آہ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی – بقلم سید عزیز الرحمن

قياسي

علم و فضل کی دنیا کا ایک اور لائٹ ٹاور ہمیشہ کے لیے بجھ گیا، تحقیق کی دنیا مزید سونی ہوگئی، کردار کی جیتی جاگتی تعبیر استعاروں اور تلمیحات کے سمندر میں کھوگئی۔ سیرت کا خادم، قلم کا مجاہد اور تہذیب کا ایک اور محافظ رخصت ہوگیا۔
کاغذات کے مطابق ۲۶ دسمبر ۱۹۴۴ء کو اترپردیش میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ء کو علی گڑھ میں رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
تصور میں اگر کسی شخصیت کا علمی رعب اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ اکھٹی آجائے تو ایک ہی صورت بنتی ہے۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی، ورنہ کبھی علم کا رعب انسان کے اعصاب پر طاری ہوجاتا ہے تو کہیں قہقہوں کا شور شخصیت کا وزن کم کردیتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ندوۃ العلماء سے ۱۹۵۹ء میں عالم اور ۱۹۶۰ء میں لکھنو یونیورسٹی سے فاضل ادب کی سند حاصل کی۔ اس سے قبل جامعہ ملیہ دہلی سے بھی بہ طور طالب علم وابستہ رہے۔علی گڑھ یونیورسٹی سے۱۹۶۹ء میں ایم فل مکمل کیا اور ۱۹۷۰ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے استاد کی حیثیت سے منسلک ہوگئے۔ ادارے کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔
۱۹۷۵ء میں آپ کی پی ایچ ڈی کی تکمیل ہوئی ۱۹۸۳ء میں شعبہ علوم اسلامیہ میں ریڈر ایسوسی ایٹ اور ۱۹۹۱ء میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ مسلم علی گڑھ یونیورسٹی میں ڈائریکٹر شعبہ علوم اسلامیہ کی ذمے داریاں انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ”شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل“ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ آپ کو شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اورمولانا اسحاق سندیلوی، مولانا عبدالحفیظ بلیادی، صاحب مصباح اللغات اور مولانا رابع حسنی ندوی، جیسے جلیل القدر اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ سے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا، مگر پھر اپنے والد محترم کی تشویق سے سیرت نگاری کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر وہی آپ کی اصل پہچان بنی۔ آپ کی عربی، اردو اور انگریزی زبان میں متعدد کتب شائع ہوئیں اور مختلف موضوعات پر جن میں سیرت طیبہ سب سے نمایاں ہے، آپ کے پانچ سو کے قریب مقالات مختلف جرائد میں شائع ہوئے۔ آپ کے مضامین پاک و ہند کے سب ہی اہم مجلات کی زینت بنتے رہے، مگر خاص طور پر ہندوستان میں معارف اور تحقیقات اسلامی، اور پاکستان میں مختلف جامعات کے مجلات کے ساتھ ساتھ شش ماہی السیرہ عالمی میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ سیرت نبویﷺ کے موضوع پر آپ کی تیس سے زائد مستقل تصانیف میں مصادر سیرت نبویﷺ، تاریخ تہذیب اسلامی، عہد نبویﷺ میں تنظیم ریاست و حکومت، نبی اکرمﷺ اور خواتین، ایک سماجی مطالعہ، عہد نبویﷺ میں تمدّن، مکی اسوۂ نبوی، معاش نبوی، قریش وثقیف تعلقات شامل ہیں۔ آپ کے خطبات نے بھی شہرت حاصل کی۔ اس سلسلے کی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف ایک اور بزرگ من ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ؒ کے ذریعے ہوا۔ انہوں نے فرمائش کرکے ڈاکٹر صاحب کے کچھ مطبوعہ مقالات منگوائے تھے، تاکہ ان کی اشاعت کی کوئی صورت کی جاسکے۔ یہ مقالات عکسی نقول کی صورت میں تین چار جلدوں میں تھے اور موضوعاتی اعتبار سے مرتب شدہ تھے۔ کشفی صاحب نے کراچی کے اس وقت کے ایک بڑے ناشر کو اشاعت کے حوالے کردیے، مگر پھر ناشر صاحب کی ترجیحات میں خاصا انقلاب آیا، یوں وہ مرتب شدہ مسوات.بھی ہاتھ سے جاتے رہے، مگر اس دوران راقم کو انہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا، اور انہیں پڑھنے کا موقع ملا، یہ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب سے پہلا ذہنی رابطہ تھا۔ پھر اسی عرصے میں ان کی کتاب غزوات نبوی کی اقتصادی جہات انڈیا سے شائع ہوئی اور ہم تک پہنچ گئی۔ اس نے تو صاحب تحریر کے علم کا اسیر کردیا، وہ دن ہے اور آج کا دن ڈاکٹر صاحب کے سحر سے راقم باہر نہیں آسکا۔
پندرہ اٹھارہ برس قبل ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب مکی اسوۂ نبوی شائع ہوئی۔ وہ خاصے کی چیز تھی، ڈاکٹر صاحب سے باوجود کہ کوئی رسم و راہ نہیں تھی مگر صرف خط و کتابت کے ذریعے آپ نے نہ صرف اس کا ایک نسخہ دستخط کے ساتھ عطا فرمایا بل کہ اس کی پاکستان میں اشاعت کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ اور ہم نے ”القلم“ کے تحت اس کی اشاعت کی۔ بعد میں ایک موقر ادارے سے اس کا ایک غیر اجازتی ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ اور مسلسل شائع ہورہا ہے۔
ہم نے اپنے ادارے دارالعلم والتحقیق میں ڈاکٹر صاحب کے متعدد محاضرات منعقد کرائے۔ ان میں خاص طور پر مولانا سید زوار حسین یادگاری خطبات بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے کے انہوں نے سات خطبات ارشاد فرمائے، جن میں ایک خطبہ مسلسل تین روز جاری رہا۔ یہ تمام خطبات جلد خطبات کراچی کی سیریز کے تحت شائع ہوں گے، ان شاء اللہ۔ ریجنل دعوۃ سینٹر کراچی میں بھی آپ کے متعدد لیکچر ہوئے، اس طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفت گوؤں کے ذریعے یہاں پاکستان میں بھی اپنے معتقدین کا حلقہ پیدا کیا، جو آج بھی ان کی خدمات سے استفادہ کررہا ہے۔
آپ کی ذہنی بیداری اور برجستگی صرف علمی معاملات تک محدود نہیں تھی، بل کہ مزاح، اور لطائف کے مواقع پر بھی آپ اتنی ہی برجستگی کا مظاہرہ کرتے۔ اگر آپ کے بیان کردہ لطائف ہی نوٹ کرلیے جاتے تو ایک دفتر تیار ہوسکتا تھا۔ ایک بار فرمانے لگے کہ ہمارے استاد مولانا عبدالحفیظ بلیادی صاحب مصباح اللغات نے فرمایا کہ مولوی یاسین جب کسی دعوت پر جاتا ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے، میں نے پوچھا کیوں حضرت، کیا کھایا نہیں جاتا، بولے نہیں، کھاتا تو خوب ہوں، بل کہ معمول سے زیادہ کھالیتا ہوں افسوس تو اس پر ہوتا ہے، جو بچ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، اور ہمیں آپ کے نشانات قدم پر چلنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔

*سیرت نگاری کے ایک عہد کا خاتمہ* [ پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی وفات ] – بقلم : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

قياسي

اِدھر کچھ عرصے سے عظیم علمی شخصیات ، دینی تحریکوں کے سربراہ ، مدارس کے ذمے داران ، محدثین ، علماء و فضلاء ، ادباء ، صحافی اور سماج کے دیگر سربرآوردہ حضرات بہت تیزی سے ایک ایک کرکے اللہ کو پیارے ہورہے ہیں _ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تسبیح کی ڈوری ٹوٹ گئی ہے ، جس کے نتیجے میں اس کے دانے ایک ایک کرکے بکھرتے چلے جارہے ہیں _ اس سنہری تسبیح کا ایک دانہ پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی ذاتِ گرامی تھی ، جن کی کل دوپہر میں وفات ہوگئی _ ان کی وفات کی خبر نے یوں تو ہزاروں لوگوں کو سوگوار کیا ہے ، لیکن یہ میرے لیے کتنا بڑا المیہ ہے اسے الفاظ میں ادا کرنا میرے لیے ممکن نہیں _ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک بہت بڑے سہارے اور اہم سرپرست سے محروم ہوگیا ہوں _

