفريں ضرور تهے اور ايك بلبل خوش نوا، ان كے وعظ ميں جو كشش تهى اس كى مثال نہيں، كسى كے وعظ ميں دل كى وه كيفيت نه ہوتى جو مفتى صاحب كے وعظ ميں ہوتى، ايك عجيب لطف اور ايك نشه آور سرور، سوتوں كو جگانے اور مرده دلوں كى مسيحائى كے فن سے واقف تهے، احياء العلوم، كيميائے سعادت، مثنوى شريف وغيره كى مدد سے وعظ شروع كرتے، درميان ميں حسب مناسبت مولانا تهانوى، شاه وصى الله فتحپورى وغيره كے احوال بيان كرتے، تاريخى قصوں اور مقامى كہانيوں كا بهى حواله ديتے، ايك قصه شروع كرتے، تو اس سے كسى اور قصے ميں منتقل ہو جاتے، پهر كوئى تيسرى حكايت شروع كرديتے، داستان امير حمزه كى طرح ايك كہانى سے دوسرى كہانى نكلتى، يا كليله ودمنه كى طرح الجهتے ہوئے گيسو سلجهتے، بيان زلف محبوب كى طرح دراز اور دلفريب ہوتا، وقتا فوقتا مقامى زبان كو اس طرح استعمال كرتے كه مزه دوبالا ہوجاتا: ہوئى معزولى انداز وادا ميرے بعد
بحيثيت مفتى ديار مشرق ميں ان كا طوطى بولتا تها، فتوى نويسى ان كى قابليت كا سب سے بڑا مظہر تهى، كتب فقه كى جزئيات پر ان كى وسعت نظر بدرجۂ اتم تهى، اگر وه دار العلوم ديوبند ميں ہوتے تو رئيس المفتين ہوتے، وه عام مفتيوں كى طرح ناقل نہيں تهے، بلكه تحقيق سے فتوے ديا كرتے تهے، اور جو مسائل تفصيل طلب ہوتے ان ميں اختصار سے كام نه ليتے، ميرے خيال ميں مفتى كفايت الله صاحب رحمة الله عليه كے بعد ايسا محقق اور دقيقه رس مفتى ہندوستان ميں كوئى دوسرا نہيں پيدا ہوا، علم كى وسعت وگہرائى كے باوجود ان كے يہاں فروع وجزئيات ميں تنگى تهى، يه تشدد كيوں تها سمجه ميں نہيں آيا، كيونكه وه بہت نرم مزاج، ملنسار اور محبت كرنے والے انسان تهے، شايد اس كى وجه يه رہى ہو كه عہد آخريں كے علماء كے ذہن ميں يه بات بيٹهه گئى تهى كه اگر جزئيات وفروع ميں نرمى اختيار كى گئى تو عام لوگ آزاد ہو جائيں گے، اور دين سے ہاتهه دهو بيٹهيں گے، اور يه ان كى صريح غلطى تهى، صحيح بات يه ہے كه فروع وجزئيات ميں تشدد ہى نے امت كے بڑ ے طبقه كو دين سے بيزار كرديا ہے، اور ان شدت پسند علماء كے شاگردوں نے اپنے اساتذه كى طرح علم ميں وسعت و گہرائى تو نہيں پيدا كى، البته بيجا تشدد ميں وه ان سے بهى آگے نكل گئے۔
مفتى صاحب نے تصنيف وتاليف پر زياده توجه نہيں كى، مولانا تهانوى رحمة الله عليه كى جزاء الاعمال كا عربى ميں ترجمه كيا تها جو استاد محترم مولانا سعيد الرحمن اعظمى صاحب مد ظله كے مقدمه سے شائع ہوئى تهى، چند رسالے لكهے، اور فتووں كا ايك بڑا ذخيره چهوڑا، زبان وادب سے مناسبت تهى، بر محل اشعار پڑهتے، ايك مرتبه مولانا عبد الحليم صاحب رحمة الله عليه كو اپنى كوئى فقہى تحرير سنا رہے تهے، اس مجلس ميں ميں بهى موجود تها، تحرير مرتب ومدلل تهى، اور اس پر حيرت ہو رہى تهى كه زبان شسته تهى، اس طرح كا انداز ہمارے قديم علماء ميں شاذ ونادر ہى پايا جاتا ہے۔
زہد وقناعت، تواضع اور سادگى ان كے اوصاف گراں مايه تهے، عبادت گزار اور طاعت شعار تهے، زندگى محنت اور جان كاہى ميں گزار دى، مزاج ميں ظرافت تهى اس لئے ان كے پاس بيٹهنے ميں كبهى اكتاہٹ نه ہوتى، ايك گوشه ميں زندگى گزار دى، اله آباد ميں ضرورت سے قيام كيا، ليكن شوقيه كوئى شہر ديكهنے نہيں گئے، لكهنؤ بهى كبهى جانا نہيں ہوا، استاذ محترم مولانا واضح رشيد ندوى كى ان سے ملاقات ہوئى تو اس پر سخت استعجاب كيا كه انہوں نے اب تك لكهنؤ نہيں ديكها، استاد محترم نے ميرے سامنے بهى ايك بار اس حيرت كا اظہار كيا، مختصر يه كه مفتى صاحب اپنى مجموعى خوبيوں كى بنا پر فخر جونپور تهے اور آبروئے تدريس وافتاء ووعظ، زمانه كا رنگ ديكهكر يه توقع مشكل ہے كه ہمارے علاقه ميں اس طرز كا عالم پهر پيدا ہوسكے:
روش دہر كا ہر نقش پكارے گا مجهے
يه نه سمجهو كه مجهى تك مرا افسانه ہے

سب کا سہارا – بقلم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
سب كا سہارا

از: محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

اے فرزند آدم! تو كمزور ہے، تجهے شكوه دارا حاصل ہو، شوكت سكندر تيرے نصيب ميں ہو، تو مملكت سليماں كا وارث ہو ، اور ذو القرنين كا ہم عناں تب بهى تو بے بس ہے، كمزور سے كمزور مخلوق تجهے شكست دے سكتى ہے، ايك معمولى سى بيمارى بهى تيرى ناتوانى كا پرده فاش كرسكتى ہے، قلعوں اور حصاروں كے اندر تو محفوظ نہيں، عساكر جن وانس كے پہرے ميں اور شمشير وسناں كے سايه ميں بهى تو پر امن نہيں، طبيبان عرب وعجم ويونان وروم، اور جالينوس وابن سينائے وقت تيرے مرض كى تشخيص وعلاج سے عاجز، اور پيك اجل كے سامنے سب سر نگوں۔
تو محتاج ہے، تجهے قارون كا خزانه مل جائے، تو دنيا كے سيم وزر كا مالك بن جائے، متاع شرق وغرب پر قابض ہو جائے، پهر بهى تو فقير ہے، تو بے سہارا ہے، اس جہان كى پہنائى تجهے پناه نہيں دے سكتى، وسعت عالم امكان تجهے خود مختار نہيں بنا سكتى۔
تيرا مولى طاقتور وتوانا ہے، غنى اور بے نياز ہے، اسى كا سب يه كار خانه ہے، مكان اسى كا ہے اور اسى كا زمانه ہے، وه قادر مطلق ہے، عليم وحكيم ہے، عرش وكرسى اور چرخ نيلگوں اسى كا ہے، سب اس كے محكوم ہيں، اور اس كا ہر حكم حكمتوں كا خزانه ہے، حسن وجمال اسى كا ہے، اور رونق جناں اس كى صنعت كا ادنى كرشمه ہے۔
اس كى عظمت ذرے ذرے سے ہے نماياں، وه گرچه ہے لا مكاں، پر اس كے سب ہيں مكاں، ظہور جلوۂ پروردگارہے جا بجا عياں، اسى كى قدرت كامل ہے سب ميں جلوه نما ، شش جہات ميں اس كے جمال وجلال كا ہے تماشا ، وه بے نقاب ہے اوربے حجاب ، اس كے ديكهنے كے لئے دركار ہے ديدۂ پاك ونگاه بے تاب، وه باہر ہے مقال سے، بر تر ہے خيال سے، كيا ہے شان بارى، سبحان ہے ذات اس كى۔
ہر چيز ہے ذكر معبود ميں رقصاں، اس كى ثنا ميں رطب اللساں، لب ہر مخلوق پر اسى كا افسانه، زبان عنادل وطائران خوش نوا پر اسى كا ترانه، جو كوئى كرتا ہے اس كا دهيان تو اس كا دهيان كرے حضرت سبحان، اس كى ياد كے ساته كسى كى ياد روا نہيں، اس كى حمد كے ساته كسى كو حمد زيبا نہيں، وه مخلوقات كى ثنا خوانى سے بے پروا ہے، اوراحاطۂ ادراك بشر سے ماورا ہے، انسان مركب جہل وظلم ہے، اور با ايں ہمه جہل وظلم وه رب كا بياں كيوں كرسكتا ہے، سارے مقدس فرشتے ملكر اگر اس كى تعريف لكهيں تب بهى وه اسے تحرير ميں نہيں لاسكتے۔
اے فرزند آدم! وہى تيرا سہارا ہے، وہى تيرا مطلب روا ہے، قاضى حاجات ہے، رافع درجات ہے، كلك كن سے ہمه وقت قضا وقدر كے فيصلے كرتا ہے، جو چاہتا ہے وہى ہوتا ہے، اور جو نہيں چاہتا وه نہيں ہوتا، اس پر كوئى آفت نہيں جس كا منه سوئے خدا ہے، اسے كوئى غم نہيں جس كى توجه كا مركز اس كا مولى ہے، اے سعادت! رخ نمائى كر، اے عنايت! دستگيرى كر۔
اے فرزند آدم! ہر چيز سے منه موڑ، خلق ناتوان وناداں سے رشته توڑ، اس كى تعظيم ميں سر كر خم ، جس نے پيدا كيا يه سارا عالم، اسى كو مقصود جان وتن بنا، اس كے سامنے جبين نياز بچها، توحيد خدا ميں زباں تر كر، زمزمۂ ثنائے غفار بلند كر، غير آستانۂ يار جبہ سائى نه كر، فقط ياد الہى سے غرض اے ميرى جان ركه، لبيك اے داور دو عالم! چشم پندار سے مجهے پاك كر، عصياں شعار كو پشيمانى كا سليقه عطا كر، نفس وہوا سے فريادى ہوں أغثني يا مغيث، تيرے لطف كا پناه جو ہوں أجرني يا مجير، عفو كے قابل ميرے اعمال كب ہيں، تيرى رحمت پر نظر ہے، تيرى مہربانى كا سہارا، تيرے خوان نعمت سے كون محروم ہے، ارحمني يا رب العالمين۔

يا ليتني كنت نعلا من نعالك! – بقلم: د. محمد أكرم الندوي أوكسفورد

قياسي

بسم الله الرحمن الرحيم

يا ليتني كنت نعلا من نعالك!

بقلم: د. محمد أكرم الندوي
أوكسفورد

يا ليتني كنت طائرا يجوب الزمان كما يجوب المكان، ويسيح في الغابر كما يسيح في الحاضر، فقطعت مسافات القرون المتطاولة وتنقلت من عصري إلى عصرك، ووصلت أيامي بأيامك، وثويت ببلدك صحيحا مسلَّما، فما سقام قلبي إلا ما فيه من أهواء باطلة وشهوات فاسدة مفسدة، وسعدت برؤيتك ورؤية أصحابك، ونعمت بحرمك وأحدك، وحللت حيث حللت ورحلت من حيث رحلت، وقبَّلت مساجدك ومعابدك، ومسِست ما مست يداك، وطهَّرتُ عيني بالنظر إلى ما وقعت عليه عيناك، وسررت بمسراتك وابتهجت لبهجاتك، وبكيتُ لأحزانك وآلامك، غير مالٍّ صحبتك ولا سائمٍ من طاعتك.
يا ليتني كنت جوا من أجواء الحجاز، فتعطرتُ بعبير أنفاسك المباركة، وحييت حياة زكية طيبة، أو كنتُ ربيعا حل بساحتك، فانتشيتُ بك طربا، أو كنتُ منزلا من منازل هجرتك، أو غارا سماني قومك ثورا واخترتني لاختبائك الآمن، فتنورتُ بك وازددت زينا وجمالا، مروَّعا ببينك، غير قاضية نفسي منك بالها، ولا سالية عنك سلوا، وسألتُ ربي أن يُسقط من حياتي السنين والأعوام، والشهور والأيام إلا تلك الساعة التي صادفتُك فيها، وعشتُ بقية حياتي باكيا في فراقك ونادبا لبينك.
يا ليتني كنت طريقا من الطرق بجانب حجرتك، فمررتَ بي إلى مسجدك برا حنيفا، أو كنتُ ممرا من ممراتك أنتظر قدومك وأتطلع لاستقبالك، أو كنتُ كلماتِ دعوتِك ناطقا بها لسانك لما رماك أهل طائف بالأحجار زاهدين فيك ومؤذين إياك إيذاء، يا ليتني كنت شجاعا من الشجعان العرب مطيعا لأمرك تُوجِّهني حيث شئت، أو أصابتني جراحة في غزوة من غزواتك، فوقعتُ بين قدميك، فنظرتَ إلي نظرة مشفق رحيم، ونسيتُ الموجعات والمؤلمات، أو كنتُ فارسا من فرسانك بأحد، ثم لم أبق حيا، مفديا نفسي لأمين الله شيمته الوفاء، وقلت: كل مصيبة إذا وطنت لها النفس دفاعا عنك ذلت وهانت.
يا ليتني كنت لفظة من آية ربانية، نطقت بها شفتاك مستنيرا بها عقلك وخاشيا لها قلبك، أو كنتُ قصة مجهولة من حياتك الطيبة الطاهرة، لم يضبطها الفقهاء المدققون والمستنبطون المحققون، وأغفلها الرواة المتقنون، والحفاظ المتثبتون، أو كنت قطنا من ردائك أترنح على كتفك، أو كنت عتبة ببابك أو عصا تمسكها بيدك، فإذا وطأتني تذللتُ لك، وإذا شحطتَ عني توجعت.
يا ليتني كنت ماء في عيون الصحراء، وبردتْ بنفسي قدماك، أو كنت نباتا في أرض قاحلة غرسته بيدك، أو كنت قطعة من سحابة، أُظلك في مقيلك ورحيلك، أو كنتُ سماء عهدك أراك بعين الاستعجاب، أو كنتُ تربة في زقاق من أزقة المدينة، فأقبل رجلك تقبيلا، أو كنت نخلة فأكلتَ من تموري وأهديت منها إلى ذويك وتصدقت بها على الفقراء والمساكين، ثم قُطع عمري وانقضى عهدي.
يا ليتني كنت ابنا لأيم فقيرة واضعا رأسي في حجرك، أو كنتُ عبدا من عبيدك، راضيا بخدمتك، كارها للانعتاق، مفضلا ملازمتك على وصل حبلي بحبال أهلي وقومي، ولصقت بك ظلا لك تابعا، ولا عشت بعدك، ودامت علي نعمتك إلى ملتقى الحشر.
يا ليتني كنت غار حراء بجبل النور، فأويت إلي، وتمثل لك الناموس وأنت في أحضاني، ونزل عليك الهدى الذي بهر الشمس سطوعا، فساميتُ السماوات العلى بأني وسعت من لم تر العيون أحسن منه، ومن لم تلد النساء أجمل منه، كأنه خلق مبرءا من كل عيب، وكأنه خلق كما يشاء.
ويا ليتني كنت الأسطوانة التي تخطب عندها كل جمعة، وكنت حننت إليك بأصوات عالية حين تركتني إلى منبرك الجديد، فمسستني بيدك، فسكنت، لو كنتُ ذلك الجذع الحنان لكان حنيني وسكوني أحب إلي من أن أظفر ببثينة وعزة، بل لفديت الغواني الحسان والعذارى الفاتنات لبرودة لمستك.
يا ليتني كنت نعلا من نعالك، تمس ظواهر قدميك، وتقيهما الحجر والرمل والوعث والوحل، تخطو بها إلى المسجد وفي سبيل ربك، وتطأ بها بيت المقدس، والسموات السبع وما فوقهن، ويا ليتني كنت نعجة، فذبحتني بيدك المباركة، فأكلت لحما مني طريا وتحسيت مرقا شهيا، ولا يظنن الأنام أن حبي لك غمرة تتجلى، أو سحابة تتقشع، فما حبك يبيد فيما يبيد، وإن من يعط قرينا مثلك لسعيد، ولا تحسبنَّ أني ولدت بعدك طائعا، صعب على من عرفك أن يتخلف عن ركبك الميمون.
يا ليتني صحبتك فملأت عقلي إيمانا وإيقانا، وقلبي إسلاما ورضى، ولو أن عين الجود منك وقعت علي لكنت آية من الآيات بدلا من أن أكون إنسانا، ولو بتُّ معك ليلة ببطحاء مكة أو حرات يثرب لكنت إذن حظيًّا رشيدا، وليس مطلبي بمستحيل، فقد تلتقي الأشتات على التباعد، وقد تدرك الحاجات على التمانع، ولا حول ولا قوة إلا بالله.
ألا ليت أيامي كن ماضيات، وليت اقترانهن بالميمون المبارك ردهن جميلات رائعات، فلو كان ذاك لكان لي شأن غير شأني، ولم ألاق من الأهوال ما ألاقي، ولعلوت على أهل عصري ومصري علوا، ولفاخرت أقراني وأسناني، ولحسدني الحاسدون.

