*آہ مولانا شاہد صاحب قاسمی ندویؒ*
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
دنیا میں انسان آنکھیں کھولتا ہے پلتا ہے بڑھتا ہے زندگی کی بہاریں دیکھتا ہے بچپن سے لیکر زندگی کے مختلف مراحل میں ہزاروں قسم کے افراد انسان کی زندگی میں آتے ہیں ہزاروں دوست یار ملتے ہیں کچھ ساتھ رہتے ہیں کچھ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں کچھ کا ساتھ متعین مدتوں کے لئے ہوتا ہے کچھ کا غیر متعینہ مدت تک۔ کچھ کا ساتھ نہ ہی ملنے اور نہ ہی بچھڑنے کا ہوتا ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو پل بھر کے لئے ملتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے بچھڑ جاتے ہیں ۔ مگر کچھ پل اتنے حسین اور اتنے دلکش ہوتے ہیں کہ وہ میٹھی اور پیاری یادیں بن کر زندگی بھر آپ کا ساتھ نھباتے ہیں اور زندگی کے حسین لمحوں میں ان پلوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔ زندگی کے ان حسین پلوں میں بے حد حسین پل میرے لئے وہ پل بھی ہے جب میں ضیاء العلوم رائے بریلی میں ہوا کرتا تھا۔ رائے بریلی میں میں نے زندگی کی سات بہاریں دیکھی ہیں۔ اعدادیہ سے لیکر عالیہ ثالثہ تک کی تعلیم حاصل کی۔ ضیاء العلوم میں یوں تو ہمارے تمام اساتذہ کرام بے حد مشفق۔ بے حد شفیق۔ بے حد مہربان۔ اور طلباء کو اپنی اولاد کی طرح treet کرنے والے تھے مگر ان میں مولانا شاہد صاحب ندوی قاسمی کا مقام تھوڑا الگ اور قدرے مختلف تھا مولانا ہمارے استاذ کم دوست زیادہ ہوا کرتے تھے مولانا سے ملتے ہوئے یا مولانا سے پڑھتے ہوئے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ مولانا ہمارے استاذ ہیں اور ہم سب ان کے شاگرد۔ مولانا جب پڑھاتے تو ایسا لگتا کہ کوئی دوست یا بھائی اپنے چھوٹے بھائیوں کو پڑھا رہا ہے یا اپنے دوستوں کو درس دے رہا ہے ، دوران درس کسی طالب علم کو کبھی بوریت نہیں ہوتی طلباء ہمیشہ نشیط رہتے کیوں کہ دوران تعلیم مولانا کا ایک وصف تھا کہ طلباء سے باتوں باتوں میں مذاق کیا کرتے تھے مگر مولانا کا مذاق بہت عمدہ منطقی اور informative ہوا کرتا تھا جس سے طلباء لطف اندوزی کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلباء کو بھی پوری اجازت ہوتی کہ وہ بھی ان سے بنا hesitation کے بات کرے۔ سوال کرے ۔جو چاہے پوچھے کوئی بھی بندش نہیں ہوا کرتی تھی حتی کہ سنجیدہ مذاق و مزاح کی بھی کھلی اجازت ہوا کرتی تھی،
مولانا کے کچھ گھنٹے عائشہ للبنات شہر رائے بریلی میں بھی تھے جہاں مولانا طالبات کی کلاسیز لیا کرتے اور عالمات کو پڑھایا کرتے تھے غالبا وہاں کتاب الطلاق کتاب النکاح وغیرہ کا درس دیا کرتے تھے جب کبھی ہم تمام ساتھیوں کو پڑھنے کا موڈ نہیں ہوتا تو مولانا کو الجھانے کی کوشش کرتے, مولانا آج آپ نے وہاں کیا پڑھایا؟ کون کون سی احادیث پڑھائی؟ ادھر سے کیا کیا سوالات ہوئے؟ کیا کیا اشکالات کئے گئے؟ لیکن مولانا اتنی خوبصورتی سے بات کو ٹالتے ہوئے ہمیں جواب دیتے کہ پھر ہم سب سے اور کوئی سوال ہی نہیں بن پاتا اور وہ ہمیں پڑھا بھی دیتے۔ نا چاہتے ہوئے بڑی خوشی کے ساتھ ہم سب آگے کا سبق پڑھ بھی لیتے اور ہمیں کوئی بوریت بھی نہیں ہوتی ،
خوش مزاجی اور خوش اخلاقی :
مولانا نہایت خوش مزاج اور باذوق تھے خوش مزاجی و خوش اخلاقی ان کا امتیازی وصف تھا جن سے بھی ملتے ہنستے اور مسکراتے ہوئے ملتے حال احوال ایسے دریافت کرتے گویا خون کا رشتہ یا برسوں کا یارانہ ہو۔ طلباء سے باتیں کرتے تو ایسا محسوس ہوتا گویا ان کا دوست ہو۔ اساتذہ کرام سے باتیں کرتے تو ایسا لگتا گویا شقیقی رشتہ ہو یا اپنے خاندان کا محبوب ترین فرد ہو۔ مولانا کو ایسی طبع ودیعت کی گئی تھی کہ باتوں باتوں میں مزاح کے نمونے ٹپکتے رہتے۔ کلام ایسے کرتے گویا لبوں سے پھول جھڑ رہے ہوں۔