علمی دنیا میں یٰسین مظہر صدیقی صاحب کا تعارف ایک بہت بڑے مصنف کی حیثیت سے ہے _ انھوں نے اسلامی تاریخ اور سیرتِ نبوی پر بہت قیمتی سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے _ انھوں نے خاص طور پر سیرت کی نئی نئی جہتوں سے کام کیا ہے اور ایسے گوشے وا کیے ہیں جن پر پہلے کام نہیں ہوا تھا _ سیرت کے موضوع پر ان کی تصانیف میں خاص طور سے : عہدِ نبوی میں تنظیمِ ریاست و حکومت ، غزواتِ نبوی کی اقتصادی جہات ، عہدِ نبوی کا نظامِ حکومت ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور خواتین _ ایک سماجی مطالعہ ، مکی عہد میں اسلامی احکام کا ارتقاء ، مکی اسوۂ نبوی : مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رضاعی مائیں ، عبد المطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا ، وحی حدیث ، سنتوں کا تنوّع ، بنو ہاشم اور بنو امیہ کے معاشرتی تعلقات ، قریش و ثقیف کے تعلقات ، خطباتِ سرگودھا (سیرتِ نبوی کا مکی عہد) ، معاشِ نبوی ، عہدِ نبوی کا تمدّن اور مصادرِ سیرت کو علمی حلقوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور ہند و پاک دونوں جگہ وہ شائع ہوئی ہیں _ سیرت کے علاوہ قرآنیات ، تاریخ ، سوانح اور دیگر موضوعات پر بھی ان کی خاصی وقیع تصانیف ہیں _ لیکن میرے نزدیک یہ ان کا صحیح تعارف نہیں ہے _ ان کا اصل تعارف یہ ہے کہ انھوں نے مصنفین کی ایک پوری کھیپ تیار کردی ہے ، جو انہی کی طرح سوچنے اور انہی کی طرح لکھنے کی کوشش کررہی ہے _ اسلامی تاریخ میں بڑے بڑے مصنفین گزرے ہیں ، جنھوں نے اسلامیات کے مختلف پہلوؤں پر ضخیم مجلّدات تیار کردی ہیں ، لیکن یٰسین صاحب کی طرح مصنّفین کی فوج تیار کردینے والے کم ہی لوگ رہے ہیں _

ڈاکٹر یٰسین صاحب تاریخ کے آدمی تھے _ تعلیم سے فراغت کے بعد ان کا تقرّر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے ہوا تھا _ ابتدائی زمانے میں انھوں نے تاریخِ ہند پر معیاری کام کیا ہے _ انہیں اسلامیات کا محقق اور خاص طور پر سیرت نگار بنانے میں سابق امیر جماعت اسلامی ہند و صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ مولانا سید جلال الدین عمری کا غیر معمولی کردار ہے _ مولانا اُس وقت ادارہ کے سکریٹری تھے _ انھوں نے تحقیقات اسلامی کے نام سے ایک سہ ماہی علمی مجلہ نکالنے کا ارادہ کیا تو مضامین کے حصول کے لیے مسلم یونی ورسٹی کے معروف اور لکھنے کا ذوق رکھنے والے اساتذہ سے ملاقاتیں شروع کیں _ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا دل چسپ احوال خود انھوں (یعنی ڈاکٹر صاحب) نے بیان کیا ہے _ مولانا کی خواہش پر انھوں نے کہا کہ میں آج کل ایک مضمون لکھ رہا ہوں ، اسے دے سکتا ہوں ، لیکن اس میں مولانا مودودی پر تنقید ہے _ مولانا نے وہ مضمون لے لیا اور اسے شائع کرنے کا وعدہ کیا _ اس کی قسطِ اوّل تحقیقات اسلامی کے پہلے شمارے (جنوری _ مارچ 1982) میں ‘تاریخِ اسلام میں فنِ شانِ نزول کی اہمیت’ کے عنوان سے شائع ہوئی _ سورۂ حجرات ، آیت 6 میں لفظ ‘فاسق’ کا اطلاق عام مفسّرین کی طرح مولانا مودودی نے بھی صحابئ رسول حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ پر کیا تھا _ یٰسین صاحب نے اپنے مضمون میں اس پر سخت تنقید کی تھی _ مضمون شائع ہوا تو جماعت کے حلقے میں بعض لوگوں نے ناگواری ظاہر کی اور اگلی قسط کی اشاعت روک دینے کا مطالبہ کیا _ مولانا کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر صاحب کے پاس مضمون کی دوسری قسط لینے پہنچے تو انھیں ناقدین کے خطوط بھی دکھائے _ ڈاکٹر صاحب نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا ، آپ نے ناحق خود کو آزمائش میں ڈالا _ تب مولانا نے ایک پوسٹ کارڈ دکھایا اور کہا کہ میں نے ناقدین کو یہ جواب لکھ دیا ہے : ” اس مضمون کی دوسری قسط بھی شائع ہوگی _ صحابۂ کرام کی عزّت ہمیں مولانا مودودی کی عزّت سے زیادہ عزیز ہے _”

مولانا عمری کے اس رویّے نے یٰسین صاحب کو ان کا گرویدہ بنادیا _ پھر تو تحقیقات اسلامی میں ان کے مضامین کی جھڑی لگ گئی _ اس میں مدیر محترم کے بعد سب سے زیادہ مضامین انہی کے شائع ہوئے _ اس کا اعتراف اور تذکرہ خود ڈاکٹر صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے : ” ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے خاک سار کا تعلقِ خاطر روزِ اوّل سے ہے _ اسے پروان چڑھانے اور مضبوط بنانے میں ادارہ کے روحِ رواں مولانا سید جلال الدین عمری دامت برکاتہم کا اصل ہاتھ ہے…. مولانا نے اول شمارے سے خاک سار کے مقالات و مضامین بڑی آب و تاب اور بہت محبت و خلوص سے چھاپے اور شاید ہی کوئی جلد خاک سارانہ تحقیقات و بیانات سے خالی رہی ہو…. مدیر گرامی نے اس مقالہ نگار کو تحقیقات اسلامی کی صحیح راہ پر لگا دیا _ یہ دوسری بات ہے کہ وہ مصنّف و عالم نہ بن سکا ، البتہ مقالات اور کتابوں کا ڈھیر لگانے میں کام یاب ضرور رہا _ (تحقیقات اسلامی ،اکتوبر _دسمبر 2006، ص81 _83)

جناب رؤف احمد ، لائبریرین ڈاکٹر حمید اللہ لائبریری ، ادارہ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی نے اپنے ایک مضمون میں علم کتابیات کے ایک ذیلی فن (Bibliometrics) کی روشنی میں 2019 تک کے شماروں کا جائزہ لیا ہے _(شائع شدہ تحقیقات اسلامی، جنوری _ مارچ 2020) ان کے بیان کے مطابق تحقیقات اسلامی میں ڈاکٹر صاحب کے 63 مضامین شائع ہوئے ہیں ، جن میں سے 36 سیرت نبوی پر تھے _ تحقیقات اسلامی میں ان کا آخری مضمون اس کے تازہ شمارہ (جولائی _ ستمبر 2020) میں شائع ہوا ہے ، جس کا عنوان ہے :’جنت میں داخلہ کی قرآنی ضمانتیں اور حدیثی تشریحات ‘ _ اس میں انھوں نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ قرآن میں جنت کے حصول کو ایمان اور عمل صالح سے مشروط کیا گیا ہے _ یہ شمارہ میں نے چند روز قبل ان کی خدمت میں پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی کی معرفت بھجوایا _ رات میں ظفر صاحب نے مجھے فون کرکے اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ تحقیقات اسلامی میں شائع ہونے والا ڈاکٹر صاحب کا آخری مضمون ان کی اخروی بخشش کا نیک شگون ہے _