رمضان في قريتي – بقلم: د. محمد أكرم الندوي

قياسي

بسم الله الرحمن الرحيم

رمضان في قريتي

بقلم: د. محمد أكرم الندوي
أوكسفورد

كأن قاهرا يقهرني أن أبث إلى إخواننا العرب حديثا عن شهر رمضان في قريتي ببلاد الهند قبل خمسين سنة تقريبا، إنها قرية مسلمة متدينة، فيها مساجد ومدارس، وعاداتها وتقاليدها إسلامية، تحافظ على سنتها وثقافتها، تشم منها رائحة الدين ساطعة زكية، ليس في بيوتها أثر من وسائل الترف الحديثة، ولا القنوات التلفزيونية والشبكات العنكبوتية، أهلها جيران يتعارفون ويتواصلون ويتقاربون، ويتقاسمون الأفراح والمآتم، يشتغل كثير منهم بالعمل والتجارة في المدن الكبيرة، ولكنهم يسعون أن يقضوا شهر رمضان في القرية، يسوؤهم أن تكدر الغربة أو الوحشة بهجة هذا الشهر وسعادته، ولرمضان في القرى بل في عامة الهند جلال وأبهة، وجمال وبهاء، وشذى روحاني سماوي جارف قوي، لا هيِّن خفيف.
أيام رمضان! وما أيام رمضان! أيام عيد للأغنياء والفقراء، والصغار والكبار، والرجال والنساء، نستقبله برؤية هلاله، ومن الرجال والنساء من يصعد إلى سطوح المنازل، وكان أسعدنا من يصعد إلى سطح المسجد الجامع بجوار بيتي، لأنه أعلى موضع في القرية، يجتمع الناس ظاهره مساء التاسع والعشرين من شعبان يراقبون طلعة الزائر الكريم، مترصدين صفاء السماء عقب أفول الشمس، وكنت وأنا طفل صغير أشاركهم في التحري، سعداء بأن نبدأ جو رمضان العطر الطاهر برؤية الهلال، يخيل إلينا أن الرؤية مدخل يتغلغل رمضان منه في أحشائنا، ويتمكن من نفوسنا، وكنا نحن الصغار دائما نخطئ موضع الأفق الذي تتطلب فيه الرؤية، إذ يختلف حسب اختلاف الفصول، فيمسك الكبار برؤوسنا يصرفونها إلى النقطة بالذات في المغرب، ورؤية الهلال لذة يحرص كل واحد منا أن يستبد بها دون أن يتخلى عنها لغيره.
فإذا رأيتُ الهلال بعيني غمرتني فرحة عجيبة تشبه الفرحة التي تدخل قلبي بعد رجوع أبي أو أمي بعد غياب إلى المنزل، أو تقارب الفرحة التي أحس بها أهل يثرب لما استقبلوا فيها من غير مجرى الحياة فيها وافتتح لها تاريخًا جديدا، وكنت أسرع إلى أمي أخبرها برؤيتي للهلال متباهيا بها وكأني قافل من انتصار في معركة، ويتحول البيت كله إلى مدرسة دينية، تحف بنا نفحات إيمانية، وتغشانا أجواء قرآنية.
وكان إحياء رمضان في القرية بمشاعر ورسوم خاصة تجعل من أيامه ولياليه زمنا متميزا بارزا، يتلون رونقه باختلاف الفصول، والذي أتذكره جيدا هو صوم أيام الصيف، كنا نستمع بالشهر، والعبء ثقيل على أمي وسائر النساء، إعداد السحور، وطبخ أنواع الأطعمة في الفطور، وتنظيف الأواني والصحون، راضيات بما قدر لهن، لا يرفعن أصواتا أمام الرجال، ولا يشكون من إرهاق أو عناء، شاكرات صابرات.
تبدأ صلاة التراويح، وكأنها حفلة من الحفلات، فالذين يتهاونون في صلاة الجماعة في سائر أيام السنة يحرصون عليها في رمضان، ومواظبتهم على صلاة العشاء والتراويح أشد، ويتم ختم القرآن في جامعنا في الخامس عشر من الشهر، يقرأ القارئ كل ليلة جزئين، وبعد الخامس عشر يجتمع مهرة الحفاظ فيختمون ختمة في كل ليلتين نسهر من العشاء إلى السحور، وفيها امتحان للحفاظ الجدد يرجى منهم أن يكملوا نصيبهم من القراءة لا يتعثرون بنسيان ولا يكبو لهم لسان، وإذا رأى الرجال كرامة الأولاد الحفاظ على الناس تمنى كل واحد منهم أن يكون ولده فارسًا مبرزا في تلك الحلبة المباركة، ومن ثم كثر الحفاظ في قريتي كثرة لم أسمع بمثلها.
وكنا نحن الأولاد ممن يدرس في المدرسة السليمانية الواقعة أمام الجامع نضطجع على فرشنا قليلا وهمومنا ساهرة وعزائمنا راكبة، نستيقظ مبكرين جدا، فنحمل مصباحا، إذ لم يكن في القرى كهرباء، ونمر في أزقة القرية، ننشد أبياتا بالأردية تتضمن تنبيه الناس للسحور، ومدائح للنبي صلى الله عليه وسلم، ومناقب الخلفاء الراشدين، ونعوتا لعامة الصحابة، وكان لأمي دفتر قديم من أيام طفولتها دوَّنت فيه منظومات شعرية، فكنت أقرأ منها وسائر الأطفال يرددون خلفي، وفيهم من في صوته جمال وحنين، تعلو أصواتنا كلما مررنا بباب من الأبواب، وكان المرور بأزقة القرية كلها يستغرق ساعة أو أكثر، وعلينا المعول في إيقاظ النساء لتهيئة طعام السحور، وكذلك إيقاظ الرجال، وكانت أناشيدنا وقت السحور ترتفع بالقرية كلها إلى سماء العبادة وفضاء البركة، وأهل القرية كلهم يعظموننا وينوهون بشأننا.
كانت النساء يستيقظن قبل الرجال، يشتغلن بالطبخ وإكمال التحضير والتقديم، وفي السحور أنواع من المآكل، وفيها أكلة خاصة تسمى السحور، وكنا نرى أن الصوم لا يتم إلا بها، وهي تشبه الحريرة، تعد من أنواع من المكسرات، ورغائف مدهونة بالزيت أو السمن تسمى “براتا”، ممتعين بجمال النجوم الزاهرة ومتروحين بالنسيم العليل المسترق من طباع الرياض النضرة، ننتهي من السحور قبل طلوع الفجر بخمس دقائق، يقرؤوننا نية الصوم بالعربية “بصوم غد نويت من شهر رمضان”، ثم نتوضأ ونخرج للصلاة في الجامع.
ويخرج الرجال بعد الفجر إلى أشغالهم في المزارع والحقول حتى ينتهوا منها قبل أن تضاربهم حرارة الشمس، ويأخذ النساء قسطا من الراحة إلى الضحى، وكانت ذوات الأعذار منهن يستبقين فضلات من الطعام في جملة ما يترك للأولاد دون سن الصيام، ويحرصن أن يأكلن في غرفات مغلقة مظلمة مختفيات عن أنظار الرجال والأولاد، وكن يخجلن أن يسألهن الأولاد ما لهن يأكلن في نهار رمضان، وكانت النساء رغم إجهادهن ووطأة الأشغال عليهن يكثرن من قراءة القرآن في رمضان، تختم أمي عادة ست ختمات أو سبعًا، وكنت أشعر بأنوار قدسية تغشى وجوه النساء أكثر من الرجال.
وكانت صلاة الظهر تؤخر إلى قرب المثلين، ثم تشتغل النساء بإعداد الفطور، وتدب الحباة إلى الكوانين ويصعد دخانها، ويعلو أزيز المراجل تغلى على النار، والطعام يطهى على الخشب، وتنتشي القرية كلها من بعد العصر إلى وقت المغرب بروائح شهية هنيئة، ويكتسي الجو نكهة تملأ الخياشيم تخديرا، وكانت الثلوج تباع قرب الجامع فنشتري قطعا منها، يستبرد بها الأشربة، وعلى رأسها “روح افزا” وكأنه شراب الصائمين، يهون ما بالنفس من صدى، يبل منها غلة، ويعطيها قوة.
وكانت الأمهات يرسلننا بأشياء من الطبيخ موضوعة على الصحون مغطاة نوزعها على الجيران، ونهديها إلى المسجد، وللإفطار لذة في القلوب، أطيب من المدام الخندريس، وأحلى من معاطاة الكؤوس، نجلس مع الكبار حول المائدة، ممتلئا شعورنا بالسكينة ونحن مقبلون على طعام مستطرف وفير يغري بالجائعين أيما إغراء، ساعين للمكارم والمعالي ومتطلعين للجنان العوالي، وداعين ربنا جل وعلا القضاء بأحوال تقر بها العيون وتشرف بها النفوس.

ندیوں سے دو ٹوک بات : مرجعیت کس کو حاصل ہے؟ – بقلم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
ندويون سے دو ٹوكـ بات: مرجعيت كس كو حاصل هے؟