تواضع انکساری اور خود داری:
اسی طرح مولانا کا امتیازی وصف تواضع انکساری اور خود داری تھا ہر ایک کے ساتھ ملاقات کے وقت بہت تواضع پسند ہوا کرتے تھے ، تکیہ سے میدان پور سائیکل سے آتے اور درس کے بعد پھر سائیکل سے ہی روانہ ہو جاتے اسی طرح عائشہ للبنات بھی بذریعہ سائیکل ہی جاتے اور درس دے کر واپس تکیہ آ جاتے۔ غالبا ہمیشہ یا کبھی کبھی مولانا کا کھانا ضیاء العلوم سے بنگلے میں یعنی تکیہ جایا کرتا تھا جب کبھی کوئی شناسا طالب علم موجود نہیں ہوتا وہ اپنا کھانا خود لیکر چلے جایا کرتے تھے اگر یوں کہا جائے تواضع خود ان سے شرما جایا کرتی تھی تو بیجا نہیں ہوگا۔ مولانا نہایت سادہ طبیعت کے حامل تھے ۔ بات چیت۔ گفتگو۔ میل ملاپ۔ ملاقات ومصاحبت ہر چیز میں سادگی ان سے ٹپکتی تھی اور تواضع جھلکتی تھی ۔
خوش لباسی اور نفاست پسندی:
مولانا سادگی پسند تو تھے ہی مگر سادگی خوش لباسی اور نفاست پسندی کا حسین امتزاج دیکھنا ہو تو وہ مولانا میں نمایاں طور پر دیکھنے کو مل جاتا تھا مولانا لباس بہت سلیقے سے پہنا کرتے ۔ لباس کی caring اور نفاست پسندی کیا چیز ہوتی ہے یہ مولانا سے سیکھا جا سکتا تھا پرانے سے پرانا لباس جب وہ پہن کر آتے تو ایسا لگتا مولانا نے کوئی نیا لباس زیب تن کیا ہوا ہے. پتہ کرنے پر معلوم ہوتا کہ یہ تو برسوں پرانا ہے ۔ مولانا نہایت خوب رو اور خوش شکل تھے ہر لباس مولانا پر بدرجہ اتم جچا کرتا تھا لباس میں وہ ایسے لگتے گویا لباس نے ان کی زینت نہیں بلکہ انہوں نے لباس کی زینت بڑھائی ہوئی ہے،
خاطر و مدارات اور مہمان نوازی:
اسی طرح مولانا کا ایک وصف خاطر و مدارات اور مہمان نوازی تھا جب بھی کوئی طالب علم ان سے ملنے جاتا ان کے پاس جو کچھ ہوتا وہ اس کے ذریعے ضرور خاطر داری کرتے بسا اوقات طلباء خود ان سے مطالبہ کر کے اپنی خاطر داری کروا لیا کرتے تھے۔ وہ ذرہ برابر بھی نہیں کتراتے جو کچھ ہوتا آگے کر دیتے کھجور پانی ہی سہی وہ ان کے سامنے پیش کر دیا کرتے ۔ طالب علم اسی سے نہال ہو جاتا ،
ظرافت بے ساختگی اور حاضر جوابی:
مولانا کو اللہ نے ظرافت کا وافر مقدار عطا فرمایا تھا باتوں باتوں میں بڑی ظریفانہ گفتگو کیا کرتے تھے۔ بے ساختگی اور حاضر جوابی اس قدر اچھوتے انداز میں مولانا کی باتوں میں دیکھنے کو ملتی جس کا جواب نہیں۔! بے ساختگی اورحاضر جوابی کی ظرافت کے سانچے میں ڈھلنے کے بعد کیا صورت ہوتی ہے وہ صورت مولانا کی گفتگو میں نمایاں طور پر جھلکتی تھی ۔ جس کا ان سے مل کر ہر بات کرنے والے نے مشاہدہ کیا ہوگا،
شرم و حیا پاکبازی اور پاکدامنی:
اسی طرح مولانا پاکباز پاکدامن کافی شرمیلے اور حیا کے پیکر تھے کوئی بھی ایسی بات جو سنجیدگی اور متانت کے زمرے سے الگ ہوتی ۔ کرنے سے بہت شرماتے اور اس سے گریز کیا کرتے۔ مسکراتے ہوئے اور تبسم کے ساتھ ایسے topics اور ایسے موضوع کو ٹال دیتے یا ignore کر دیا کرتے یا بچ بچا کر نکل جاتے۔ کسی کی ایسی بات جس پر وہ کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے اور اس سے کیسے نکلنا ہو کہ سامنے والے کو برا بھی نہ لگے اور وہ بچ بچا کر نکل بھی جائے یہ مولانا سے سیکھنے لائق ہوتا۔
اصول پسندی وعدہ ۓ وفا اور امانت داری:
اسی طرح مولانا کافی اصول پسند اور وعدے کے پکے تھے اصول شکنی سے انہیں نفرت تھی اور وعدہ وفائی سے پیار۔ جب بھی یہ کہتے کہ کل نہیں پڑھاؤں گا نہیں پڑھاتے یا کہتے کہ پڑھاؤں گا تو ضرور پڑھاتے اور اس میں کوئی compromise نہیں کرتے کلاس کا ناغہ کرنے سے گریز کرتے لیٹ ہو جاتے پر کلاس کا ناغہ بلا ضرورت اور بنا وجہ نہیں کرتے۔ 5 منٹ کے لئے ہی سہی کلاس ضرور آتے ۔ اسی طرح مولانا کے اندر امانت داری کا وصف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ,کوئی بھی کوئی چیز بطور امانت انہیں دیتا یا ان کے پاس رکھتا تو بعینہ اسی صورت میں انہیں لوٹا دیتے ۔ ایسا محسوس ہوتا گویا اسے کسی نے چھوا تک نہیں ہے ۔
حسنی خاندان سے محبت اور بے پناہ الفت:
حسنی خاندان سے مولانا کو بے پناہ محبت اور الفت تھی اسی طرح حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ مولانا عبداللہ حسنیؒ مولانا واضح رشید ندویؒ حضرت مولانا رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم سے بڑی والہانہ محبت تھی جس کا وہ گاہے بگاہے اظہار کیا کرتے تھے۔ جہاں بھی موقع ہوتا حسنی خاندان کی خوبیوں کا تذکرہ ضرور کیا کرتے ۔ حسنی خاندان کی سادگی ایک دوسری کے حقوق کی ادائیگی کے نظام اور طریقہ کار کا تذکرہ خود کئی بار مولانا کی زبان سے میں نے سنا ہے ۔ مولانا حسنی خاندان کے بچوں سے بے حد پیار اور محبت کیا کرتے تھے اس کی ایک وجہ مولانا کا خود تکیہ میں قیام بھی تھا کیوں کہ مولانا نے تکیہ کو جتنا قریب سے دیکھا ہے ہم سب نے نہیں دیکھا اسی لئے تکیہ اور اہل تکیہ سے محبت ان کی نسوں میں خون بن کر دوڑتی تھی ۔ مولانا حسنی خاندان کی خوبیوں کا اعتراف جس طرح کیا کرتے تھے وہ اپنے آپ میں بہت انمول ہوا کرتا تھا ۔ حسنی خاندان اور تکیہ سے جڑی ہوئی ایسی ایسی باتیں بتاتے جس سے یہ گمان ہوتا گویا وہ خود اس خاندان کا ایک فرد ہو ۔ خاندانی رشتوں کا تذکرہ ایسے کرتے گویا وہ رشتوں اور نسبتوں کا حافظ ہو ۔ آخر ایسا کیوں نہ ہو جس نے اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ حضرت مولانا علی میاں ؒ کے ساتھ گزارا ہو ۔ جسے ان کی قربت میسر رہی ہو ۔ خادم خاص کے مقام پر فائز رہے ہوں۔ ان سے اکتساب فیض کیا ہو۔ ان کی صحبت سے خود کو فیضیاب کیا ہو ان کے لئے یہ باتیں نئی نہیں ہو سکتیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ مولانا حسنی خاندان کے ہی ایک فرد جیسے تھے تو مبالغہ نہیں ہوگا ۔
مولانا کی زندگی کے بے شمار مخفی پہلو ہیں جن کے بیان کرنے میں صفحات کے صفحات کالے ہو سکتے ہیں صرف مولانا کی حضرت مولانا رابع حسنی دامت برکاتہم, مولانا واضح رشید ندوی ؒ سے والہانہ تعلق اور حسنی خاندان سے بے پناہ محبت کا ہی تذکرہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح مولانا کے عادات و اطوار۔ قناعت پسندی۔ ملنساری۔ امانت داری۔ پاکبازی۔ پاکدامنی۔ خودداری ۔سادگی۔ تواضع۔ انکساری ۔مزاح ۔ظرافت ۔نفاست پسندی ۔خوش روی ۔خوش گوئی۔ خوش لباسی۔ خوش طبعی۔ اور خوش اخلاقی پر دفاتر تیار ہو سکتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ حضرت مولانا علی میاں ؒ کی شخصیت کا فیض پیکر کامل بن کر مولانا کی شخصیت کی شکل میں ہمارے درمیان تھا جو اب نہیں رہا ،
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ،
اللهم اغفرله وارحمه, وعافه واعف عنه. وأدخله الجنة و أسكنه أعلى درجات الفردوس،
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
*#ابو_سفیان_ندوی_علیگ*
*ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی،*
يجب عليك تسجيل الدخول لكتابة تعليق.