تحقیقات اسلامی میں شائع شدہ ڈاکٹر یٰسین صاحب کے چار مضامین کا مجموعہ ادارۂ تحقیق نے بہت پہلے ‘عہدِ نبوی کا نظامِ حکومت ‘ کے نام سے شائع کیا تھا ، جو اصلاً ان کی ضخیم کتاب ‘عہدِ نبوی میں تنظیمِ ریاست و حکومت’ کی تلخیص ہے _ ادارہ میں ان کے توسیعی خطبات بھی برابر ہوتے رہتے تھے _ گزشتہ برس اپریل میں ان کا خطبہ’ سیرتِ نبوی میں فقر و غنا کی حقیقت اور عصر حاضر میں اس کی معنویت’ کے عنوان سے ہوا تھا ، جو بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا _ کچھ دنوں کے بعد پروفیسر عبد الرحیم قدوائی ، ڈائریکٹر خلیق احمد نظامی مرکزِ علوم قرآن ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے تجویز رکھی کہ مرکز اور ادارہ کے اشتراک سے سیرتِ نبوی پر یٰسین صاحب کے لکچرس کی سیریز رکھی جائے ، جن میں سے کچھ لیکچرس مرکز میں اور کچھ ادارہ میں ہوں _ ڈاکٹر صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور تیاری شروع کردی _ فروری میں انھوں نے خبر دی کہ میں نے لیکچرس تیار کرلیے ہیں ، مگر افسوس کہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد کووِڈ_19 کی وجہ سے لاک ڈاؤن شروع ہوجانے اور اب ان کی وفات سے ادارہ ان لیکچرس کے انعقاد کی سعادت سے محروم رہ گیا _

پروفیسر یٰسین صاحب کا جماعت اسلامی ہند سے رسمی تعلق تو نہ تھا ، لیکن وہ اس کی خدمات کو قدر و ستائش کی نظر سے دیکھتے تھے _ جماعت کے امراء : مولانا محمد سراج الحسن ، اور ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری رحمھما اللہ اور مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ سے ان کے بہت قریبی تعلقات تھے _ ڈاکٹر انصاری نے اپنے زمانۂ امارت میں ایک مرتبہ انہیں مرکز جماعت میں مدعو کرکے اسلامی اکیڈمی کے تحت ان کے متعدد لیکچرس کروائے تھے _ علی گڑھ کی مقامی جماعت بھی اپنے خصوصی پروگراموں میں انہیں مدعو کرتی تھی اور وہ بہت خوشی سے اس کی دعوت قبول کرتے تھے اور عموماً سیرت نبوی کے کسی پہلو پر خطاب فرماتے تھے _ ان کے داماد ڈاکٹر احسان اللہ فہد فلاحی ، جو عبد اللہ گرکس کالج ، مسلم یونی ورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ، ماشاء اللہ جماعت اسلامی ہند کے رکن ہیں _

میرے نام کے ساتھ ‘ ڈاکٹر’ کا سابقہ دیکھ کر بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نے اسلامیات سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ، جب کہ میں اصلاً طبیب ہوں _ میں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کیا ہے _ کسی پروفیشنل کورس میں دس برس کی طویل مدّت اسلامیات سے میرے ربط کو ختم کرنے کے لیے کافی تھی ، لیکن علی گڑھ پہنچتے ہی ڈاکٹر صاحب سے تعلق نے نہ صرف اسلامیات سے میری دل چسپی برقرار رکھی ، بلکہ اس میں روزافزوں اضافہ ہوتا گیا _ ان سے ہونے والی ہر ملاقات مہمیز کا کام کرتی تھی _ وہ موضوعات کی نشان دہی کرتے ، لکھنے پر ابھارتے ، کچھ لکھ کر دکھاتا تو پسندیدگی کا اظہار کرتے ، دوسروں کے سامنے خوب تعریف کرتے اور مجھے علامہ بناکر پیش کرتے _ مجھے یاد ہے ، میرے علی گڑھ پہنچنے کے کچھ عرصہ کے بعد ایک بار انھوں نے میرے سامنے ‘ نقوش’ لاہور کے قرآن نمبر کا پروجکٹ پیش کیا کہ رسول نمبر کی طرح ، بلکہ اس سے بہتر شکل میں یہ تقریباً 25 جلدوں میں شائع ہوگا _ ساتھ ہی مجھے مصر کی مشہور ادیبہ اور مصنّفہ ڈاکٹر عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی کی کتاب الإعجاز البیانی للقرآن الكريم اردو ترجمہ کرنے کے لیے دی _ اس کی عبارتیں بہت دقیق تھیں _ میں نے بہت محنت سے اور جی لگاکر اس کا ترجمہ کیا _ نقوش قرآن نمبر کی صرف 4 جلدیں ہی شائع ہوسکیں اور میرا ترجمہ اس کا حصہ نہ بن سکا ، لیکن بعد میں مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے ‘قرآن کریم کا اعجازِ بیان’ کے نام سے اس کی اشاعت ہوگئی اور یہ ترجمہ میرے اولین علمی تعارف کا ذریعہ بنا _

میری دل چسپی کا اصل میدان قرآنیات ہے _ میں نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تخصّص فی التفسیر کیا ہے _ لیکن شاید ڈاکٹر صاحب سے تعلق کا نتیجہ تھا کہ مجھے سیرت نبوی پر بھی کام کرنے کا شوق ہوا اور میرے کئی اچھے مقالات مجلہ تحقیقات اسلامی اور ملک و بیرونِ ملک کے دیگر علمی مجلات میں شائع ہوئے _ ان کا مجموعہ ‘سیرتِ نبوی کے دریچوں سے’ کے نام ہند و پاک دونوں جگہ سے کتابی صورت میں طبع ہوا ہے _ بعد میں پاکستان کی ایک طالبہ نے میرے سیرت کے کاموں پر ایم فل کا مقالہ لکھا _

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مجھے بہت سے سمیناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے _ وہ سمیناروں کی شان ہوتے تھے _ ان کی بذلہ سنجی محفلوں کو زعفران زار بنائے رکھتی تھی _ ان کی موجودگی میں دوسروں کو کم ہی بولنے کا موقع ملتا تھا _ وہ بے تکان علمی لطائف ، چٹکلے ، واقعات سناتے تھے اور ان کے پاس گھنٹوں بیٹھنے کے باوجود ذرا بھی اکتاہٹ اور تکان کا احساس نہیں ہوتا تھا _ ان کی مجلسوں میں استاذ اور شاگرد کا فرق مٹ جاتا تھا اور وہ بہت زیادہ بے تکلف ہوجاتے تھے _ ان کی سربراہی میں مجھے ادارۂ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد اور پاکستان کے بعض دیگر علمی اداروں کے اشتراک سے مارچ 2011 میں ‘دورِ جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات’ کے مرکزی موضوع پر منعقد ہونے والے سمینار میں ہندوستان سے آٹھ رکنی وفد کے ساتھ سفر کا موقع ملا تھا _ ان کی بدولت منتظمینِ سمینار کی جانب سے اس وفد کا زبردست اعزاز و اکرام کیا گیا تھا _ اس سمینار میں پوری دنیا سے مندوبین تشریف لائے تھے اور پورے پاکستان سے نمایاں ترین اصحابِ علم جمع ہوگئے تھے _ ان حضرات سے وہاں میری ملاقات ہوئی اور اچھا تعارف ہوا ، جس کے نتیجے میں اب تک ان سے علمی روابط استوار ہیں _