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

ندوه ايكـ زنده تحريكـ كا نام هے جس كا مقصد هر عهد مين ايسے ذى علم وفكر اور صاحب استعداد وكمال افراد تيار كرنا هے جو اس عهد كے تقاضون كے مطابق اپنى قوم وملت كى قيادت كا فريضه انجام دين، اس اهم ذمه دارى كى ادائيگى اسى وقت ممكن هے جب اس كے فارغين ايكـ طرف سرچشمه هدايت يعنى كتاب الهى سے براه راست رهنمائى حاصل كرنے كے اهل هون اور خدا كے آخرى پيغمبر صلى الله عليه وسلم كى سيرت وسنت پر گهرى نظر ركهتے هون كه آپ صلى الله عليه وسلم نے كس طرح اپنے حالات اور ماحول مين اس كتاب سے فيضيابى كى، اور اس كى روشنى مين كس طرح مثالى افراد تيار كئے اور مثالى معاشره وجود بخشا، چونكه آپ كو تاييد ايزدى حاصل تهى، آپ كى تعليمات خطا سے پاكـ تهين، اور آپ كو قيامت تكـ كے هر حالات اور ماحول كے لئے پيغمبر منتخب كيا گيا تها، اس لئے قرآن كريم كے ساتهـ آپ كا نمونه بهى ابدى هے.
دوسرى طرف اپنے عهد كے تغير پزير حالات كو سمجهين، ان كا براه راست مطالعه كرين، اور ان پر گهرى نگاه ركهين، يه بات اچهى طرح ذهن نشين هونى چاهئے كه اسلامى تعليم وتربيت كا مقصد يه هے كه طلبه قرآن وسنت كى مهارت اور اس سے رهنمائى حاصل كرنے كى صلاحيت پيدا كرين، اسلامى تعليم وتربيت كا هرگز يه مقصد نهين هے كه دينى علوم وفنون كے مختلف الجهات دائمى مراكز قائم كئے جائين جو وقت گزرنے كے ساتهـ قرآن وسنت كى مرجعيت سے دور اور بے نياز هو جائين، بلكه خود مرجعيت كا مقام حاصل كرلين.
ندوه كى يه خصوصيت آج تكـ قائم هے كه اس كے فارغين نے اپنے حالات اور ماحول كے لئے رهبرى كا فريضه انجام ديا، مولانا محمد على مونگيرى، مولانا شبلى نعمانى، اور مولانا عبد الحى حسنى سے ليكر سيد سليمان ندوى تكـ اور پهر سيد ابو الحسن ندوى تكـ يه عظيم روايت تسلسل كے ساتهـ اور بغير كسى انقطاع كے قائم ودائم رهى، ندوه كى ان عبقرى شخصيات كى سيرت كا عام مطالعه بهى يه ثابت كرنے كے لئے كافى هے كه انهون نے اپنے عهد كے مسائل كو كس طرح گهرائى كے ساتهـ سمجها اور مكمل اخلاص اور پورى تڑپ سے ان كے حل وعلاج كى كوششين كين.
تعليمى وتربيتى تحريكون كى صحيح سمت مين پيش رفت كے لئے اسى اصول پر گامزن رهنا ضرورى هے جو فقهى اور كلامى مسالكـ اور تصوف كے طريقون كے لئے ضرورى هے، وه اصول يهى هے كه ان تحريكـون، مسلكـون، اور طريقون كے قائدين كس حد تكـ اپنے حالات سے با خبر هين، اور كس حد تكـ براه راست قرآن وسنت سے استفاده كے اهل، اپنے زمانه كى تقاضون اور حالات كے زير اثر ان تحريكون اور مسلكون كے قائدين نے مراكز قائم كئے، اور كتابين تصنيف كين، ان عظيم افراد، ادارون، اور تصنيفات كى قدر وقيمت سے انكار ممكن نهين، تا هم ان كى حقيقى افاديت اسى وقت تكـ برقرار رهتى هے جب تكـ كه ان كے منتسبين ان سے صحيح استفاده كرين، ان كے متعلق مبالغه آرائى سے كام نه لين، اور نه ان كو مرجعيت كا مقام عطا كرين.
يه بات همارے ذهنون مين هميشه تازه اور زنده رهنى چاهئے كه اس دين كے اندر سارى كتابون كے مابين صرف كتاب الهى كو، اور سارے افراد كے درميان صرف پيغمبر خدا كے نمونه كو مرجعيت حاصل هے، يه مرجعيت اس دين مين نه فقهى، نه كلامى اور نه صوفيانه كتابون كو حاصل هے، نه فقه، كلام اور تصوف كے امامون كو، اور نه هى يه مرجعيت كسى اداره اور مكتبه فكر كو حاصل هے، اسى طرح عصر حاضر كے مسلم علماء وقائدين، ان كى تصنيفات اور ان كے قائم كرده ادارے، مراكز اور مدارس مرجعيت كے حامل نهين، ازهر شريف، ديوبند اور ندوه قيادت كے لائق علماء تيار كرنے كے مراكز هين، يه تعليمگاهين خود مرجعيت كے مقام پر فائز نهين، ان كو مرجعيت عطا كرنے كى غلطى نے اس امت پر فكرى، اجتماعى، ثقافتى اور قانونى عدم مرونت كا بحران مسلط كر ديا هے، جس كا نتيجه يه هے كه سيكڑون جلدون مين پهيلى هوئى ان ادارون كى تصنيفات فكرى، قانونى اور عملى حد بنديون اور فروعى جزئيات كى وه دقيق تفصيلات پيش كرتى هين جن كى موجودگى مين قرآن وسنت كا اساسى مقام ايكـ بے معنى اور غير متعلق نظريه سے زياده حيثيت نهين ركهتا، مسئله يه هے كه يه اصول وتعليمات خواه كس قدر واضح اور فيصله كن هون انهين اتهاريٹى هرگز حاصل نهين هوسكتى، بغير كسى شرط وقيد كے قرآن وسنت كى كامل مرجعيت كا تسليم كرنا كسى بهى فرد يا اداره كى اهليت كا پهلا زينه هے، اسى كے ذريعه هر عهد اور هر ماحول مين، اور دوسرے افراد اور ادارون كو كوئى فكر يا تجزيه يا استدلال تهذيب وشائستگى كے ساتهـ پيش كرنا ممكن هوگا.
ندويون سے گزارش هے كه يه بات كسى پر مخفى نهين كه دنيا كے حالات جس برق رفتارى سے تبديل هو رهے هين، اس قسم كى تبديلى اس سے پهلے كبهى نهين پيش آئى، آپ كا عهد هر لمحه تغير پزير هے، اور آپ كا ماحول هر لحظه دگر گون، اس نازكـ گهڑى مين آپ پر قيادت كى ذمه دارى هے، حالات كو براه راست سمجهنے كى كوشش كرين، قرآن كريم اور سنت سے براه راست رهنمائى حاصل كرين، ان حالات مين بار بار علامه شبلى نعمانى، علامه سيد سليمان ندوى اور مفكر اسلام ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليهم يا ماضى اور حال كى كسى شخصيت، تصنيف، مكتبه فكر اور اداره كا حواله دينا آپ كے شايان شان نهين، ان بزرگون نے اپنے حالات اور ماحول كے لحاظ سے رهنمائى كا فريضه انجام ديا، اب آپ پر امت كے مسائل سے نپٹنے كى ذمه دارى هے، ضرورى نهين كه ان كا جو حل ان بزرگون كے عهد مين صحيح تها وه آپ كے لئے بهى مناسب هو، ايكـ كامياب ڈاكٹر وه نهين جو بغير كسى تبديلى كے اپنے پيشروون كے نسخے استعمال كرتا هو، يا مريض كے حالات كى تبديلى پر نگاه كئے بغير ايكـ هى طريقه علاج پر مصر هو.
اگر آپ اپنے عهد اور ماحول سے براه راست واقف نهين تو آپ كو مشوره دينے يا رهنمائى كا حق هرگز حاصل نهين، غير معتبر ذرائع ابلاغ اور غير مستند تجزيون پر اعتماد سخت نقصان ده هے، حالات سے سطحى واقفيت آپ كے مقام سے فرو تر هے، جب تكـ حالات وماحول سے صحيح اور قابل وثوق واقفيت نهين هوتى اس وقت تكـ نه آپ كتاب الهى سے هدايت حاصل كر سكين گے، نه هى پيغمبر خدا كے نمونه سے مستفيض هوسكين گے، اور نتيجتًا آپ قيادت كے بار گران كے متحمل نهين هو سكتے.
اسى طرح اگر آپ براه راست كتاب الهى اور سنت نبوى سے صحيح رهنمائى حاصل كرنے كى همت اور صلاحيت نهين ركهتے تو آپ ميدان قيادت سے كناره كش هوجائين، كيونكه آپ جو حل بهى پيش كرين گے وه يا تو دوسرى قومون سے مستعار هوگا جن كى فطرت وساخت اور جن كے اجزائے تركيبى امت محمديه سے مختلف هين، يا اپنے حالات وماحول كے تقاضون كو نظر انداز كركے اپنے پيش روون كے الفاظ ومعانى دهراتے رهين گے، جبكه ان الفاظ كے معانى بلكه معانى كے معانى بهى تبديل هو چكے هون گے، ياد ركهين كه تقليد آپ كے منصب كے خلاف هے، امامت اور تقليد ايكـ دوسرے كى ضد هين، ان ضدين كے اجتماع پر وهى مصر يا راضى هو سكتا هے جو ان دونون كے مفهوم اور تقاضون سے واقف نهين.
يه تحرير مين نے اس لئے پيش كرنے كى جرأت كى هے كه جب تكـ يه بنيادى اصول طے نهين هوجاتا همارى فكرى، عملى اور اصلاحى كوششين رائيگان هى نهين هون گى بلكه حالات كو خراب سے خراب تر كرتى رهين گى.

رد على ابن عاشور – بقلم: د. محمد أكرم الندوي

قياسي

بسم الله الرحمن الرحيم

رد على ابن عاشور

بقلم: د. محمد أكرم الندوي
أوكسفورد

قالوا: مالنا نراك ممتعضا؟ قلت: لم تكدِّرني إلا رسالة من شيخنا العالم الأصولي الصالح عبد الله التوم مؤيدة من قبل شيخنا العالم المحدث الفقيه أحمد عاشور. قالوا: أو ليسا من أحب أصحابك إليك وأقربهم خلة ومودة؟ قلت: بلى، والذي أهمني هو كلام تضمنته تلك الرسالة من تفسير الفقيه الأصولي محمد الطاهر بن عاشور، لا كلام الأخوين الحبيبين، قالوا: ما هو؟ قلت: قال ابن عاشور في بداية سورة عبس وهو يبين أغراضها: “تعليم رسول الله صلى الله عليه وسلم الموازنة بين مراتب المصالح ووجوب الاستقراء لخفياتها كي لا يفيت الاهتمام بالمهم منها في بادئ الرأي مهما آخر مساويا في الأهمية أو أرجح. ولذلك يقول علماء أصول الفقه: إن على المجتهد أن يبحث عن معارض الدليل الذي لاح له”. (التحرير والتنوير 30 / 102)
قالوا: ما نقدك لهذا الكلام النفيس الناصع؟ قلت: أمران: أمر عام، وأمر خاص.
أما الأمر العام فاعلموا أن لكل علم أو فن طبيعته الخاصة، والواجب على الإنسان إذا أقبل على فرع من فروع العلم أن يعنى بذلك العلم من منظوره الخاص، ولا يفرض عليه تبعات الصناعات الأخرى ومخلفاته، فمثلا إذا أراد عالم الاجتماع أن يأخذ علم الطبيعة، أو علم الرياضيات، أو علم الأفلاك فالمحتوم عليه أن يتخلى عن منظوره الاجتماعي، ويُخْلص نفسه لذلك العلم المقصود اكتسابه، والقرآن كتاب الله، وهو أفضل كلام لا يبلغه شيء من كلام البشر، ومن ثم أنزل على النبي الأمي الذي يأتي إليه عطشان ليأخذ منه، لا ليعطيه شيئا، وهذا هو الشرط الأساسي للاستفادة من كتاب الله أن يتجه إليه المرء أمّيًّا مطهَّرا من ميوله الفلسفية واتجاهاته العقائدية، ولكن الذي حصل في القرون المتأخرة أن المعتزلة درسوه بعين الاعتزال، والأشاعرة فسروه من وجهة نظر الأشعرية، والفقهاء جعلوه كتاب فقه، وهلم جرا، فظلموا كتاب الله ظلما مبينا:
وكل يدَّعي وصلاً بليلى
وليلى لا تقر لهم بذاكا
وابن عاشور في تفسيره أشياء نافعة، ولكن تغلبه نزعته الفقهية والأصولية، فيهبط بكتاب الله إلى مستواه البشري المصطنع، بدلا من أن يرتفع بنفسه إلى ذاك المستوى الرباني العالي.
وأما الأمر الخاص فهو المتعلق بهذا المقام، فكأنه يرى أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يوازن بين مراتب المصالح ولم يستقرئ خفياتها، حتى أدى ذلك إلى اشتغاله بالمهم منها عن المهم المماثل أو الأرجح، فهذه جرأة عظيمة من ابن عاشور على جناب النبي صلى الله عليه وسلم.
وهل اشتغل صلى الله عليه وسلم في حياته قط إلا بما أمره الله به؟ أليس هو المختار المصطفى من بين سائر البشر؟ أليس هو الصادق الأمين؟ ألم يأمره الله بقوله “وأنذر عشيرتك الأقربين، واخفض جناحك لمن اتبعك من المؤمنين، فإن عصوك فقل إني بريء مما تعملون، وتوكل على العزيز الرحيم الذي يراك حين تقوم، وتقلبك في الساجدين” (الشعراء 214-219).
فكان من واجبه إنذار عشيرته الأقربين وخفضه جناحه لمن اتبعه من المؤمنين، وكان بالمؤمنين رؤوفا رحيما، يعلمهم ويرعى شأنهم مضحيا في سبيل ذلك بمصالحه الشخصية والأسرية، ولم ينقل عنه تقصير في التعليم والتزكية.
وكان مع عنايته بشأن المؤمنين حريصًا على هداية أشراف قومه، وإنهم إن أسلموا أسلم جمع عظيم، أو ليس المهم الأرجح للنبي صلى الله عليه وسلم أن يتحين فراغ أولئك الأشراف لاستماع حديثه، فينذرهم ويعلمهم؟ أو ليس الواجب على المؤمنين أن يساعدوه في دعوته، وأن لا يقطعوا عليه حديثه إذا كان مشتغلا بالدعوة، أليس هذا هو الأدب الذي علمه الله تعالى في سورة الحجرات؟
كان الواجب على ابن أم مكتوم أن يتأدب مع النبي صلى الله عليه وسلم، وإن لم يتأدب فإنه هو الذي يستحق التأديب والزجر، وقد أُمِر النبي صلى الله عليه وسلم أن يؤدب أصحابه، وقد شهد الله تعالى بعظمة أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم إذ قال: “إنك لعلى خلق عظيم”.
قالوا: فما قصة هذه السورة؟ قلت: كان النبي صلى الله عليه وسلم أكثر الناس شفقة على الناس وحرصا على إنقاذهم من النار، وكان زعماء قريش فيهم كبرياء وشدة أنفة، وكانوا كلما ازدادوا جماحا ازداد النبي صلى الله عليه وسلم إلحاحا في الدعوة رحمة بهم وشفقة عليهم وأداء لأمانة الرسالة التي نيطت به، ورجاء أن يعز الإسلام بإيمان الأقوياء ذوي البأس والنجدة، وخوفا من أن يقصر في الجهد والصبر، وكان ربه رحيما به فلما رأى منه هذا الإلحاح والأسف نبهه إلى أن لا ينزل عن سمو محله، فإنه أرسله بالعز الشامخ والشرف الباذخ، فقال: “لعلك باخع نفسك على آثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث أسفا” (سورة الكهف 6)، ووجهه إلى من هو أولى بعنايته وأحق بوقته، فقال: “واصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ولا تعد عيناك عنهم تريد زينة الحياة الدنيا”، وكلما حملت النبي صلى الله عليه وسلم شفقته على الحرص الزائد على هداهم صرفه الله عن ذلك رحمة به ورفعا للرسالة عن الخضوع، حتى جاء إليه ابن أم مكتوم وهو ينذر بعض زعماء قريش فخاف النبي صلى الله عليه وسلم أن يقولوا: إنما يتبعك العميان والضعفاء، وخاف أن يزدرئ الكفار بأصحابه، فأحس النبي صلى الله ببعض الضيق في نفسه بدخول ابن أم مكتوم عليه، فاستعمل الله هذا الشأن لزجر الكفار، فالكلام خرج مخرج العتاب، ولكنه في الحقيقة زجر للكفار وتنديد بهم، وثناء على النبي صلى الله عليه وسلم وتطييب لقلوب المؤمنين، حتى يعرف الزعماء مكانة أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في عين الله تعالى.
قالوا: أليس أن ابن أم مكتوم جاء ليتعلم منه ويتزكى فعبس النبي صلى الله عليه وسلم في وجهه وتولى عنه؟ قلت: أو ليس العبوس في وجه الطالب من سوء الخلق؟ وقد وصفه الله بصاحب الخلق العظيم، وهل يشعر الأعمى بالعبوس؟ وإنما شعر النبي صلى الله عليه وسلم بضيق الصدر لما ذكرنا، ولم يعلم صلى الله عليه وسلم أنه جاء ليتعلم منه، فقوله تعالى “وما يدريك لعله يزكى أو يذكر فتنفعه الذكرى” صريح في أنه عليه السلام لم يعلم أنه جاء ليتزكى، وإنه لمن المستحيل أن يعبس النبي صلى الله عليه وسلم في وجه من جاء يتزكى، والقرآن نفسه يأبى ذلك.
قالوا: فكيف تؤول الأخبار الواردة في ذلك؟ قلت: الصحيح منها ما رواه مجاهد، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم مستخليا بصنديد من صناديد قريش وهو يدعوه إلى الله وهو يرجو أن يسلم إذ أقبل عبد الله ابن أم مكتوم الأعمى، فلما رآه النبي صلى الله عليه وسلم كره مجيئه وقال في نفسه: يقول هذا القرشي: إنما أتباعه العميان والسفلة والعبيد، فنزل الوحي عبس وتولى إلى آخر الآية.
فظاهر من قول مجاهد أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يعلم أنه جاءه ليتزكى، فمجيئه في غير وقت المجيئ ينبغي أن يكره.
فاعلموا أن هذه السورة فيها دلالة على عظمة خلق النبي صلى الله عليه وسلم، وحرصه على هدى الناس، وفيها زجر للكفار صرفا للخطاب عنهم لأنهم لا يستحقون ذلك، وفيها إظهار علو منزلة المؤمنين على صناديد قريش.
قالوا: وهل تأويل آخر للآية؟ قلت: نعم، فإنه يحتمل أن يكون فاعل عبس هذا الصنديد من قريش، ولكني أفضل أن أرجئ هذا التأويل لوقت آخر.
قالوا: فما توصينا؟ قلت: أوصيكم أن تعنوا بتدبر كتاب الله تعالى العناية اللائقة به منزهين أنفسكم عن الميول الطائفية والاتجاهات المذهبية:
تقول نساء الحي تطمع أن ترى
محاسن ليلى مت بداء المطامع
وكيف ترى ليلى بعين ترى
سواها وما طهرتها بالمدامع
وتلتذ منها بالحديث وقد جرى
حديث سواها في خروق المسامع