ڈاکٹر صاحب سے میرے تعلقات کا ایک پہلو بڑا قابلِ رشک اور لائقِ تقلید ہے _ وہ ہے سخت سے سخت تنقید برداشت کرنا اور اس پر ذرا بھی بُرا نہ ماننا _ میری حیثیت ان کے ایک شاگرد کی سی تھی _ انھوں نے مجھے اپنی کئی تصانیف تحفۃً عنایت فرمائیں _ میں نے تحقیقات اسلامی میں ان پر تبصرہ کیا _ اسی طرح ان کے بعض مضامین پر میں نے نقد و استدراک لکھا اور ان کے بعض افکار پر گرفت کی ، لیکن انھوں نے کبھی ملاقات پر اشارۃً و کنایۃً ناگواری ظاہر کی نہ کسی اور ذریعہ سے ان کے کسی منفی کمنٹ کا مجھے علم ہوسکا _ واقعۃً ڈاکٹر صاحب بہت بڑے ظرف کے مالک تھے _ اتنا بڑا ظرف بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے _

ڈاکٹر صاحب سے میرے قریبی گھریلو تعلقات ہوگئے تھے _ میں وقتاً فوقتاً ان کے گھر حاضر ہوتا تو بہت تپاک سے ملتے اور اتنی باتیں کرتے کہ وقت کا احساس ہی نہ ہوتا _ اس موقع پر اندرونِ خانہ سے ڈھیر سی کھانے پینے کی چیزیں آتیں _ کئی مرتبہ انھوں نے کھانے پر بلایا _ نکاح کے بعد میں اپنی اہلیہ کو لے کر علی گڑھ پہنچا تو دوسرے ہی دن ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا _ انھوں نے ہم دونوں کو رات کا کھانا کھلائے بغیر واپس نہ آنے دیا _ آنٹی میری اہلیہ کے ساتھ اتنی محبت اور اپنائیت کے ساتھ پیش آئیں کہ وہ اس پہلی ملاقات کی لذّت اب تک محسوس کرتی ہیں _ ان کے تمام بچے بھی میرا بڑا لحاظ کرتے تھے _ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تو انھوں نے مجھ سے نماز پڑھانے کی خواہش کی _ میں نے عرض کیا کہ علی گڑھ میں بڑی بڑی شخصیات ہیں ، ڈاکٹر صاحب کے معاصرین میں بھی متعدد بزرگ ہیں ، ان میں سے کسی سے نماز پڑھانے کے لیے کہہ دیا جائے ، لیکن وہ نہ مانے ، چنانچہ ان کی خواہش کے احترام میں مجھے ہی نماز پڑھانی پڑی ، جو میرے لیے بڑے شرف کی بات ہے _

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر موصوف کی دینی و علمی خدمات کو قبول فرمائے ، انہیں آخرت کے لیے ذخیرہ بنادے ، ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے ، انہیں اعلیٰ العلّیّین میں انبیاء و صدّیقین و شہداء کے ساتھ رکھے اور ان کے پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے _ آمین ، یا ربّ العالمین!

پروفیسر یاسین مظہر صدیقی کا سانحۂ وفات – بقلم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم پروفيسر ياسين مظہر صديقى كا سانحۂ وفات

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

ع: ايك روشن دماغ تها نه رہا
ابهى يه اندوہناك خبر ملى كه آج (بروز سه شنبه 27 محرم سنه 1442 مطابق 15 ستمبر سنه 2020) پروفيسر محمد ياسين مظہر صديقى ندوى رحمة الله عليه كا انتقال ہوگيا، اور علم وتحقيق كا ايك باب بند ہوگيا، سال رواں ميں كوئى ايسا مہينه نہيں گزرا جس ميں متعدد علمى حادثوں نے مسلمانوں كو غمزده نه كيا ہو، انہيں نا قابل تلافى حادثوں ميں يه تازه زخم بهى ہے ۔
پروفيسر صديقى صاحب اس عہد كے مايۂ ناز محققين ميں تهے، خاص طور سے سيرت، مغازى،عہد نبوى اور قرون اولى كى تاريخ كے علم ميں ان كا كوئى ہمسر نہيں تها، اپنے موضوع پر اس وقت ان كى حيثيت ايك مرجع كى تهى، اسى طرح فكر ولى الله كى تشريح ميں ان كو غير معمولى ملكه تها، اور شايد يه كہنا بجا ہو: مستند ہے ميرا فرمايا ہوا ۔
دار العلوم ندوة العلماء، جامعه مليه اسلاميه اور مسلم يونيورسٹى عليگڑه سے تعليم حاصل كى، پى ايچ ڈى كرنے كے بعد مسلم يونيورسٹى كے شعبۂ اسلاميات سے وابسته ہوگئے، ترقى كرتے كرتے پروفيسر اور صدر شعبه ہوئے، ملك اور ملك سے باہر ان كو محاضرات كے لئے مدعو كيا جاتا، سيميناروں ميں ان كى شركت پروگرام كى رونق بڑها ديتى، يونيورسيٹياں ان كى خدمات حاصل كرتيں، اور تحقيقى ادارے ان كى تحقيقات اور مشوروں سے مستفيد ہوتے ۔
انہوں نے اردو، انگريزى اور عربى زبانوں ميں گرانقدر تصنيفات يادگار چهوڑى ہيں، اور ان كے تحقيقى مقالات كا كوئى شمار ہى نہيں، اردو ميں ان كى وقيع كتابوں ميں ہيں: عہد نبوى كى ابتدائى مہميبں، نبوى غزوات وسرايا كى اقتصادى اہميت، عہد نبوى ميں تنظيم رياست وحكومت، حضرت شاه ولى الله دہلوى شخصيت وحكمت كا ايك تعارف، بنو ہاشم اور بنو اميه كے معاشرتى تعلقات، اندلس ميں علوم قراءت كا ارتقاء، شاه ولى الله كا فلسفۂ سيرت، غزوات نبوى كى اقتصادى جہات، تاريخ اسلامى پر فكرى يورش، رسول اكرم صلى الله عليه وسلم كى رضاعى مائيں، وغيره ۔
ميں نے جب لكهنؤ يونيورسٹى سے پى ايچ ڈى مكمل كى تو يونيورسٹى نے پروفيسر ياسين مظہر صاحب كو ميرا ممتحن نامزد كيا، پروفيسر صاحب زبانى امتحان كے لئے لكهنؤ تشريف لائے اور ندوه ميں قيام كيا، اور پهر دوسرے دن ان كے ساته لكهنؤ يونيورسٹى كے شعبۂ عربى ميں پہنچا، كمره شعبه كے اساتذه اور سينير طلبه سے بهرا تها، ان ميں خاص طور سے صدر شعبه پروفيسر رضوان علوى مرحوم، ميرے مقاله كے نگراں بروفيسر عبيد الله فراہى صاحب، پروفيسر يونس نگرامى مرحوم ، اور شعبۂ معاشيات كے پروفيسر ڈاكٹر مزمل صاحب قابل ذكر ہيں ۔
اس امتحان كى تفصيلات آج بهى ميرے ذہن ميں تازه ہيں، پروفيسر صاحب سوالات كرتے اور ميں جواب ديتا، وه كوئى اشكال كرتے، اور بات موضوع كے متعلقات بعيده تك چلى جاتى، زياده تر گفتگو اسلامى تاريخ كے مراجع اور ان كى علمى وتحقيقى حيثيت پر تهى، وه اسلامى مؤرخين كے طريقۂ كو ترجيح ديتے، اور ميں محدثيں كے منہج كى برترى كے دلائل ديتا، وه ابن اسحاق كے بہت زياده قائل تهے، اور تقريبا ہر مسئله ميں اسے حق بجانب ثابت كرنے كى كوشش كر رہے تهے، اور ميں اس كے مقابله ميں امام مالك اور امام بخارى كى رايوں كى معقوليت ثابت كر رہا تها، ميں نے ابن اسحاق كے متعلق امام مالك كا يه قول دہرايا “دجال من الدجاجلة” تو اسے انہوں نے امام مالك كى زيادتى سے تعبير كيا، يه مناقشه دلچسپ رہا، دوسرے اہل علم بهى اس ميں حصه لے رہے تهے، يونيورسٹى كى تاريخ ميں يه بہت لمبا امتحان تها، حاضرين كو اس علمى وتحقيقى گفتگو ميں بہت مزه آيا، كئى لوگون نے مجه سے كہا كه انہوں نے اس قدر پر لطف امتحان نہيں ديكها ۔
پروفيسر صاحب سے ندوه، عليگڑه اور رائے بريلى ميں بار بار ملاقات ہوئى، اور ہميشه دلچسپ نشست رہى، ايك بار شايد سنه 1985 ميں عليگرہ ميں ملاقات كى، ميرے ساته رفيق محترم آفتاب عالم ندوى بهى تهے، پروفيسر صاحب نے شام كو كهانے كى دعوت دى، اور ہمارے اعزاز ميں متعدد اہل علم كو مدعو كيا، مختلف موضوعات پر تبادلۂ خيال ہوا، پر لطف صحبت رہى، اس موقع پرحاضرين سے كہا كه ميرا يه مكان دار القلم ہے، يعنى يه قلم كى آمدنى سے تعمير ہوا ہے، ايك دوسرى ملاقات ميں ميں نے عرض كيا كه آپ اپنے نام كے ساته ندوى كيوں نہيں لكهتے، كہنے لگے كه يه سوچتا تها كه ندوى تو علامه سيد سليمان ندوى رحمة الله عليه جيسے اہل علم بزرگوں كى نسبت ہے، ميں اس لائق كہاں؟اس لئے ندوى لكهنے كى ہمت نہيں ہوئى، بعد ميں جب بهى نام كے ساته ندوى بڑهانے كا اراده كيا اس ميں ايك قسم كا تكلف محسوس ہوا ۔
حضرت مولانا ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليه كى كتاب “المرتضى” چهپ كر آئى، تو پروفيسر يونس نگرامى مرحوم نے رسم اجراء كى عظيم الشان تقريب كا اہتمام كيا، جس ميں باہر كے بہت سے اہل علم وتحقيق مدعو تهے، ان ميں پروفيسر ياسين مظہر صاحب بهى تهے، ندوه كے مہمان خانه ميں ان سے طويل گفتگو رہى، اور اس ميں انہوں نے كتاب كے متعلقات پر اپنے كچه تحفظات كا بهى اظہار كيا ۔
پروفيسر صاحب سے جب بهى اسلامى تاريخ كے كسى موضوع پر گفتگو ہوتى تو وه گفتگو ايك سنجيده مباحثه كى شكل اختيار كرليتى، وه بحيثيت محقق بہت سى منفرد آراء كے نه كه حامل تهے بلكه ان كے لئے پر جوش تهے، ان پر مولانا اسحاق سنديلوى رحمة الله عليه سابق مہتمم واستاد دار العلوم ندوة العلماء كى صحبتوں اور تحقيقات كا گہرا اثر تها، ان كا كہنا تها كه مولانا اسحاق سنديلوى رحمة الله عليه سے ان كو اسلامى تاريخ كا صحيح شعور ملا، وه كسى كے طرفدار نه تهے، اور مطالعه ميں غير جانبدارى كے قائل تهے، مولانا اسحاق سنديلوى رحمة الله عليه سے ايك بار رفيق محترم حشمت الله ندوى صاحب كے ساته كراچى ميں ملاقات ہوئى تهى، اور اب تك دل پر ان كے تقدس كا اثر ہے، البته ان كے بعض تفردات سے كبهى اطمينان نہيں ہوا، اور حقيقتًا تاريخ اسلامى كے پر فتن ادوار وه وادى خار زار ہيں كه بمشكل كوئى ان سے سلامتى سے گزر سكا ۔
علم وتحقيق كے ميدان ميں سبقت، عقل ورزانت سے اتصاف كے ساته پروفيسر مرحوم ايك بہترين انسان تهے، بے حد ملنسار، متواضع اور تكلف سے برى تهے، اخلاق وشرافت كا نمونه، اور پرانى تہذيپى روايتوں كى يادگار، اب وه قدريں يكے بعد يكے رخصت ہو رہى ہيں ۔
آج اس عظيم فاضل يگانه نے اپنى جگه خالى كردى، اب نوجوان دنيا اس بوڑهے كى مثال شايدپيدا كرسكے، دنيا كا رنگ ديكهتے ہوئے اس كى توقع بہت كم ہے، الله تعالى مرحوم كى مغفرت كرے، درجات بلند فرمائے اور اپنا پڑوس عطا كرے ۔

فتنوں سے متعلق ايک حدیث کى تشریح از: ڈاکٹر محمد اکرم ندوى

قياسي

بسم اللّه الرحمن الرحيم

ايك سوال:
دکتور! كچه لوگ اس حدیث كا حواله ديتے ہیں :
“حدثنا إسماعيل قال: حدثني أخي عن ابن أبي ذئب عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال: حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وعاءين، فأما أحدهما فبثثته، وأما الآخر فلو بثثته قطع هذا البلعوم” ۔
اس کا جواب کیسے دیا جائے ؟ آپ اس حدیث پر مختصر نوٹ تحریر فرما دیں نوازش ہو گی، تاکہ ایسے لوگ جو صحابہ کی عدالت پر شك کرتے ہیں ان کو جواب دیا جا سکے ۔

جواب
يه حديث صحيح البخارى، كتاب العلم، باب حفظ العلم كى ہے، اس كا ترجمه ہے: حضرت ابو هريره رضي الله عنه فرماتے ہيں كه ميں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے حديثوں كے دو ذخيروں كو محفوظ كيا، ايك كى ميں نے اشاعت كى، اور دوسرے ذخيرے كى اگر ميں اشاعت كروں تو يه گلا كاٹ ديا جائے” ۔

اشاعت كى جانے والى حديثيں زياده ہين:
اس حديث ميں دو ذخيروں سے مراد دو قسم كے علوم پر مشتمل احاديث ہيں، مسند احمد بن حنبل كى ايك روايت ميں ہے “حفظت ثلاثة أجربة ، بثثت منها جرابين”، يعنى ميں نے حديثوں كے تين ذخيروں كو حاصل كيا اور محفوظ كيا، جن ميں سے دو كى اشاعت كى، اور الرامهرمزى كى المحدث الفاصل ميں پانچ ذخيروں كا ذكر ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمة الله عليه فتح البارى ميں فرماتے ہيں كه “ان روايتوں ميں كوئى تضاد نہيں، بلكه ان كا مفہوم يه ہے كه جن حديثوں كى اشاعت كى ہے وه تعداد ميں ان سے زياده ہيں جن كى اشاعت نہيں كى” ۔

جن حديثوں كى اشاعت نہيں كى:
جن حديثوں كى اشاعت نہيں كى وه مستقبل ميں قيامت تك رونما ہونے والے واقعات پر مشتمل ہيں، ان ميں سے كچه احاديث كا تعلق حضرت معاويه رضي الله عنه كے عہد كے بعد سے تها، چنانچه حضرت ابو ہريره رضي الله عنه سنه 60 هجرى كے آنے اور بچوں كى امارت سے خدا كى پناه مانگتے تهے ، الله تعالى نے ان كى دعا قبول كى اور اس سے ايك سال پہلے ہى ان كا انتقال ہوگيا ۔

حضرت ابو ہريره كے ڈرنے كى وجه:
حضرت ابو هريره رضي الله عنه كے ڈرنے كى دو وجہيں تهيں:
ايك يه كه كچه لوگ دشمنى، نفرت، نادانى يا سياسى مفاد كى وجه سے ان ميں سے بعض احاديث كو اپنے عہد كے امراء اور گروہوں پر منطبق كرنے كى كوشش كرتے، جس كے نتيجه ميں سخت قسم كى كشمكش پيدا ہوسكتى تهى، نتيجه خون خرابه تك پہنچتا، اور خود حضرت ابو هريره رضي الله عنه كى زندگى كو خطره لاحق ہو جاتا ۔
دوسرى وجه يه تهى كه قيامت تك رو نما ہونے والے فتنے عجيب وغريب ہيں، اور بہت سے لوگوں كے لئے نا قابل يقين، اور يه حديثيں عام طور سے لوگوں كو نہيں معلوم تهيں، اس لئے حضرت ابو ہريره اگر ان كو عام كرتے تو وه لوگ جو فتنوں كى احاديث كى زبان نہيں سمجهتے ان كا انكار كرديتے، اور يه صورت حال انكار وطعن سے آگے نكل كر فساد اور جان ومال كے نقصان كا سبب بنتى ۔