واٹساپ کی مثال – ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
واٹساپ كى مثال

از: محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

واٹساپ كى مثال شاهراه عام كى هے، جس طرح شاهراه عام پر نيكـ وبد، مسلمان وكافر، مؤمن ومشركـ، صالح وفاسق، اور دوست ودشمن هر طرح كے لوگ چلتے هين، اسى طرح واٹساپ پر اچهى برى، مفيد ومضر، متعلق وغير متعلق، علمى وغير علمى هر قسم كى تحريرين آتى هين.
شاهراه عام پر اچهے لوگ آپ كو مل جائين تو انهين سلام كرتے هين، اور اگر آپ كے پاس وقت هو تو ان سے استفاده كرتے هين، اسى طرح واٹساپ پر اچهى تحريرين نظر آئين تو ان كى قدر دانى كرين، اور اگر وقت هو تو ان سے فائده اٹهائين، لكهنے والون كا شكريه ادا كرين، اور دوسرون كو بهى ان سے مستفيد فرمائين.
اگر شاهراه عام پر غير متعلق انسان مل جائے تو ناگوارى كا اظهار كئے بغير آپ گزر جاتے هين، اسى طرح واٹساپ پر اگر كوئى غير متعلق تحرير ديكهين تو ناگوارى كے اظهار كى ضرورت نهين، بلكه يه سوچكر كه شايد كسى اور كے لئے وه تحرير سود مند هو، يا كم از كم اسے غير متعلق سمجهكر چشم پوشى كرلين.
شاهراه عام پر كوئى غلط يا برى چيز هو، تو آپ شريف انسانون كى طرح نظر انداز كركے آگے بڑهـ جاتے هين (وإذا مروا باللغو مروا كراما) اور اگر آپ كو قدرت حاصل هو تو امر بالمعروف اور نهى عن المنكر كا فريضه خوش اسلوبى، حكمت اور دانائى كے ساتهـ انجام ديتے هين، اسى طرح واٹساپ پر اگر كوئى قابل اعتراض تحرير نظر آئے تو اسے نظر انداز كرين، اور اگر آپ كے اندر صلاحيت هے تو اس پر مثبت، تعميرى اور عالمانه تنقيد كرين.
عالمانه تنقيد وه هے جس مين طعن وتشنيع اور تمسخر واستهزاء كے بجائے خير خواهى كا جذبه هو، جس مين كسى كى نيت پر بلا وجه حمله نه هو، اور جس مين مقدمات ونتائج كے درميان عقلى ربط هو.
غير علمى تنقيد غيبت اور ايذا رسانى كے زمرے مين آتى هے، جس كا اصل نقصان خود تنقيد نگار كو هوتا هے، وه خدا اور اس كے بندون كى نگاه مين گر جاتا هے، اس كى نيكيان دوسرون كے حصے مين آتى هين، اور دوسرون كى برائيان اس پر لاد دى جاتى هين، اور اس كا معاشرتى نقصان يه هوتا هے كه تعلقات خراب هوتے هين، ايكـ دوسرے سے بد گمانى پيدا هوتى هے، حسد ونفرت كے جذبات پيدا هوتے هين، اور بات كهلم كهلا دشمنى تكـ پهنچ جاتى هے.
اپنے اندر صبر اور تحمل مزاجى پيدا كرين، اور شرافت وتهذيب كا دامن كبهى نه چهوڑين، بلكه كوشش كرين كه اخلاقى قدرين آپ كے اندر روز بروز ترقى كرتى رهين.
واٹساپ كے ممبران كى مثال ايكـ خاندان كے افراد كى هے، جن كے تعلقات كى بنياد باهمى محبت اور احترام پر هے، بات بات پر گروپ سے نكل جانا، يا نكلنے كى دهمكى دينا جذبات سے مغلوب هونے اور عقل كى كمزورى كى علامت هے.
الله تعالى هم سب كو روا دارى، شائستگى، بردبارى اور دوسرے محاسن ومكارم كو فروغ دينے كى توفيق عطا فرمائے.

کمیں مار آستین – ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
كميں مار آستيں

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

شيخ سعدى عليه الرحمة نے گلستاں ميں ايك واقعه لكها ہے كه ايك بهكارى كو ايك فوجى نے كسى وقت پتهر مارا، وه بهكارى اس سے بدله لينے كى پوزيشن ميں نہيں تها، تا ہم اس نے وه پتهر اٹها كر اپنے تهيلے ميں ركه ليا، خدا كا كرنا ايسا ہوا كه حاكم وقت اس فوجى پر كسى وجه سے ناراض ہوگيا اور اسے اس نے ايك كنويں ميں قيد كرديا، بهكارى كو اس كا علم ہوا تو اس نے اسى پتهر سے جاكر فوجى كو مارا، كنويں كے اندر سے آواز آئى كه وه كون بد بخت ہے جسے ميرى اس حالت پر بهى رحم نہيں آيا؟ بهكارى نے كہا كه يه وہى پتهر ہے جس سے تم نے مجهے فلاں دن مارا تها، اسے ميں نے آج كے لئے چهپا ركها تها ۔
قرآن كريم ميں الله تعالى نے يوسف عليه السلام كے بهائيوں كا واقعه لكها ہے كه حسد وجلن سے وه اپنے بهائى كى جان كے درپے ہوگئے اور انہوں نے يوسف عليه السلام كو ايك كنويں ميں ڈال ديا، جب يوسف عليه السلام كو انتقام لينے كا موقع ملا تو انہوں نے “لا تثريب عليكم اليوم يغفر الله لكم” كہ كر انہيں معاف كرديا، يہى طريقه نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے فتح مكه كے وقت اپنايا ۔
يه دو كردار ہيں، ايك يوسف عليه السلام كا شريفانه نمونۂ اخلاق، دوسرا اس گداگر كا لئيمانه جذبۂ انتقام ۔
كمينے لوگ ہر عہد ميں رہے ہيں، وه پتهروں سے بهرے تهيلے لے كر گهومتے رہتے ہيں، جہاں ان كو موقع ملتا ہے انتقام لينے سے نہيں چوكتے، اگر يه انتقام كسى ايك فرد تك محدود ہو تو شايد اسے گوارا كرليا جائے، اور اسے اس قدر برا نه سمجها جائے، ليكن صد افسوس! كچه ايسے كمينے بهى دنيا ميں بستے ہيں جو كسى كے خلاف اپنے انتقام كى آگ اس وقت بهى مشتعل ركهنے سے باز نہيں آتے جبكه اس انتقام كى زد ميں كوئى اداره ہو،پورى قوم ہو اور پورى ملت ہو ۔
يه كمينے وه ہيں كه اگر دشمنى ونفرت كى چنگارى ان كے اندر بيٹهه گئى تو پورا ملك تباه كرديں ، اگر كرسى سے انہيں محروم كيا گيا تو كرسى توڑ ديں، اگر كسى تنظيم ميں ان كو وه مقام نہيں ملا جس كے وه متمنى ہيں تو اسے نيست ونابود كر ڈاليں، اگر كسى اداره كے ذمه دار وں سے انہيں شكايت ہوئى تو ان كا جوش انتقام اس قدر بڑهے گا كه موقع بے موقع اس اداره كو نقصان پہنچانے اور اسے ايك نا ختم ہونى والى كشمكش ميں جهونكنے سے دريغ نہيں كريں گے ۔
يه قوم فرومايگاں اپنے انتقام ميں اس قدر اندهى ہوتى ہے كه كسى اچهى بات كا بهى ايسا غلط مطلب نكال لے گى جو كسى كے وہم وگمان ميں نه ہو ۔
منتقم مزاج شخص وه حيوان لئيم ہے جس ميں شيطان حلول كرگيا ہو، اس كے پاس ضمير نہيں، اس كا دل نجس، اس كا دماغ ناپاك، اس كى زبان گندى، اس كے ذہن ميں صرف وہى لغو خيالات آتے ہيں جن سے شر اور آفت كى آفرينش ہو، اس نے ہر عہد ميں اپنى ملت كى بيخ كنى كى ہے، اپنى ہى قوم كو تباه كيا ہے، يہى لوگ كبهى ابن العلقمى بن كر بغداد كى بربادى كا نظاره كرتے ہيں، كبهى مير جعفر ومير صادق بن كر غدارى كى وه مثال قائم كرتے ہيں جس سے ابليس كو بهى شرم آئے ۔
ملت اسلاميه ہنديه آج جس حالت سے گزر رہى ہے ضرورت تهى كه پورى مسلم قوم وطن كى حفاظت كے لئے متحد ہوتى، اپنے سارے اختلافات بهلا كر مسلمان اداروں اور تنظيموں كا دفاع كرتى، ليكن صد افسوس اور صد محرومى كه ہمارے اندر وه كمينے بيٹهے ہوئے ہيں جو كبهى دار العلوم ديوبند پر كيچڑ اچهالتے ہيں، اس كى نيكنامى كو متاثر كرتے ہيں، اور اس كے برے دن ديكهنے كے متمنى ہيں، كچه لئيم دار العلوم ندوة العلماء سے خار كهائے بيٹهے ہيں اور اسے گزند پہنچانے كا كوئى موقع ہاته سے نہيں جانے دينا چاہتے، ايسے بهى ہيں جو تبليغى جماعت جيسى بے ضرر جماعت كونشانه بنا رہے ہيں، اور كچه جماعت اسلامى اور جماعت اہل حديث سے انتقام لينے كے در پے ہيں ۔
وه قوم كہاں سے پنپ سكتى ہے جس ميں مار آستيں اتنى بڑى تعداد ميں ہوں، يه وه ہيں جو سانپ سے زياده زہريلے، بچهو سے بڑهكر ڈنك مارنے والے، اور بهيڑيئے سے زياده خخونخوار ہيں، ان كے اندر روح درندگى وسبعيت ہے، اور نفس بہيمى وشيطنت، ان كے پاس بے ضميرى، حسد، جلن اور فرومايگى كے سوا كچه بهى نہيں، سانپ كا زہر دوسروں كے لئے، درندوں كے خونى پنجے غيروں كے لئے، ليكن يه لئيم وه دنى كائنات ہے جو اپنے ہى ہمجنسوں كو زہر دينا چاہتى ہے اور ان پر اپنى خونخوارى كى مشق كرنا چاہتى ہے، بلكه ان كے ڈهانچے چبانے سے باز نہيں آتى، يه دنيا پر بسنے والى وه مخلوق ہے جس كے لئے دنيا كى زبانوں كے سب سے زياده گندے اور بدبو دار الفاظ بهى استعمال كريں تو اس كى كمينگى كے بيان كے لئے ناكافى ہو ۔
اے قوم كے لوگو خدا كے واسطے اپنے نفع ونقصان كو پہچانو، ان خود غرض كمينوں كو تنہا كردو، ان بے مہر لئيموں كو ننگا كردو، اپنے سارے اختلافات پس پشت ڈال كر ملت كى بہى خواہى كے لئے متحد ہوجاؤ، اگر تم نے اس نازك موقع پر اپنے ملى شعور كا ثبوت ديا ، اور تمہيں يقينًا ايسا كرنا چاہئيے، تو خدا تم سے راضى ہوگا، اس كى مدد آئے گى اور تمہيں كوئى نقصان نہيں پہنچا سكے گا ۔