حضرت ابو هريره اور احاديث فتن كى روايت:
ليكن جب بهى حالات بہتر رہے اور كسى غلط تاويل كا انديشه نہيں ہوا تو حضرت ابو ہريره نے ان ميں سے بہت سى احاديث كى روايت كى، صحيح بخارى، صحيح مسلم، سں ابى داود، جامع الترمذى اور مسند احمد بن حنبل وغيره ميں فتن، ملاحم اور اشراط الساعة كى حديثيں حضرت ابو ہريره رضي الله عنه سے كثرت سے مروى ہيں، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے كه فتن كے باب ميں راز ركهنے والى حديثيں بہت كم ہيں ۔
اور اس كى تائيد اس سے بهى ہوتى ہے كه بعض ديگر صحابۂ كرام رضي الله عنہم نے بهى فتن وغيره كى تفصيلات پر مشتمل احاديث كى روايت كى ہے، اور ان كى بيان كرده احاديث بهى مندرجه بالا كتابوں ميں موجود ہيں ۔

فتنوں كى احاديث كى راز دارى خود نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے كى:
فتنوں كى احاديث كى راز دارى كے ذمه دار حضرت ابو هريره نہيں ہيں، بلكه يه راز دارى نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كى منشأ تهى، آپ صلى الله عليه وسلم كے عہد كا سب سے بڑا فتنه نفاق تها، قرآن كريم اس فتنه كے ذكر سے بهرا ہوا ہے، اس كے باوجود آپ نے اس فتنه كى تفصيلات بيان كرنے ميں بہت احتياط سے كام ليا، اپنے قريبى ساتهيوں حضرت ابو بكر صديق، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت على، اور ازواج مطہرات كو بهى ان سے واقف نہيں كرايا، آپ نے منافقين كے نام صراحت سے صرف حضرت حذيفه بن اليمان كو بتائے، اور ان كو تاكيد كى كه اس علم كو مخفى ركهيں ۔
اسى طرح حضرت ابو هريره رضي الله عنه كو قيامت تك ظاہر ہونے والے فتن، ملاحم اور اشراط ساعة كى تفصيلات بتائيں، اور ان كو عام نہيں كيا، ان ميں سے بعض تفصيلات دوسرے صحابۂ كرام رضي الله عنہم سے بهى بيان كيں، اور كچه ايسے فتنے ہيں جن كے متعلق آپ نے مجمع عام ميں گفتگو فرمائى، تاہم اس قسم كى حديثوں كے متعلق آپ صلى الله عليه وسلم كا طريقه بيحد احتياط كا تها، اور صحابۂ كرام رضي الله عنهم نے اس احتياط كو ہميشه ملحوظ ركها ۔

راز دارى كا سبب:
فتنوں كى احاديث كى راز دارى كے تين اسباب ہيں:
ايك يه كه مستقبل كى پيشين گوئياں عام زبان ميں نہيں ہوتيں، ان كى زبان مختلف ہوتى ہے، انہيں يك گونه خواب سے مماثلت ہوتى ہے، اگر انسان كو خواب كى تعبير كا علم نه ہو تو اسے اس كا اندازه نہيں ہوگا كه الفاظ كے رد وبدل سے تعبير پر كيا اثر پڑ سكتا ہے، اسى طرح جو لوگ پيشين گوئيوں كى زبان نہيں سمجهتے ہوسكتا ہے كه وه ان كے الفاظ اس حد تك بدل ديں كه مطلب كچه كا كچه ہوجائے، اس لئے عام لوگوں سے ان كا مخفى ركهنا ضرورى ہے ۔
دوسرا سبب يه ہے كه عام لوگون كے اندر ايك قسم كى بيچينى ہوتى ہے كه كس طرح مستقبل كى ہر بات كو اپنے زمانه كے اشخاص واحوال پر منطبق كرديں، اور ايسا كرنے سے بے شمار خرابيوں كا انديشه ہے، مثلا مهدى كے متعلق جو پيشين گوئياں ہيں ان كے بارے ميں شديد غلط فہمى رہى اور ہميشه لوگوں نے انہيں اپنے عہد پر منطبق كرنے كى كوشش كى، چنانچه اب تك كتنے لوگوں نے مهدى آخر الزمان ہونے كا دعوى كيا ہے، اسى طرح، دجال اور ياجوج وماجوج كى حديثيوں كا بهى انطباق كيا جاتا رہاہے ۔
تيسرى وجه يه ہے كه لوگ اپنے سياسى اور شخصى مفاد كے لئے كچه حديثيوں كو اپنے مخالفين كے لئے استعمال كركے ان كو نقصان پہچانے يا بد نام كرنے كى كوشش كرسكتے ہيں، عكل وعرينه كى حديث صحيحين ميں ہے، اس كے راوى ہيں حضرت انس رضي الله عنه ہيں، فساد في الارض كے جرم عظيم كا ارتكاب كرنے كى بنا پر نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے ان كو بد ترين سزا دى، جب يه حديث حضرت انس رضي الله عنه نے حجاج بن يوسف ثقفى كے عہد ميں بيان كى تو حضرت حسن بصرى رحمة الله عليه نے ناگوارى كا اظہار كيا، اور كہا كه حجاج اپنى بد ترين سزاؤں كے لئے اس حديث كا استعمال كرسكتا ہے ۔

بعض لوگوں كى تعدى:
اس راز دارى اور اخفاء كى وجه بالكل معقول ہے، اس كا تقاضا تها كه ان احاديث كے متعلق ہر عہد كے مسلمان نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كى احتياط ملحوظ ركهتے اور حضرت حذيفه بن اليمان، حضرت ابو ہريره اور ديگر صحابۂ كرام رضي الله عنہم كى طرح اخفاء اور راز دارى سے كام كرتے، اور صرف بدرجۂ مجبورى ان كو بيان كرتے، اور خاص طور سے ان كو عوام كے سامنے لانے سے حد درجه پرہيز كرتے ۔
ليكن كچه لوگوں نے نه صرف يه كه ان احاديث كو عوامى بنانے كے جرم كا ارتكاب كيا، بلكه جو حديثيں راز تهيں ان كو بهى اٹكل اور اندازه سے جاننے كى كوشش كى، اور اپنے ظنون واوہام كو قطعى علوم بناكر فتنوں كے نت نئے دروازے كهول ديئے ۔

خلاصه:
فتنوں كى حديثيں احكام كى احاديث كى طرح نہيں ہيں، احكام كى احاديث كى ضرورت سارے مسلمانوں كو ہے اور ان كى زبان بهى عام انسانوں كى زبان ہے، جبكه فتنوں كى احاديث كا فائده بہت محدود ہے، اور ان كى زبان بهى مختلف ہے، اور ان سے نقصانات كا بهى انديشه ہے اس لئے ان ميں راز دارى برتى گئى ہے ۔
اب جو لوگ ان حديثوں كو كسى عہد كے فتنوں پر منطبق كرنے كى كوشش كر رہے ہيں وه ان انديشوں كو تقويت دے رہے ہيں، اور اس سے بهى زياده غير ذمه دار ان لوگوں كا رويه ہے جو ان كہى احاديث كا انكشاف كركے ظن وتخمين پر اعتماد كرتے ہوئے ان كى من مانى تاويليں كر رہے ہيں ۔
بغير علم كے بات كرنے كے نقصانات بہت زياده ہيں، اندازه وظن سے احاديث كى تشريح سے صرف فرقه واريت كو ہوا ملے گى، اور ہر فرقه اپنے مخالفين پر ان كو منطبق كرنے كى كوشش كرے گا، لہذا ہميں حضرت ابو ہريره رضي الله عنه كے اسوه پر عمل كرتے ہوئے كف لسان سے كام لينا چاہئے، اور خود كو اور سارے مسلمانوں كو ايمان، عمل اور علم نافع ميں مشغول كرنا چاہئے ۔

50 برسوں میں بھی نہیں بن پائی مسلم لیگ بھارتیہ مسلمانوں کی پارٹی تو ایم آئی کی حیثیت کیا۔۔۔ عزیز برنی

قياسي

ابراہیم سلیمان سیٹھ اور غلام محمود بناتوالا لمبے وقت تک مسلمانوں میں بہت مقبول لیڈر رہے مسلمان اُنہیں سنتے تھے پسند بھی کرتے تھے لیکن کیرلا کے باہر اُنکی پارٹی سیاسی اعتبار سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔سید شہاب الدین صاحب کا ایک دور تھا کل ہندوستان کا مسلمان اُنکی آواز پر لبّیک کہتا تھا پارلیمنٹ میں اُنکی تقریر کو بہت عزت کے ساتھ سنا جاتا تھا پھر انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی اِنصاف پارٹی صرف مسلمانوں کے دم پر وہ پارٹی نہیں چل سکی اُتر پردیش میں ڈاکٹر فریدی صاحب نے مسلم مجلس سے بہت امیدیں جگائیں کامیابی بھی ملی لیکن مسلمانوں کے علاوہ دوسرا ووٹ نہیں ملا اسلئے اُتر پردیش میں مسلمانوں کی پہلی پسند ہونے کے باوجود اسمبلی میں تعداد کے اعتبار سے بڑی پارٹی نہیں بن سکی۔حاجی مستان کا ایک دور تھا پیسہ بہت تھا امیج بدلنا تھی ایک دائرے میں لوگوں کے کام بھی کیے سیاسی پارٹی بنائی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی حیدرآباد میں سلطان صلاح الدین کو مسلم اتحاد المسلمین کی شکل میں ایک سیاسی پارٹی وراثت میں ملی کیونکہ اُسکے بانی قاسمِ رضوی پاکستان چلے گئے تھے( ایم آئی ایم کا قیام 1927 میں عمل میں آیا ) اسکے بعد 1957میں اسدالدین کے دادا عبدالواحد اویسی نے پارٹی کو ری لانچ کیا قیادت بدلی لیکن پارٹی کا مزاج نہیں بدلا وہی جناح کی سوچ۔۔۔ کانگریس تو پہلے بھی محمد علی جناح کی مسلم لیگ کو ساتھ لیکر چلتی رہی پھر ابراھیم سلیمان سیٹھ کی قیادت والی مسلم لیگ بھی کانگریس کے ساتھ رہی اور سلطان صلاح الدین والی ایم آئی ایم بھی کانگریس کے ساتھ ہی رہی سلطان صلاح الدین کے بعد اسعد الدین کی قیادت والی ایم آئی۔ ایم بھی کانگریس کے ساتھ ہی رہی کانگریس کو اس اتحاد کا سیاسی فائدہ حاصل ہوتا رہا اور ایم آئی ایم کو معاشی۔پھر ۔۔12 نومبر 2012۔۔۔۔میں ایم آئی ایم نے کانگریس اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی اور محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے نقشِ قدم پر اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھی۔
ہندو مہا سبھا کی کوکھ سے جنم لیا تھا وشو ہندو پریشد۔راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ۔جن سنگھ اور آج کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ۔ہندو مہا سبھا کا جنم 1901 میں ہوا تھا اور 1906 تک 5 سالانہ اجلاس کے باوجود کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن 1906 میں مسلم لیگ کے وجود میں آتے ہی اُسے کامیابی ملنا شروع ہو گئی لمبے سفر کے بعد آج کی مودی حکومت اسی بیج کا تناور درخت ہے۔سیدھے لفظوں میں سمجھنا ہو تو دور حاضر کی ٹی وی ڈیبیٹ پر نظر ڈالیں اگر ایک مسلم چہرہ اشتعال انگیز گُفتگو کیلئے نہ ہو تو ہندو یکجہتی کا منصوبہ کامیاب نہ ہو لہذا ایسی فکر کی ایسے مزاج کی ایک سیاسی پارٹی بھی سنگھ پریوار کے ہندو راشٹر کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے ضروری ہے۔
مولانا بدرالدین اجمل آل انڈیا مسلم یونائیٹڈ فرنٹ اپنے نرم مزاج کی وجہ سے سنگھ کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی لہٰذا آسام میں تیلنگانہ سے زیادہ کامیابی کے باوجود اُنکے کام کی نہیں۔
ایم آئی ایم کے پاس دلیلیں ہیں اپنے ہر قدم کو صحیح ثابت کرنے کیلئے بیشتر ریاستوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کے لیے۔اُنکی ہار کو مسلمانوں کی جیت ثابت کرنے کیلئے ۔
گجرات کو بھلے ہی اٹل بہاری واجپائی نے بھارت کی پیشانی کا کلنک کہا ہو مودی کے پاس دلائل ہیں گجرات ماڈل کو کامیاب ثابت کرنے کیلئے مسلمان بھلے ہی پہلے سے زیادہ خوف زدہ ہو ظلم زیادتی کا شکار ہو لیکن ایم آئی ایم کے پاس دلائل ہیں مسلمانوں کے بہتر مستقبل کیلئے ایم آئی ایم کا ساتھ دینے کیلئے۔ نوٹ بندی سے جی ایس ٹی سے کاروباری نقصان ہو بینک بند ہونے لگیں سرکاری املاک بکنے لگیں نوجوان بے روزگاری کا شکار ہوں لیکن مودی کے پاس دلائل ہیں ہندوستان کو ترقی کی طرف گامزن ثابت کرنے کیلئے۔مسلمان موب لنچنگ کا شکار ہو جامعہ میں پولیس معصوم نوجوانوں پر ظلم کرے دلّی دانگوں میں بے گناہوں کا قتل کر دیا جائے بابری مسجد کا فیصلہ آستھا کے سوال پر ہو اور قوم کے سب سے قبل بیرسٹر ایک دن بھی عدالتِ عالیہ میں نظر نہ آئیں لیکن ایم آئی ایم کی قیادت مسلمانوں میں ہر دل عزیز ثابت کر دی جائے۔ اسعد الدین کو کانگریس اتحاد سے الگ ہوئے کانگریس کو مسلمانوں کا دشمن ثابت کرتے ہوئے سیکولرزم کو زندہ نعش قرار دیتے ہوئے صرف 8 سال لگے اور بی جے پی کو واضع اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے صرف 7 سال اس کارنامے کو انجام دینے کیلئے چہرہ حلیہ اور تقریر کام آئی اویسی کی اور بھرپور تشہیر میڈیا کی بی جے پی کو وہ ملا جو اسنے چاہا اویسی کو وہ ملا جو اسنے چاہا لیکن مسلمانوں کو کیا ملا۔۔۔۔۔۔آج کے حالات۔۔۔۔