منہ پھیر لو – ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
منه پهير لو

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

دل جو تها اك آبله پهوٹا گيا
رات كو سينه بہت كاٹا گيا
گاؤں ميں جب كوئى جانور مرتا ہے تو آبادى اور كهيتوں سے پرے كسى بنجر زمين پر اسے پهينك ديتے ہيں، چيل اور گِدهہ آ پہنچتے ہيں، اور مزه لے لے كر اسے كها تے ہيں، هم لوگ بچپن ميں چيل اور گِدهوں كى بهيڑ سے سمجهه جاتے تهے كه كوئى مردار پهينكا گيا ہے، اور اس طرف جانے سے بچتے تهے ۔
كل رات نو بجے كے قريب دار العلوم ندوة العلماء، لكهنؤ كى سامنے كى چہار ديوارى پر كچه موم بتياں جلائى گئيں، مجهے اور اسى طرح عام ندويوں بلكه عام مسلمانوں كو اس كى خبر اس وقت ہوئى جبكه مردار كهانے والے انسان نما چيل اور گِدهہ اس پر ٹوٹ پڑے، اور اس سے اپنى بهوك مٹانے لگے، ديكهتے ديكهتے ان كى بدبو ہر طرف پهيل گئى، غلاظتوں كے ناپاك دفتر تيار كئے گئے، اور ايسى عفونت اٹهى جو سنڈاس سے بهى بد تر تهى، زميں پر زلزله برپا گيا اور فرشتوں كو شرمانے پر مجبور كيا گيا، كائنات كى وسيع فضا ميں خدا كے بندوں كا سانس لينا دو بهر ہوگيا ۔
مجه سے ميرے كچه دوستوں نے كہا كه ميں اس پر كچه لكهوں، ميں نے سوچا ہر چيز پر لكهنا صحيح نہيں، چيلوں اور گِدهوں كا كام مردار كهانا ہے، دو ايك روز ميں كوئى اور مردار مل جائے گا اس پر ٹوٹ پڑيں گے، اور اگر كوئى مردار نه بهى ملا تو اپنى بهوك مٹانے كى خاطر اپنے قلم فريب كار اور اپنى زبان نيش دار سے نئے مردے ايجاد كر ليں گے، گاؤں ميں بهى كسى نے مردار كهانے والے جانوروں كو كبهى كوئى نصيحت نہيں، البته عام لوگوں كو تاكيد ہوتى تهى كه دو چار روز تك اس علاقه سے دور رہيں كيونكه بدبو سے اذيت ہوگى اور مشك وعنبر سے بهى اس كا ازاله آسان نه ہوگا ۔
ميرے ذہن ميں آيا كه ان چيلوں اور گِدهوں كو سمجهانا مناسب نہيں، ناپاكوں سے پاكى كى اميد نہيں، ستمگروں سے مہر كى توقع نہيں، ليكن عام مسلمانوں كے لئے يه واضح كرنا ہمارا فرض ہے كه ايسے حالات ميں كيا كريں، قرآن كريم ميں بهى افواه پهيلانے والے فاسقوں سے خطاب نہيں ہے، بلكه اہل ايمان سے خطاب ہے كه ان كے شر سے بچيں، فرمايا:” يا ايها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا أن تصيبوا قوماً بجهالة”، اس مضمون كى متعدد آيتيں ہيں، اور حديثوں ميں بهى اہل اسلام كو منافقين اور شر پسندوں كے فتنوں سے دور رہنے كى تلقين كى گئى ہے ۔
اہل ايمان اپنا وقت كار آمد چيزوں ميں لگاتے ہيں، خدا كى بندگى كرتے ہيں، ذكر كرتے ہيں، قرآن كريم كى تلاوت كرتے ہيں، طلب علم ميں مشغول ہوتے، معيشت وتجارت پر توجه ديتے ہيں، اور دوسرے دنيا وآخرت كے نفع بخش كاموں ميں لگتے ہيں، وه فضول باتوں پر دهيان نہيں ديتے، افواہوں پر كان نہيں لگاتے، اور مسلمانوں كا گوشت كها كر اپنے بد طينت ہونے كا اعلان نہيں كرتے ۔
اے ميرے اہل ايمان بهائيو! ذرا سوچو، جس اداره ميں توحيد كى تعليم ہو رہى ہے، جہاں ہمه وقت قال الله وقال الرسول كى صدائيں گونجتى ہيں، جہاں كے علمائے ثقات نے سيرت النبى لكهى، ارض القرآن تصنيف كى، سيرت الصحابه والتابعين تحرير كى، جہاں سيرت سيد احمد شہيد لكهى گئى، جہاں كے فارغين ہندوستان كے گوشه گوشه ميں دين كى خدمت كر رہے ہيں، جہاں كے سند يافته دور دراز ملكوں ميں دعوت وتبليغ كا كام كر رہے ہيں، جن كى كوششوں سے مسلمانوں كى اصلاح ہو رہى ہے اور غير مسلم حلقه بگوش اسلام ہو رہے ہيں، كيا وه اداره چند لمحوں ميں شرك كا علمبردار بن گيا؟ ۔
رائے بريلى ميں رہنے والے اس سن رسيده پاكباز وصاف دل، وارث تحريك توحيد وسنت، جانشين اہل صلاح وتقوى پر شرك كى تہمت دهرى جانے لگى، وه جس كى راتيں ياد الہى ميں گزرتى ہيں، جس كے دن تعليم وتربيت ميں بسر ہوتے، جو آه سحر گاہى ميں مست ہے، جس كى خلوت خوش، جس كى بزم خوش، جو مبارك وميمون ہے، جو سعيد وكامران ہے، جسے ديكهكر خدا كى ياد آتى ہے، جس كى صحبت سے باطن كى تاريكياں دور ہو جاتى ہيں، جو اس عہد سيادت ظلم وظلام ميں مينارۂ ہدايت ہے، جو اس وقت ملت بيضا كى آبرو ہے، جس كا سينه سوز والم سے داغ داغ ہے، جس كا اندروں درد وغم سے فگار ہے، اور تمہارى سادگى كه تم نے اس بيہودگى پر يقين كر ليا! كيا تم واقعى الله كے نيك بندوں كو تكليف پہنچا كر خوش ہوتے ہو؟ كيا تم بنى اسرئيل كى اس سنت پر گامزن ہو جس سے تمہارے پروردگار نے يه كہكر روكا تها “لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها”؟ كيا تم سورۂ نور كى وه آيت بهول گئے جس ميں تمہيں يه ہدايت كى گئى ہے كه جب اس طرح كى فتنه انگيز باتيں پهيلائى جائيں تو تم اپنے مسلمان بهائيوں اور بہنوں سے حسن ظن ركهو اور كہو كه يه سراسرافترا اور افك مبين ہے ۔
كيا وه ضرب المثل تمہيں ياد نہيں: “نیش عقرب نه از ره کین است، اقتضای طبیعتش این است”، يعنى بچهو كا ڈنك كسى دشمنى كا نتيجه نہيں ہوتا، بلكه ڈنك مارنا اس كى فطرت كا تقاضا ہے، تم ان منافقين كى باتوں پر دهيان نه دو، يه آج كسى كو ڈنك ماريں گے، كل كسى اور كو، ان كى فطرت ہى ڈنك مارنا ہے، ان ميں اور بچهو ميں ايك فرق ہے، بچهو كسى دشمنى اور نفرت سے ڈنك نہيں مارتا، يه وه نفاق پيشه ہيں جن كے دل گندے ہيں، دشمنى اور نفرت سے پر ہيں، ان كو ہر اس بات ميں مزه ملتا ہے جس سے كسى كو تكليف پہنچے، چهوڑ دو ان كو ان كے حال پر كه ان كى منزل مقصود كعبه نہيں، يه صرف بدبو اور غلاظت كے پجارى ہيں، ان كے لئے مرده لاشوں سے بهرا كوئى مندر بنا دو جہاں يه اپنى بهوك مٹائيں ۔
اے ايمان والو! مجهے ان منافقين سے بات نہيں كرنى ہے، بلكه تم ميرے اپنے ہو، اور ميں خود كو تمہارا ايك فرد سمجهتا ہوں، دنيا جہالتوں كى تاريكيوں ميں ڈوب جائے، شر انگيزى فيشن بن جائے، اور فتنه پرورى كو ہنر سمجها جانے لگے تو اس سے منہ پهير لو، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے سامنے لوگ زنا كا اقرار كرتے تو آپ منه پهير ليتے، وه دوسرى طرف سے آتے، پهر بهى آپ منه پهير ليتے، تيسرى بار بهى آپ اعراض كا معامله كرتے، چوتهى بار ايسا كرنے پر انہيں عبرت ناك سزا ديتے، اور جب آپ سزا دينے پر قادر نہيں تهے تو صرف منه پهيرنے پر اكتفا كرتے، اور الله بحكم “إنا كفيناك المستهزئين”، و”والله يعصمك من الناس” آپ كى حفاظت فرماتا، تم بهى ان مردار كهانے والوں سے دور رہو، ان كو كسى بنجر علاقه ميں تنہا چهوڑ دو، بے بركتى ان كے قدم چومے گى، خير سے وه محروم ہوں گے، اور تم اگر اعراض كرو گے تو تمہيں بركتوں سے نوازا جائے گا، اور رحمت ومغفرت كے دروازے تمہارے لئے كهول ديئے جائيں گے ۔

جب كتے كو بلى كہا گيا – دار العلوم ندوة العلماء كے طلبہ سے بات چيت – از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم جب كتے كو بلى كہا گيا
دار العلوم ندوة العلماء كے طلبه سے بات چيت

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

آپ اس وقت اپنے گهروں ميں محبوس ہيں، باہر كى دنيا سے كٹے ہوئے ہيں، نه رشته داروں اور دوستوں كى ملاقات، اور نه مہمانوں كى زيارت اور خاطر ومدارات ، كہيں آنا جانا نہيں، فرصت كى شكايت نہيں، ليكن اس كے باوجود وقت برباد ہوسكتا ہے اور ديكهتے ديكهتے گزر جائے گا، اس كى ايك بنيادى وجه يه ہے كه آپ اپنے ماحول سے متاثر ہوكر عام لوگوں كے مشغلوں كو اپنے لئے دلچسپ سمجه سكتے ہيں، گپ بازى اور سوشل ميڈيا پر آواره گردى آپ كى زندگى كم كر سكتى ہے، آج ميں آپ سے عرض كرنا چاہتا ہوں كه خود كو اس سطح عام سے بلند كريں، غرور جبه ودستار كا شكار نه بنيں، يه سوچ ليں كه آپ كو القاب واعزازات مطلوب نہيں، وه چيزين جنهين دنيا دار عزيز ركهتے ہيں آپ ہر ايسى متاع سے اعراض كريں، اور اپنى قيمت پہنچانيں، دنيا آپ كے فضل كو تسليم كرے گى، اور آپ اس بلند مقام پر پہنچ سكتے ہيں كه دشمن بهى آپ پر انحصار كريں، آپ كى طرف رجوع كريں، اور آپ كے كمالات سے استفاده كے لئے تعصب ونفرت كى ديواريں ہى نہين بلكه اپنے اصول وقوانين بهى توڑ ديں، اس حقيقت كو اچهى طرح سمجهنے كے لئے ايك قصه سنيں۔
كيمبرج كے ايك كالج كا نام ہے سلون كالج (Selwyn College)، اس كى تاسيس سنه 1882م ميں ہوئى تهى، اس كالج كے ايك ماسٹر (آكسفورڈ اور كيمبرج ميں كالج كے صدر كو ماسٹر كہتے ہيں) تهے وليم اوين چادوِك (William Owen Chadwick) (1916-2015)، ان كو ايك اديب اور مذاہب واديان كے مؤرخ كى حيثيت سے نمايان شہرت حاصل ہوئى، چادوك صاحب كو آكسفورڈ اور كيمبرج وغيره ميں بہت سے اعزازات اور عہدوں سے نوازا گيا، ا ن كى اہميت كے پيش نظر ان كو سلون كالج كا ماسٹر بهى منتخب كيا گيا، اور ان كى ميعاد بڑى طويل تهى، يعنى 1956 سے 1983 تك، جب ان كو كالج كا ماسٹر نامزد كيا گيا اس وقت ان كے پاس ايك كتا تها جو انہيں بہت عزيز تها، كالج كى رہائش كے اندر كتا ممنوع تها، انہوں نے كالج كى شورى سے كہا كه وه اس عہده كو اپنے كتے كے ساته ہى قبول كريں گے، ورنه يه عہده انہيں منظور نہيں، كالج كى شورى نے ايك غير معمولى ميٹنگ ميں اس پر غور كيا كه ہميں ان كى ضرورت ہے، ليكن اگر ہم انہيں يه منصب ديتے ہيں تو ہميں اپنا قانون توڑنا پڑے گا، آخر بڑى رد وقدح كے بعد شورى نے يه طے كيا كه چادوك صاحب كى شرط منظور كى جائے، ليكن كالج كے احاطه ميں ان كے كتے كو كتا نه كہا جائے بلكه بڑى بلى كہا جائے، چنانچه انہوں نے اس كالج كى رہائش ميں اپنے كتے كے ساته قيام كيا، اس كتے كو بلى كہا جاتا تها، جبكه كيمبرج كے دوسرے كتوں كو يه رتبۂ بلند نه مل سكا۔
كتے كو بلى كہا جانا اردو داں طبقه كے لئے كوئى نئى چيز نہيں، كيونكه بر صغير ميں گدہے كو باپ تك كہے جانے كى روايت رہى ہے اور اب تك يه روايت جارى ہے۔
اس قصه سے يه استشہاد مقصود ہے كه اگر آپ كمال پيدا كريں تو ہر قوم آپ كا اعتراف كرے گى، اور ہر اداره وملك ميں لوگ آپ كى شرطوں پر آپ سے معامله كرنے پر مجبور ہوں گے۔
آپ عمر كے جس مرحله ميں ہيں، يه بہت قيمتى مرحله ہے، اس ميں آپ علم وہنر كے مختلف ميدانوں ميں عظمت كى بلنديوں كو چهو سكتے ہيں، شرط يه ہے كه آپ چند كليوں پر قناعت نه كريں، آپ صحافت وسياست كى تنگنايوں ميں نه بهٹكيں، آپ اوپر اٹهيں، شہرت كى تمنا سے منه موڑيں، اور يه طے كر ليں كه آپ كو كسى نه كسى موضوع ميں اختصاص پيدا كرنا ہے اور سب سے اوپر جو جگه خالى ہے اسے پر كرنا ہے، اور سچ يه ہے كه سب سے اونچى جگه ہميشه خالى رہتى ہے۔
اسلامى علوم ميں سب سے زياده اہميت علوم قرآنى كو حاصل ہے، اس ميدان ميں مولانا حميد الدين فراہى رحمة الله عليه آخرى شخص تهے جو درجۂ امامت پر فائز تهے، ان كے بعد پورے عالم اسلام ميں كوئى دوسرا شخص نہيں آيا، آپ ميں سے جس كو بهى قرآن كريم اور علوم قرآنى سے دلچسپى ہے يه طے كرے كه ميرى زندگى ميں كتنى بهى دشوارياں آئيں، مجهے كتنے امتحانات سے گزرنا پڑے، ليكن ميں اپنے مطمح نظر سے پيچهے نہيں ہٹوں گا اور قرآنيات كے ان پهلوؤں پر كام كروں گا جو ابهى تشنه ہيں۔
حديث كا ميدان بہت وسيع ہے، حديث كى تصحبيح وتضعيف، حديث اور حديث كى كتابوں پر كئے جانے والے اعتراضات كے جواب، اور بہت سے ايسے موضوعات ہيں جن پر كام كى شديد ضرورت ہے، شيخ محمد يونس جونپورى رحمة الله عليه نے صرف بخارى فہمى ميں وه مقام پيدا كيا جس كى نظير عالم اسلام ميں نہيں تهى، اب ان كے بعد وه جگه بهى ويران ہے، آپ بخارى شريف كے علاوه حديث كى دوسرى كتابوں ميں مہارت پيدا كريں، علل ورجال ميں دسترس حاصل كريں، مستشرقين اور تجدد پسندوں كے اعتراضات كا جائزه ليں۔
بر صغير ميں مدتوں سے فقه كے ميدان ميں تحقيق كا دروازه بند كرديا گيا، آخرى محقق علامه عبد الحى فرنگى محلى اور مولانا رشيد احمد گنگوہى رحمهما الله تهے، ان كے بعد زياده تر لوگ يا تو ناقل فتاوى ہيں، يا مقلد محض ، يا متاخرين كى آراء كے درميان ترجيح كو ہى غلطى سے تحقيق سمجه بيٹهے ہيں، آپ امام محمد كى كتابيں، امام شافعى كى كتاب الام، ان كا الرسالة، ابن حزم كى المحلى، ابن رشد كى بداية المجتهد، امام كاسانى كى بدائع الصنائع، ابن قدامة كى المغنى وغيره پڑهيں، اس كے بعد عصر جديد ميں علامه رشيد رضا اور شيخ يوسف القرضاوى كے فتاوى كا غائرانه مطالعه كريں، اور كوشش كريں كه ہر فقہى مسئله اور نئى تحقيق كو قرآن كريم اور سنت نبويه سے مربوط كريں، اور نوازل وطوارئ كو استثنائى معاملات سمجهكر مسلمانوں كے لئے وه حل تلاش كريں جو سلف صالح كا امتياز رہا ہے۔
فكر اسلامى كا حال مزيد ابتر ہوتا جا رہاہے، اس ميدان ميں شاه ولى الله دهلوى كے بعد مولانا ابو الكلام آزاد، مولانا عبيد الله سندهى، مولانا ابو الاعلى مودودى، مولانا ابو الحسن على ندوى اور محمد الغزالى نے بہت سى رہنمايانه تحريريں چهوڑيں، ليكن ضرورت ہے كه ہر دور ميں سمجهدار لوگ آگے بڑهيں، اور اپنے زمانه اور حالات كے لحاظ سے نئے چيلنجوں كو سمجهيں، اور امت كى ايسى تربيت كريں كه اس كا ايمان مستحكم ہو، كتاب وسنت كے حقائق پر اس كا يقين پخته تر ہو، اور جديد افكار وخيالا ت كے مقابله ميں خود اعتمادى كى خصوصيات كا حامل اور احساس كمترى سے محفوظ موقف اپنائے، اس وقت اس ميدان ميں بهى سناٹا ہے۔
سيرت وتاريخ ميں علامه شبلى اور علامه سيد سليمان ندوى كے بعد بحث وتحقيق كا سلسله منقطع ہوگيا ہے، جو نئى چيزيں آ رہى ہيں وه تاريخ نويسى كے اصول كى تطبيق سے بفراسخ دور ہيں، آپ اپنے تاريخى ورثه كے مطالعه اور ابن خلدون كے مقدمه كو بغور پڑهنے كے ساته محدثين كے قواعد توثيق كو سمجهنے كى كوشش كريں، اور مغرب كے اصول تاريخ نويسى سے بهى فائده اٹهائيں، اس وقت جديد انداز سے عالم اسلام كى محققانه تاريخ لكهنے كى ضرورت شديد سے شديد تر ہوتى جا رہى ہے۔
عربى ادب ميں على طنطاوى كے بعد اور اردو ادب ميں مولانا عبد الماجد دريابادى كے بعد زوال نماياں ہے، دونوں زبانوں كے ادب ميں آپ كے اسلاف نے جو ترقى كى وه آپ سے مخفى نہيں، آپ كا فرض ہے كه اس ميراث كى نه يه كه حفاظت كريں، بلكه ادب وتنقيد ميں نئے رجحانات سے دنيا كو آشنا كريں، اور يہى حال فلسفه، منطق اور علم كلام وعقائد كا ہے، ماہرين سے ان سارے علوم وصناعات كا بيشۂ تحقيق خالى ہے۔
آپ سے گزارش ہے كه حوصله پيدا كريں، ہمت بلند كريں، اور ايسى محنت كريں كه فرہاد كى داستان قصۂ پارينه بن جائے، ليكن شرط يہى ہے كه ايك اور صرف ايك دلآرام كا انتخاب كريں، اسى كے ہوكے ره جائيں، سارى محبوباؤں سے نگاه بند كرليں، دنيا بيزارى سے رشته قائم كريں، نا آسودگى سے محبت كريں، جان كا زياں گوارا كريں، مژدۂ عشرت پر كان نه دهريں، اور نه لفظ سكون ے انس پيدا كريں، آپ طائر بے اماں بن جائيں، اور يسر وسہولت سے گزر جائيں، آپ كے كمره ميں كتابوں كے سوا كچه نظر نه آئے، اور كمره كے فرش پر ہر طرف اوراق بكهرے ہوں، يہاں تك كه آپ كے والدين اور اعزه واقارب كہنے لگيں كه ان كتابوں اور ان اوراق نے آپ پر بہت ظلم كيا ہے۔

المعدِّلون المعاصرون – بقلم: د. محمد أكرم الندوي أوكسفورد

قياسي

بسم الله الرحمن الرحيم

المعدِّلون المعاصرون

بقلم: د. محمد أكرم الندوي
أوكسفورد

قالوا: قد بعثت سنة السماع والقراءة والإجازة هذه الأيام بعثة جديدة، وشهدت حِلَق الحديث وعلومه نهضة يندر لها نظير، واشتدت رغبة الأيفاع الناشئين في الطلب. قلت: يسرني إحياء هذه المجالس وبث الروح فيها، والذي يكدره أنه أدى إلى فوضى واستهتار. قالوا: ما الذي عنيت بما زعمت من فوضى واستهتار؟ قلت: قد برز على الساحة شيوخ يدعون سماعات وإجازات كاذبة، وظهر طلاب متهورون يجرون وراء كل من يتكلف علما لا يحمله، وينتحل إسنادا مستحيلا، ويتظاهر بعلو هو أشبه بالكذب.
قالوا: أنتم المسؤولون عن هذا الهرج والمرج. قلت: وكيف ذلك؟ قالوا: كان الطلاب في القديم يرحلون من بلدانهم لطلب الحديث، وهم لا يميزون بين ثقات الشيوخ وضعفائهم، وكان في بغداد والبصرة والكوفة وسائر الأمصار أئمة يعدّلون ويزكُّون ويجرحون ويضعفون، فكان أولئك الطلاب يغشون مجالس هؤلاء الأئمة ويسألونهم عن الشيوخ، فكانوا – وهم أمناء نصحاء – يحثونهم على الأخذ من العدول الأثبات ويدلونهم على أسماء الحفاظ المتقين الأخيار، ويحذرونهم من الدجالين والكذابين والوضاعين ورواة الأخبار الباطلة والواهية والأحاديث المنكرة الشاذة.
قالوا: ولا يهتدي الطلاب في أيامنا هذه إلى مزكين أمناء يدلونهم على الشيوخ معدلين لهم وجارحين، فلماذا لا يتقدم شيوخ عصرنا لمساعدة الطلاب؟ قلت: الشيوخ المتصفون بالاستقامة والعدالة والضبط والإتقان يسوءهم أن يشار إليهم بالبنان، وهم يرجحون أن يعيشوا حياة الخمول والانضواء، قالوا: فإذن لا ينبغي لك أن تشكو من الفوضى والاستهتار.
قلت: قد اقتنعت بأنه قد آن الأوان أن يتقدم المعدلون المزكون من أهل عصرنا ليفوا بهذه الحاجة الملحة ويملأوا الفراغ المشين. قالوا: فأخبرنا عنهم، قلت: سأخبركم عن أسمائهم وإن سخط علي أصحابي متبرمين بي وقالين لي.
وقلت: المعدلون الأمناء في عصرنا نوعان: معدلون عارفون بشيوخ عامة البلدان، ومعدلون متخصصون في قطر دون قطر.
فالنوع الأول من المعدلين الذين اتسعت معرفتهم بالشيوخ والأسانيد العالية والنازلة هم: الشيخ أحمد عاشور، والشيخ محمد زياد التكلة، والشيخ حامد أكرم البخاري، والشيخ محمد عمر النشوقاتي، والشيخ مجد بن أحمد مكي، والشيخ محمد بن عبد الله الرشيد، والشيخ نظام اليعقوبي، والشيخ صفوان الداودي، والشيخ محمد بن ناصر العجمي، والشيخ عبد الله التوم، والشيخ محمد بن أبي بكر باذيب، والشيخ خالد السباعي.
والنوع الثاني هم المتخصصون بمعرفة أسانيد قطر دون قطر، ويشاركونهم الأولون، فأعيد أسماءهم في مواضع تليق بهم.
فلأهل المغرب وتونس والجزائر وسائر بلاد إفريقيا: الدكتور حمزة الكتاني، والشيخ خالد السباعي، والشيخ محمد ححود التلمساني.
ولأهل بلاد الشام: الشيخ محمد عمر النشوقاتي، والشيخ محمد وائل الحنبلي، والشيخ محمد الشعار، والشيخ محمد الحسني، والشيخ محمد زياد التكلة، والشيخ محمد بن عبد الله الرشيد.
ولأهل السعودية ودول الخليج ومصر: الشيخ أحمد عاشور، والشيخ محمد زياد التكلة، والشيخ مجد مكي، والشيخ محمد بن عبد الله الرشيد، والشيخ حامد أكرم البخاري، والشيخ عبد الله التوم، والشيخ محمد تركي الفضلي، والشيخ ماجد الحكمي، والشيخ عمر حبيب الله، والشيخ أبو المهند، والشيخ أحمد عاصم، والشيخ أبو عبد العزيز المدني.
ولأهل اليمن: الشيخ محمد بن أبي بكر باذيب، والشيخ عادل اليماني الندوي، والشيخ محمد زياد التكلة، والشيخ محمد بن عبد الله الرشيد.
ولأهل الهند وباكستان وبنغلاديش: الشيخ أحمد عاشور، والشيخ محمد زياد التكلة، والشيخ حماد عاشق إلهي، والشيخ ماجد الحكمي، والشيخ عمر حبيب الله، والشيخ عادل اليماني الندوي، والشيخ محمد فيصل البتكلي الندوي، والشيخ ظهور أحمد الحسيني، والشيخ كفاية الله البخاري.
قالوا: هل استقصيت أسماءهم؟ قلت: لا، ولعلي أضيف إليهم في وقت لاحق آخرين ممن غابت أسماؤهم عني، وأرى أن فيما قدمت غنية لكم وكفاية.
قالوا: فما توصي الطلاب؟ قلت: أوصيهم أن يتصلوا ببعض من ذكرت أسماءهم قبل أن يحضروا مجالس الشيوخ الجدد ويستنصحوهم، حتى لا تضيع أوقاتهم، ولا يندموا على إهدار مساعيهم، وبطلان سماعاتهم وإجازاتهم، وأدعو الله تعالى أن يهدينا جميعا سواء السبيل.

شيراز جونپورِ ايران است – از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
شيراز جونپورِ ايران است

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

سنه 1991م ميں آكسفورڈ ميں بحيثيت ريسرچ فيلو ميرا تقرر ہوا، اس دوران جن اہل ادب ودانش سے ميرى رفاقت رہى ان ميں ايك سنجيده اور شگفته مزاج امريكى نژاد ڈاكٹر ڈيوڈ ڈيمرل تهے، ہم نے كئى سال ايك مشتركه علمى پروجكٹ پر كام كيا، ہمارے تعلقات قريبى تهے، ہم ايك دوسرے سے سيكهتے، اور ايك دوسرے كا تعاون كرتے، تفريحى گفتگو ميں كبهى كبهى ريسرچ كے ساتهيوں سے اپنے وطن جونپور كے فضائل بيان كرتے ہوئے شاہجہاں كے اس مشہور مقوله كا حواله ديتا “جونپور شيراز ما است” يا اسے بدل كر كہتا كه “جونپور شيراز ہندوستان است”، تو اس پر ڈيوڈ كہتے كه مقوله اس طرح ہونا چاہئے “شيراز جونپور ايران است” اور اس پر ايك قہقہ بلند ہوتا، اور يه لاله زار محفل كچه دير قائم رہتى، اس كا اندازه نه ہوا كه ميرے يه ساتهى ايقان فرخنده وبرگزيده سرزميں كى عظمت كے قائل ہوئے كه نہيں؟
ڈيوڈ اس وقت يونيورسٹى آف ساؤته كيرولائنا ميں مطالعات مذہبى كے پروفيسر ہيں، انہوں نے نقشبندى سلسله كى كسى غير ہندوستانى شاخ پر ڈاكٹريٹ كى تهى، انگريزى ان كى مادرى زبان ہے، اور بولنے اور لكهنے ميں بلا كى مہارت ہے، اردو تهوڑى بہت جانتے ہيں، فارسى مراجع سے استفاده پر قدرت ہے، اسلامى تہذيب ثقافت سے گہرى واقفيت ہے، اور اس سے ايك قسم كا لگاؤ ہے، تعصب اور ہٹ دهرمى سے پاك ہيں، منصف مزاج اور اعتدال پسند ہيں ۔
ہم بے تكلفى ميں ڈيوڈ كو داؤد كہتے، ان كى طبيعت ميں تواضع كوٹ كوٹ كر بهرى ہوئى تهى، رہن سہن ميں زہد كا غلبه تها، مزاج ميں سادگى تهى، وه خط مستقيم كى شخصيت تهے، ان ميں كوئى پيچيدگى يا ژوليدگى نہيں تهى، تصوف سے يك گونه مناسبت تهى، قوالى بہت پسند تهى ۔
ڈيوڈ سے زياده زاہد ڈيوڈ كى بيوى ڈكسى تهيں، وه بهى امريكه كى رہنے والى تهيں، وه ڈيوڈ سے عمر ميں تقريبا دس سال بڑى تهيں، پہلے ان كى شادى كہيں ہوئى تهى، اس حيات كى يادگار ايك بيٹى بهى تهى، بعد ميں ڈيوڈ سے ملاقات ہوئى، انسيت بڑهى، اور دونوں رشتۂ ازدواج ميں منسلك ہوگئے، ليكن كوئى اولاد نہيں ہوئى، ڈكسى ديكهنے ميں پرانے زمانه كى ديہاتن لگتى ہيں، گاؤں والوں كى سادگى، لباس وزينت سے بے نيازى، ہم دوستوں كے درميان يه بات متفق عليه تهى كه ڈيوڈ نے ڈكسى سے شادى باطنى خوبيوں كى وجه سے كى ہوگى، ميں نے مغرب ميں اتنى ساده اور صاف طبيعت كى كوئى عورت آج تك نہيں ديكهى، حاصل يه كه دونوں مياں بيوى وضع قطع ميں فيشن وغيره كے قائل نہيں تهے، گو دونوں سفيد فام تهے، ليكن ان كو ظاہرى زينت كارى كى اتنى پرواه نہيں تهى، دونوں كے مزاج ميں زنده دلى تهے، وه ہم سے بے تكلف رہتے، اور ان موضوعات پر گفتگو كرتے جن سے ہم كو دلچسپى ہو ۔
ڈيوڈ نے ايك بار ہم ساتهيوں كى اپنے گهر پر شام كے كهانے كى دعوت كى، ڈيوڈ اور ڈكسى نے پرتپاك انداز سے ہنستے ہوئے ہمارا استقبال كيا، گهر ساده تها، اور ماحول مغربى سے زياده مشرقى، كهانے ميں ايك خاص چيز چپاتى تهى جسى انہوں نے اپنے ہاتهوں سے پكايا تها، اس كے علاوه كچه مشرقى اور مغربى ڈشيں تهيں، كهانے كے دوران ڈيوڈ نے قوالى لگا دى، ہم لوگوں نے قوالى كى فضا ميں تفريحى باتوں سے لطف ليتے ہوئے كهانا تناول كيا ۔
ڈيوڈ بہت محنتى تهے، ريسرچ گاه ميں ہمارے كام كا وقت تها صبح نو سے شام پانچ بجے تك، عام طور سے ہم لوگ وقت پر پہنچتے اور پانچ بجتے ہى وہاں سے نكل جاتے، ليكن ڈيوڈ صبح آٹه بجے يا اس سے پہلے ہى پهنچ جاتے، اور شام كو چه بجے تك يا اس كے بعد تك كام ميں لگے رہتے، اكثر ويكنڈ ميں بهى آكر كام كرتے، جس كى انہيں كوئى تنخواه نه ملتى، كام محنت اور لگن سے كرتے، ذمه دارى كا احساس ہر وقت رہتا، وه موڈ كے تابع نہيں تهے، كبهى ايسا نہيں ہوا كه موڈ كا ان كى كار كردگى پر كوئى اثر پڑا ہو، حالانكه يہاں موڈ موسم كى طرح بدلتا رہتا ہے، وه اپنے رويوں ميں بہت نرم تهے، غصه نه كرتے، كسى كى غيبت نه كرتے، اور نه كسى سے حسد اور نفرت، سارے ساتهيوں كا تعاون كرتے، اور كبهى كسى پر كوئى احسان نه جتاتے، ريسرچ ايمان دارى سے كرتے، اس ميں نه كوئى نمائش كرتے، اور نه كوئى خيانت، ميٹنگ ميں دوسروں كے كاموں كى ستائش كرتے، سب كى ہمت افزائى كرتے، اور سب كا احترام كرتے، اور خود كو پردۂ خفا ميں رہتے، ظاہر ہے كه اتنے طويل عرصه تك ايك ساته كام كرنے كى وجه سے سب پر ان كى خوبياں عياں تهيں، ہمارا آپس ميں كوئى اختلاف نہيں ہوا، نه كسى بات پر كوئى ان بن، يا كوئى ناراضگى اور كشيدگى ۔
ڈيوڈ شايد عمر ميں مجه سے دو تين سال بڑے تهى، جس وقت كى بات ہو رہى ہے اس وقت وه بهى جوان تهے، مغرب ميں آزادى بلكه عريانيت كا جو جال ہے وه اس سے اجنبى تهے، كبهى عورتوں كے بارے ميں بات نه كرتے ، بلكه لغو وفضول سے اجتناب ان كى فطرت ميں داخل تها، ميں نے ايك روز پوچها كه جب آپ باہر نكلتے ہيں تو اس دل انگيز شہر ميں نظر پر بار بن جانے والے بے پردگى كے جو مناظر ديكهنے ميں آتے ہيں كيا ان كى طرف كوئى كشش محسوس نہيں كرتے؟ ڈيوڈ نے جو جواب ديا اس نے مجهے كوچه ہائے التفات سے گزر جانے كا سليقه سكها ديا، ڈيوڈ نے كہا كه “ميں جب نفس وخواہش كى بستگى كا سامان ديكهتا ہوں تو يه سوچ كر نگاه پهير ليتا ہوں كه اس سے مجهے كيا سرو كار، يه ميرا مشغله نہيں”، يه جمله كہنا آسان ہے، اس پر عمل مشكل ہے، اس طويل رفاقت ميں جبكه ہمارے ساته كام كرنے والى خواتين بهى ہوتيں، اور آكسفورڈ ميں ہر جگه مرد وعورت كا اشتراك واختلاط ہوتا ہم نے ڈيوڈ كو ہميشه كردار كا پخته پايا، جبكه يہيں وه لوگ بهى بستے جو كشتگان خنجر عشوه وناز تهے، اور جن كى آنكهيں ہلاك سہام نظر تهيں، اور كتنے تهے جو دشت غزالاں ميں غزل خواں ہوگئے تهے ۔
سرديوں كے موسم ميں ہم لوگ آفس پہنچتے ہى ايك ساته چائے يا كافى پيتے، موسم پر تبصره كرتے، ايك دوسرے كى خبر گيرى كرتے، كچه علمى وفكرى باتيں ہوتيں، گرميوں ميں كبهى كبهى ايك ساته ٹہلتے، اور موسم كى رعنائيوں سے لطف اندوز ہوتے، ہائے وه خجسته وه خوش ماجرا روز وشب اب وہم وخواب وخيال ہوگئے، ان ميں ہم معانى واحوال جاں آفريں كا درس ليتے، ڈيوڈ كى گفتگو بہت صاف اور واضح ہوتى، تجزيه نگارى كى صلاحيت اچهى تهى، اس سے ہم كچه سيكهتے، ڈيوڈ كا كہنا تها كه وه مجه سے بهى بہت كچه سيكهتے ہيں، ليكن ميں اسے ہميشه ڈيوڈ كى فطرى تواضع اور كسر نفسى پر محمول كرتا ۔
ڈيوڈ كا يہاں كے ايك مشہور مستشرق (جن كا نام اس وقت لينا مناسب نہيں) سے جن كو شام كے ايك صوفى شيخ نے اجازت دى تهى، شاگردى كا تعلق تها، ميں نے بهى ان سے كچه استفاده كيا، ليكن با قاعده شاگردى نہيں اختيار كى، انہوں نے ايك بار نظرى تصوف ميں ميرا امتحان ليا، ميرے جوابات كى تعريف كى اور تحريرى طور پر مجهے اجازت بهى دى، اس طرح ميں اور ڈيوڈ خواجه تاش ہوگئے ۔
ڈيوڈ سے اسلام كے متعلق تفصيل سے گفتگو ہوتى، وه اسلام كے كسى پہلو كے بارے ميں رائے كام كرنے سے پہلے اس كى تحقيق كرتے، اسلامى عبادات،معاملات اور مراجع كى كتنى كليات وجزئيات ہيں جنہيں ڈيوڈ نے مجه سے اچهى طرح سمجهنے كى كوشش كى، ڈيوڈ نے اسلام كے كسى شعار يا مظہر كى كبهى كوئى تحقير نہيں كى، وه اسلام ہى نہيں بلكه مشرق كى تعريف سے سر شار رہتے، وه كہتے كه آخر سكندر اعظم نے مشرق كا رخ كيوں كيا؟ كيونكه مغرب ميں كچه تها ہى نہيں ۔
مجهے ڈيوڈ كے عقيده كا علم نہيں ہوسكا، تا ہم اس كا يقين ہے كه خدا كا رد لكهنے والے اس شہر ميں وه خدا گزيده تهے، وه اگر عيسائى تهے بهى تو شايد عيسى عليه السلام كى ابنيت كے قائل نه رہے ہوں، مجهے ايسا محسوس ہوتا تها كه وه موحد ہيں، ليكن انہوں نے اسلام قبول نہيں كيا تها، ميں اكثر سوچتا تها كه يه شخص اخلاق ميں اس قدر ممتاز ہے پهر بهى مسلمان نہيں، ميں خدا كا شكر ادا كرتا كه بغير كسى استحقاق كے اس نے نعمت ہدايت بخشى، ميرے دل ميں آج بهى ڈيوڈ كى قدر ہے، ان سے ميں نے قناعت، قلندرانه استغنا، اور ہر حال ميں خوش اور مطمئن رہنے كا ہنر سيكها، دعا ہے كه الله تعالى ہميں ہدايت دے، صراط مستقيم پر ركهے اور ہمارا خاتمه بالخير كرے ۔

معنى الحديث الضعيف – بقلم: د. محمد أكرم الندوي أوكسفورد

قياسي

بسم الله الرحمن الرحيم

معنى الحديث الضعيف

بقلم: د. محمد أكرم الندوي
أوكسفورد

قالوا: قد بينت لنا معنى الحديث الصحيح والحديث الحسن في مقالين لك سابقين فشفيتنا وأوفيت الموضوع حقه، واذكر لنا الآن ما معنى الحديث الضعيف؟ قلت: قد وقع الناس في أخطاء جسيمة من جراء عدم استيعابهم لمعنى الحديث الضعيف، فمنهم من يرده مطلقا، ومنهم من يعامله معاملة الحديث الصحيح والحسن فيقبله مطلقا، ومنهم من يرده في في المسائل والأحكام، ويقبله في الفضائل والترغيب والترهيب.
قالوا: فأي هذه الطوائف تراها مدانية للصواب؟ قلت: كل طائفة من هذه الطوائف أصابت وأخطأت، وبلغ الشر منتهاه إذ أخذت تترامى بعضها بعضا بأنواع من التهم في لين ورفق أحيانا، وفي شدة وغلظة أخرى. قالوا: ما نراك إلا سائرا سيرتها في رمي غيرك بالخطأ ووصف نفسك بالانفراد بالصواب. قلت: أو لو جئتكم بشيء مبين؟ قالوا: فأت به إن كنت من الصادقين. قلت: اسمعوا وعوا:
إن أئمة الحديث علماء حذاق ذوو إتقان وإحكام لصنعتهم، تميزوا بذلك عن غيرهم تميزا ملموسا، اتجهوا إلى الأحاديث، فلم ينسبوا إلى نبيهم صلى الله عليه وسلم منها إلا ما توثقوا من صحته متوفرة فيه الشروط التي قدمناها في بيان معنى الحديث الصحيح، وأما ما لم يتوثقوا من صحته فنظروا فيه نظرة دقيقة فما تحقق لديهم كذبه عدوه موضوعا باطلا، وبقي بين الصحيح والموضوع أحاديث كثيرة سموها ضعافا.
قالوا: فما موقفهم من الضعاف؟ قلت: إن أهل الحديث أفضل البشر عدلا وإنصافا، فلم يحكموا على الضعاف بحكم واحد فيه تعسف وتعنت، بل أعادوا النظر فيها، ودرسوها دراسة متأنية، وصنفوها تصنيفا علميا دقيقا، قالوا: أوضح لنا تصنيفهم البديع الذي لا جور فيه ولا زيغ، ولا إفراط فيه ولا تفريط. قلت: إنهم بذلوا قصارى جهودهم في احتواء مضمون الحديث الضعيف، فقسموه طوائف، ترجع إلى اثنتين: مقبولة ومردودة.
قالوا: ما المقبول منه؟ قلت: هو أربعة أنواع:
النوع الأول: الضعيف الذي صححه الشيخان وأخرجاه في الأصول، وهو الحديث الذي توفرت فيه شروط الصحة، وله طرق كثيرة، وقد يكون في بعضها شيخ فيه شيء من الضعف ينحط به عن درجة الطبقة الأولى من الرواة، وإذ قد ثبتت صحة الحديث من طرق أخرى أخرجاه من طريق هذا الشيخ الضعيف، وهذه عادة البخاري، فإنه يستنبط من الحديث الواحد مسائل كثيرة، ويسوءه أن يخرجه بالإسناد نفسه، فقد يحتاج إلى طريق ذلك المنعوت بشيء من الضعف، ومن أمثلة أولئك الضعفاء إسماعيل بن أبي أويس، والذي لو تفرد بحديث عد ذلك الحديث ضعيفا، ولكن إذا وافق إسماعيل الثقات من أمثال عبد الله بن يوسف التنيسي وعبد الله بن مسلمة القعنبي، فإن البخاري يخرج ذلك الحديث من طريق إسماعيل أيضًا إذا احتاج إليه.
وقد يكون الحديث من صحيفة لها أسانيد صحيحة ثابتة، ورواها شيخ ضعيف عاليا، فمثلا تلقى مسلم صحيفة حفص بن ميسرة بأسانيد من الطبقة الأولى، ولكنها نازلة، ورواها سويد بن سعيد الهروي بعلو، فأخرجها مسلم من طريقه مع ما فيه من الضعف المجمع عليه، والذي سوَّغ لمسلم إتيان ذلك أن الحديث صحيح ثابت من طرق الثقات المتقنين.
وقد يكون ذلك الضعيف ممن يحتمل حديثه في أمور غير دقيقة كفليح بن سليمان.
واعلموا أن الشيخين إنما أخرجا أحاديث الضعفاء في الأصول بشرطين: الأول أن لا يكون الضعف كبيرا، والثاني أن يكون ذلك الراوي الضعيف من شيوخهم، فإنهم أخبر بشيوخهم.
والنوع الثاني: أن يكون للحديث إسناد أو أكثر تتوفر فيها شروط الصحة، فيعتمدان عليها في الأصول، ثم يأتيان إلى أسانيد لتلك الأحاديث، فيها بعض من خف في الضبط، فيخرجانها متابعة، وهذا قليل في صحيح البخاري، وكثير في صحيح مسلم.
والنوع الثالث: أن لا يكون للحديث إسناد صحيح، ولكن له إسناد فيه بعض من خف فيه الضبط، فهذا الذي يسمى الحسن، وإذا تعددت طرقه ترقى إلى درجة الصحيح إلى غيره، وإذا كان الضبط أقل من الحسن وتعددت الطرق ترقى إلى درجة الحسن لغيره، ولا يوجد شيء من الصحيح لغيره، والحسن لذاته، والحسن لغيره في الصحيحين، وأخطأ من قال ذلك، ولعل الذي أوقعه في هذا الوهم هو خلطه للنوعين الأول والثاني بالنوع الثالث.
والنوع الرابع: مراسيل كبار التابعين من أمثال سعيد بن المسيب، فقد عدها جماعة من الفقهاء كمالك وأبي حنيفة وغيرهما صحيحة، وهو المذهب الوجيه.
قالوا: وما المردود من الضعيف؟ قلت: هو أربعة أنواع كذلك:
النوع الأول: الذي في إسناده انقطاع، أو مما رواه الثقات المدلسون معنعنا، فهذا ضعفه مقارب، ويستعمله كثير من الناس في الفضائل والترغيب والترهيب.
والنوع الثاني: الحديث الذي رواه بعض الناس مرفوعا، ولكن ترجح لدى أصحاب الحديث كونه موقوفا، ويحتمل في الفضائل.
والنوع الثالث: الحديث الشاذ، وهو الذي يرويه الثقة مخالفا للثقات، والحديث الشاذ من أخطاء الثقات وأوهامهم، فهذا الحديث لا يجوز العمل به في شيء من الدين، ولا يعتبر به في المتابعات والشواهد، وقد أخطأ بعض الناس إذ استعملوه في المتابعات والشواهد، وهو جهل بصنيع المحدثين، لأن الأخطاء والأوهام وإن كانت من الثقات لا تعاضد شيئا.
والنوع الرابع: المنكر: وهو الحديث الذي رواه الضعيف مخالفا لجماعة أوثق منه، وكذلك الحديث الذي في متنه مخالفة لمعاني القرآن أو السنن الثابتة أو المعلوم بالبداهة أو العقل، وكذلك الحديث الذي يرويه المغفلون. فهذا كله منكر، وهذا النوع شر أنواع الضعاف، وهو قريب من الموضوع لدى أئمة هذا الشأن.
قالوا: قد وعينا ما قلت مقتنعين به، قلت: فاحمدوا الله الذي لا إله هو، وهو الملهم للصواب.

آپ کیا پڑھیں – مدرسی کے طلبہ سے خطاب – ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
آپ كيا پڑهيں
مدارس كے طلبه سے خطاب

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

اكثر طلبه سوال كرتے ہيں كه وه كن موضوعات پر زياده توجه ديں، اور ان موضوعات پر كون كون سى كتابيں پڑهيں؟ ميں نے حال ہى ميں ايك اردو پرچه كے خصوصى شماره كے لئے “بيان ميرے مطالعه كا” كے عنوان سے ايك مقاله لكها ہے، اس ميں اپنے مطالعه كى سرگزشت پيش كى ہے، يه پرچه جلد ہى شائع ہونے والا ہے، شايد طلبه كو اس ميں كچه كار آمد چيزيں مل جائيں۔
اسى مقاله كى روشنى ميں يه مضمون سپرد قلم كيا جا رہا ہے جس ميں طلبه كے مذكوره بالا سوال كا جواب ہے۔
طلبۂ عزيز سے عرض ہے كه آپ كو تين قسم كے موضوعات ميں اچهى دسترس پيدا كرنى چاہئے، جن كى تفصيل درج ذيل ہے :
1- ادب وتنقيد: ادب وتنقيد كے مطالعه سے الفاظ واساليب كے تنوع كى خوبيوں سے واقفيت ہوگى، سخن سنجى اور نكته آفرينى كا ہنر معلوم ہوگا، مظاہر فطرت كے جمال وكمال سے آشنائى ہوگى، زبان وبيان كى باريكياں ذہن نشيں ہوں گى،حسن كى مشاطه گرى سيكهيں گے، اور مزاج ميں تناسب كى حس نشو نما پائے گى۔
جب بهى كوئى كتاب پڑهيں تو الفاظ واسلوب پر غور كريں ، مختلف مصنفين كے طرز نگارش كى خوبيوں اور خاميوں كا شعور وادراك ركهيں، مطالعه كے دوران ذہن بيدار رہے كه مؤلف كومعانى كى ادائيگى پر كتنى قدرت ہے؟ زبان مناسب ہے كه نہيں؟ الفاظ كا انتخاب كس درجه كا ہے؟ اس تربيت سے آپ كے اندر خوش مذاقى ترقى كرے گى، زبان كى صفائى، سلاست اور شستگى سے الفت ہوگى، معيارى زبان اور متوازن اسلوب كى مشق ہوگى، اور صحافيانه اور واعظانه طريقۂ بيان سے وحشت ہوگى، تحرير ميں فصاحت وروانى پيدا ہوگى، اور مجموعى طور پر آپ كے انداز ميں تہذيب وشائستگى آئے گى، حاصل يه كه آپ كى زبان علمى ہو ليكن شگفتگى آميز، يعنى اتنى ساده نه ہو كه اسے ابالى ہوئى كهچڑى كہا جانے لگے، اور نه اتنى رنگين ہو كه وه حقائق كو فسانه كا رنگ ديدے۔
عربى ادب وتنقيد كى اہم كتابيں: عہد جاہلى سے عہد اموى تك كے اشعار وخطب، بعد كے ادوار كے نامورشعراء كا كلام، مبرد كى الكامل، ابن عبد ربه كى العقد الفريد، ابن رشيق كى العمدة، جاحظ اور ابن المقفع كى كتابيں، ابو الفرج اصبہانى كى اغانى، عصر حاضر كے مصنفين ميں: منفلوطى، رافعى، سباعى، طه حسين، احمد امين، ابو الحسن على ندوى، على طنطاوى كى كتابيں، حسن الزيات كى تاريخ الادب العربي، اور مولانا محمد رابع حسنى ندوى كى الأدب العربي بين عرض ونقد.
اردو ادب وتنقيد كى اہم كتابيں: محمد حسين آزاد كى آب حيات، الطاف حسين حالى كى مقدمۂ شعر وشاعرى، اور علامه شبلى كى موازنۂ انيس ودبير اور شعر العجم كو حرز جان بنا ليں، عناصر خمسه سر سيد احمد خان، محمد حسين آزاد، ڈپٹى نذير احمد، خواجه الطاف حسين حالى، اور علامه شبلى كى ديگر كتابيں، مير تقى مير، مير درد، مرزا غالب، فانى بدايونى، جگر مراد آبادى، اصغر گونڈوى وغيره كا كلام، مولانا سيد سليمان ندوى كى ادبى وتنقيدى تحريريں، مولانا ابو الكلام آزاد، مولانا عبد الماجد دريابادى، مہدى افادى، نياز فتحپورى، مجنوں گوركهپورى، رشيد احمد صديقى، كليم الدين احمد وغيره كى كتابيں بار بار پڑهيں۔
2- فلسفه ومنطق: آپ جديد وقديم فلسفه ومنطق كى كتابوں كا مطالعه كريں، ان سے عقل انسانى كے حدود كا علم ہوگا، مناہج استدلال سے واقفيت ہوگى ، بات كو مرتب انداز سے پيش كرنے كا سليقه ہوگا، دليل ومدلول كے باہمى ربط كى اہميت كا اندازه ہوگا، اور آپ كے پاس ايك ايسى ميزان ہوگى جس سے آپ افكار ومعانى كى قيمت، اور طريقۂ بحث وتحقيق كى صحت وكمزورى سمجه سكيں گے۔
يه ديكهكر سخت رنج ہوتا ہے كه سنجيده علمى موضوعات پر بهى ہمارے اہل قلم مطلوبه مواد كى فراہمى كے بغير لكهتے ہيں، انداز مناظرانه يا خطيبانه ہوتا ہے، باتيں غير مرتب ہوتى ہيں، ان تفصيلات اور غير ضرورى امور كى بهرمار ہوتى ہے جن كا موضوع سے كوئى تعلق نہيں، اور بالعموم دليل ومدلول اور اجمال وتفصيل ميں منطقى رشته نہيں ہوتا ۔
علوم عقليه سے شغف كا فائده يه ہوگا كه آپ اپنے مصادر ومراجع كے افكار وخيالات منطق وفلسفيانه اصولوں پر پركهنے كى كوشش كريں گے، كسى ايسى بات كو قبول كرنے سے آپ كو ابا ہوگا جس كى كوئى علمى دليل نه ہو ، كوشش كريں كه اظہار رائے سے زياده تشكيل رائے پر وقت صرف ہو۔
آپ امام غزالى كى مقاصد الفلاسفه ، ابن سينا كى الشفاء، تاريخ فلسفه پر لكهى گئى كتابں، اصول فقه كى كتابيں، ابن تيميه كى الرد على المنطقيين، درء التعارض بين العقل والنقل، فقه كى وه كتابيں جو مسائل پر آزادى سے دلائل كى روشنى ميں گفتگو كرتى ہيں، جيسے ابن حزم كى المحلى، ابن قدامه كى المغنى، كاسانى كى بدائع الصنائع، شوكانى كى نيل الاوطار كا خصوصى مطالعه كريں، اسى ضمن ميں آتى ہيں:ابن قيم كى إعلام الموقعين، شاطبى كى الموافقات، اور شاه ولى الله دہلوى كى حجة الله البالغة۔
3- تاريخ: تاريخ كى كتابوں كے مطالعه سے قوموں كے سياسى، معاشرتى اور تہذيبى واقعات وحوادث كا علم ہوگا، آپ اس پر غور كريں كه مختلف عوامل كس طرح ايك دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہيں؟ اسباب ونتائج كے درميان باہمى ربط ہے كه نہيں؟ واقعات اصول عادت كى رو سے ممكن ہيں كه نہيں؟ جس عہد كى تاريخ بيان ہو رہى ہے اس عہد كے لوگوں كا ميلان بيان كرده واقعات كے موافق تها يا مخالف؟ غير معمولى واقعات ميں تثبت كا كس قدر اہتمام ہے؟ واقعات كے بيان ميں راويوں كے اپنے قياسات واوہام كا كس قدر دخل ہے؟ كيا راويوں نے واقعات كے كسى اہم پهلو كو نظر انداز كرديا ہے؟
راويوں كے طريقۂ بيان نے واقعات كى ترجمانى كو برى طرح متاثر كيا ہے، مبالغه، جهوٹ، بلكه افترا پردازى سے كام ليا جاتا ہے ، بزرگوں كے تذكروں اور سلاطين كى تواريخ ميں شاعرى كى آميزش ہوتى ہے، مذاہب وفرق كى تاريخ ميں ناقلين كے ذاتى رجحانات شامل ہوتے ہيں۔
تاريخ ميں حديث، فلسفۂ تاريخ اور اصول حديث كے موضوعات بهى داخل ہيں، محدثين كا طريقۂ كار تحقيق ونقد كے اعلى معيار پر ہے، مگر بعد كى صديوں ميں اس سے استفاده كى كوشش نہيں كى گئى، اور سيرت وسوانح، تاريخ اور مواعظ كى كتابيں رطب ويابس سے پر ہوگئيں، اس لئے اس طرح كے مواد كو ايك مؤرخ كى حيثيت سے جانچا جائے ، مستند حواله جات پيش كئے جائيں، اور غير مستند حوالوں سے احتراز ہو۔
ابن سعد كى الطبقات الكبرى، امام بخارى كى تاريخ ، تاريخ طبرى، امام دارقطنى كى العلل، امام ابو الحجاج مزى كى تہذيب الكمال، امام ذہبى كى سير اعلام النبلاء، تاريخ الإسلام، ميزان الاعتدال، ابن خلدون كا مقدمه، صحيح بخارى، صحيح مسلم، علامه شبلى نعمانى كى سيرت النبى، اور اس كا مقدمه خاص طور سے پڑهيں۔

ایک مہینہ لذتوں سے پر – محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم
ايكـ مهينه لذتون سے پرے

از: محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

مهمان ربانى كے استقبال مين اهل ايمان چهتون پر، ٹيلون پر، پهاڑيون كى چوٹيون اور بلنديون پر چڑهـ جاتے هين، ان كا مهمان عزيز سپهر عرش برين سے آرها هے، وه اسفلستان كے دائره سے نكلكر اسے خوش آمديد كرنا چاهتے هين، اگر انهين طائران بام فلكـ كے پر اور ساكنان عالم بالا كے بازو مل جائين تو فضائے نيلگون مين پيرتے هوئے اسے مرحبا كهين، اس كى جهلكـ دكهائى ديتى هے تو وه خوشى سے پهولے نهين سماتے، مسرت بے پايان ان كى هر حركت وادا سے نمايان هوتى هے، اس كے ديدار سے آنكهون كو روشن اور دلون كو شاد كرتے هين، اپنى جان اس پر نثار كرتے هين، اور اس سے اپنى محبت وچاهت كا اظهار كرتے هين.
سلام اے ماه فضل وجود ورحمت! سلام اے ماه خوب اے ماه نعمت! سلام اے ماه احسان وكرامات! سلام اے ماه قرب ومناجات! سلام اے ماه اشكـ ودعا! سلام اے ماه سوز ونوا! آ اے مهمان عزيز! هم غرق گناه هين، هم بے در وبے پناه هين، اے ماه خدا! اعجاز كر، درهائے باغ جنان باز كر.
هلال رمضان نظر آيا، عهد فراق رخصت هوا، چشم انتظار كو سكون واطمينان ملا، بے قرارى كو قرار آيا، وقت خزان گيا، اب وصال بهار جانفزا هے، لقائے يار خورشيد سيما هے، آمد نو گل نازنين هے، تسكين خاطر غمين ودل حزين هے، بلبل! بند كر اپنا ناله كه زمانه بيتابى رخصت هوا، آسمان سے مژده روح پرور كا نزول هوا، اور وقت نغمه قرآن واذان آيا.
مدرسه بندگى مين روزه وسيله مؤمنان هے، مباركباد آمدِ ماه روزه، مرحبا اے مهمان عزيز! مرحبا اے موهبت يزدان وانعام رحمان! مرحبا اے روزه داران مرحبا، اے سراپا نور ايمان مرحبا، تبريكـ به مؤمنان عشق پيشه تبريكـ، تبريكـ به بهار رمضان تبريكـ، ماه عشق وصفا وقربت، ماه دست دعا وحاجت، ماه تهذيب درون، ماه گرمى محبت وجنون، ماه عطر دل وجان، ماه سلامت وخير فراوان.
روزه دارون كے ماورائے لذت حال ومقام پر رب العالمين فرشتون كے سامنے افتخار كرتا هے، لب پر مهر فرمان ايزدى، كام ودهن پر قفل، شهوتون پر لگام، نفس بند وقيد مين، ابليس وديو پس زندان، شيطان رجيم بر سر دار، اور قلب مشغول به عشق دلدار، هر طرف سے آواز آتى هے كه ماه رمضان آيا، نفس وشيطان پر جو بهارى هے وه ماه امان آيا، بام فلكـ پر منادى پكارتا هے كه كهان هين گنهگار؟ كهان هين طالبان ديدار؟ كهان هين صاحبان ديده بيدار؟ كهان هين عاشقان شب زنده دار؟ آيا زمان طاعت وخير، ماه بزم عبادات، مجلس ذكر ومحفل قرآن، سراپا لطف يزدان، نو بهار بندگى، ماه انابت وسجود به كاخ كبريا، ماه نماز وروزه وافطار عشق، ماه سحر خوردن به كنار يار عشق.
كس قدر نيكو وبلند مرتبت هے روزه كے آداب كى پاسدارى، روزه هے مشق درس زندگى وتهذيب نفس وكار بندگى، طعام سے خالى اندرون اور نور معرفت وحكمت سے پر باطن، روزه نام هے دير دير سے كهانے كا، نيم سير رهنے كا، اور سد رمق پر قناعت كرنے كا، روزه دار شهوتون سے آزاد هوتا هے، اس كى قوت فكريه ايكـ ايسے عالم لطيف مين گردان هوتى هے جو خواهشات سے پرے هے، نه اسے تشنگى پريشان كرتى هے نه گرسنگى، نه اسے جسمانى كمزورى كى پرواه هوتى هے، نه هى شهوتون كى كشش، نه وه كسى دلستان كا اسير هوتا هے اور نه گرفتار ميل دل پزير، وه دنيائے دون كى ظاهرى وباطنى كثافتون سے پاكـ هوتا هے، اور رشكـ ملائكـ وكروبيان، روزه اس كے لئے تطهير وتكميل انسانيت هے، اور تزكيه وتعديل روح آدميت.
افطار روزه دار كے لئے عيد هے، اس كى افطار هوتى هے تسبيح وتحميد سے اور ذكر محبوب سے، روزه دار مهمان پروردگار هے، وه مائده آسمانى كا سزاوار هے، وه سفره رحمانى كے گرد فرشتون كى همنشينى كرتا هے، جو ساعت سائلين كى قبوليت كے لئے متعين كى گئى هے اس مين روزه دارون كى دعاء مستجاب هوتى هے اور ان كى حاجتين بارياب، روزه دار نے اپنے اوپر جهنم كا ايكـ دروازه بند كيا، تو اس كے پروردگار نے اس كے لئے بهشت كے هزارون دروازے كهول ديئے، روزه دارون كے حالات كس قدر خوش كنان هين، اور عرشيان ان كے اقبال پر حسرت كنان.
زهے همت پاكان روزه دار، دنيا دارون كى طاقت كهانے پينے سے، اور روزه دار كى قوت وتوانائى كا راز صبر مين پنهان هے، ثواب روزه وطاعات اسے نصيب جس نے خاكـ ميكده عشق كى زيارت كى، اگر يهى نهين معلوم كه روزه كيا هے، تو بيهوده بهوكا رهنے كا كيا فائده، روزه خوارى منتهائے بے حجابى كا نشان هے، مؤمن ريا كارون كى طرح روزه شمار نهين كرتا اور نه هى منافقين كى طرح كوچه وبازار مين ادائے روزه دارى كرتا هے، اس نے هنسى خوشى مهينه كا استقبال كيا، پته هى نهين چلا كه كب آيا اور كب گيا، اس مهينه كى لذتون اور روحانى لطافتون سے وه اس قدر سرشار هوتا هے كه اس كے اس قدر جلدى رخصت هونے سے اسے ويسا هى غم والم هوتا هے جو كسى محبوب كے جانے سے هوتا هے.
يوسف نے چاه كنعان مين صبر كيا تو اسے ملكـ مصر عطا هوا، روزه دار نے خوشى خوشى فرمانبردارى مولا مين ماه صبر گزارا تو ندا آئى كه تيرا بدله ملكـ مصر نهين، تيرا ثواب يه جهان نهين، عام انعامات كے لئے هم نے فرشتون كو مامور كيا هے، ليكن تيرا انعام هم اپنے هاتهون سے ديتے هين، اور هم تمهين بذات خود نوازتے هين، اور جس كا اكرام رب العالمين كرے اس كے انعام كا هر ذره ملكـ سليمان وسلطنت مصر سے بڑهكر هے، اس پر سارے دنياوى جاه وجلال قربان هين، كيونكه يه عارضى هين، روزه دارون كى مملكت غير فانى هے، اس ملكـ عظيم مين داخله كے لئے تمام طاعتون كے دروازے مشتركـ هين، اور روزه دار كا استقبال ايكـ باب خاص موسوم به ريان سے هوگا، جو اسے ايكـ ايسى بهشت مين داخل كرے گا جو اس كے لئے سال بهر سجائى جاتى هے، وإذا رأيت ثم رأيت نعيما وملكا كبيرا.