واہ کیا بات ہے دیش کے پاس بس دو چہرے ره گئے ایک ہندوتوا کا چہرہ اور ایک مسلمانوں کا چہرہ میڈیا کی توجّہ بس ان دو نظریات کے نمائندوں پر ڈاکٹر کفیل پر این ایس اے لگے جیل جائیں صفورہ ذرگر حق کی آواز بلند کرنے پر جیل جائیں ان جیسے لوگوں نے بی جے پی کو یا ہندوتوا کو اس درجہ نشانہ نہیں بنایا جتنا اسد اویسی اور اکبر اویسی نے لیکن جیل جائنگے ڈاکٹر کفيل۔صفورہ زرگر۔اعظم خان۔ڈاکٹر ایوب انصاری ۔نہ جی نہ کوئی ملی بھگت نہیں اسد کا قد اتنا بڑا ہے کہ حکومت ڈرتی ہے اس پر ہاتھ ڈالنے سے لیکن حیرت ہے اتنے طاقتور مسلم قائد جو کہ خود بیرسٹر ہیں بابری مسجد معاملہ میں آخری فیصلہ آنے تک کبھی عدالت میں اپنی دلائل کے ساتھ پیش نہیں ہوئے اگر وہ کھڑے ہو جاتے تو سرکار ڈر جاتی اور شاید فیصلہ کچھ اور ہوجاتا حیدراباد۔ مکّہ مسجد بم بلاسٹ سوامی اسماناند ایسو۔۔ ممبئ سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ گجرات 2002 مسلم کش فساد ہر موقعے پر یہ مسلم سیاست داں خاموش اور دعویٰ مسلم قائد ہونے کا کانگریس کے دور میں مرادآباد مسلمانوں کا قتل عام 1987 میرٹھ مالیانہ ھاشم پورا قتلِ عام ایم آئی ایم کانگریس کے ساتھ 6 دسمبر 1992 بابری مسجد کی شہادت ایم آئی ایم کانگریس کے ساتھ۔۔۔۔
12 نومبر 2012 کو کانگریس سرکار نے منموہن سنگھ کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف ایسا کیا کیا کہ اسد الدین کو مسلمانوں کے حق میں کانگریس سے الگ ہونا پڑا اور اچانک ایسا کیا ہوا کے سیکولرزم زندہ نعش نظر آنے لگا اور مسلمان اب اور اپنے کاندھے پر اسکا وزن نہیں ڈھو سکتا یہ اعلان کیا جانے لگا ۔مریدوں میں سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ حضور دستورِ ہند بھی سیکولر ہے کیا یہ بھی زندہ نعش۔۔۔ یہی تو ایجنڈہ ہے بی جے پی کا وہ چاہتی ہے دستورِ ہند کو بدل دینا وہ چاہتی ہے سیکولر سیاست کا وجود ختم کر دینا اور یہ کام آپ انجام دے رہے ہیں اور دعویٰ ہے مسلمانوں کی بھلائی کا آپ ہارنے کے لیے الیکشن لڑینگے اور اسے مسلمانوں کی جیت ثابت کرینگے بہت خوب جناب اس دور میں قومی میڈیا نریندر مودی اور آپ یہ تین ہی تو ہیں جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے کا ہنر رکھتے ہیں سنگھ والوں کا مکمل اعتماد قومی میڈیا پر اور آپکے والوں کا مقمّل اعتماد ایم آئی ایم پر۔۔۔۔جے ہو پربھو آپ مہا ن ہو مودی جی مہان ہیں دیش کو بس آپ دونوں کی ضرورت ہے۔
مضمون ابھی مکمل نہیں ہے اور ردِ عمل سامنے آنے لگا چلو اب ایسا کریں گفتگو کا رخ اپنی سیاست اپنی قیادت۔مسلمان سیکولرزم کا بوجھ کیوں دھوئیں بات اب انہیں جملوں کی روشنی میں کی جائے ٹھیک بات ہے مسلمانوں نے ملائم سنگھ یادو کو وزیرِ اعلیٰ بنایا اکھلیش یادو کو وزیرِ اعلیٰ بنایا اُنکے پہلے چودھری چرن سنگھ کو وزیرِ اعلیٰ بنایا مایا وتی کو وزیرِ اعلیٰ بنایا بہار میں لالو پرساد یادو کو وزیرِ اعلیٰ بنایا نتیش کمار کو وزیرِ اعلیٰ بنایا چلو بہار کی بات کریں۔بہار میں اس وقت الیکشن ہونے جا رہا ہے ایم آئی ایم سبھی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اِرادہ رکھتی ہے نتیش بی جے پی کے ساتھ ہے کانگریس کو ختم کرنا ہے تیجسوی یادو اگر ایم آئی ایم کو اتحاد میں شامل نہیں کرتا تو اُسکی کوئی اہمیت نہیں لہٰذا موقعہ ہے اس بار مسلمانوں کے پاس کیوں نتیش کمار یا تیجسوی یادو کو وزیر اعلیٰ نہ بنائیں آخر یہ طاقت تو ہے ہمارے پاس کیوں نہ اسعد الدین اویسی کو اس بار وزیرِ اعلٰی بنایا جائے کیوں کانگریس آر جے ڈی اتحاد سے دو چار سیٹوں کی بھیک مانگی جائے۔کیا ممکن ہے یہ۔۔۔۔ نہیں نہ ۔۔۔۔آپ بھی جانتے ہیں اور اویسی بھی کہ دوسرے ووٹ کے بغیر ہندو ووٹ کے بغیر صرف مسلم ووٹوں کے سہارے یہ کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی اس سچائی کو سمجھا لالو یادو اور نتیش کمار نے اور حکومت کی بہار پر۔۔۔ یہ ایکلا چلو کی نیتی اویسی کو کہاں لے جائے گی اس وقت دو ہی سیاسی طاقتیں ہیں بی جے پی اتحاد یا کانگریس اتحاد کانگریس کو دفن کرنا آپکا سیاسی مقصد ہے تنہا آپ کچھ کر نہیں سکتے بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے تو آپ کرنا کیا چاہتے ہیں بی جے پی مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم کرنا چاہتی ہے اور آپکا عمل اُسکا کام آسان کر رہا ہے ملک میں مسلمان 28 کروڑ ہے اگر ووٹر 15۔20 کروڑ بھی ہیں تو اُسکا 10% فی صد یعنی ڈیڑھ دو کروڑ ووٹ بھی آپکو کبھی مِلا نہیں نہ۔کیوں مسلمانوں کی سیاسی قبر خود رہے ہو سیاسی معاملات میں یا سماجی معاملات میں سب کے ساتھ ملے بغیر کوی راستہ نہیں ہے مسلمانوں کے پاس اپنی سیاست کیلئے اُنہیں تنہا نہ کرو یہ مودی کا فارمولا ہے کہ مذہب کا لالی پوپ دیکر سب کو سڑک پر لا دو تم خدا کیلئے مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہ کرو ایک جناح نے جو زخم دیا ہے 75سالوں میں وہی نہ بھر سکا تو اب کوئی نیا زخم نہ دو تمہاری پارٹی 93سال پرانی ہے اور دادا کی قیادت جو تمہیں وراثت میں ملی 63 سال پرانی کیا کر سکے ان 63 سالوں میں صرف 2 mp ۔۔۔
اچّھا بولتے ہو مسلمانوں کو لبھانے والی زبان بولتے ہو جناح کی ٹوپی اور شیروانی تمھارے پاس ہے داڑھی ایک اور اضافہ یہ معصوم مسلمان تو رمضان کّے ایک افطار میں سر پر ٹوپی دیکھ کر ہی دیوانہ ہو جاتا ہے تمھارے سر پر تو یہ ٹوپی 365 دن ہے وہ بیچارہ اسی میں مذہب تلاشتہ ہے اور اسی میں سیاست اُسے اپنی سیاست کا مہرا نہ بناؤ تمہارے پاس تو دولت بہت ہے مضبوط قلعے میں رہتے ہو تم۔۔۔۔لیکِن۔۔۔ اُسکے پاس نہ دو وقت کی روٹی ہے نہ سر پر محفوظ چھت مار دیا جاتا ہے اُسے سڑک پر مذہبی جنونیوں کے ذریعے مارا گیا تھا گجرات میں اور ابھی حال ہی میں دلّی میں بھی کہاں تھے تم پہلے دہشتگردی کے الزام میں اب دیش دروہ کے الزام میں سینکڑوں مسلم نوجوانوں کی زندگی اُن پر عذاب بن گئی کیا لڑا تمنے کسی کا مقدمہ۔نہیں نہ بس زبانی جمعہ خرچ اور اس معصوم مظلوم قوم کی تباہی کا سامان۔۔۔۔ خدا کیلئے اب رحم کرو ان پر۔۔۔۔

کاپی۔ پیسٹ

بہار کے تین ممتاز اہل علم کی رحلت – طلحہ نعمت ندوی

قياسي

علماء کی تیزی سے سفر آخرت کا سلسلہ جاری ہے، جو مسلمانوں کے لئے بہت بڑا المیہ ہے، حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھین کر نہیں ختم کرے گا بلکہ علماء کو اٹھالے گا پھر جاہل لوگ رہ جائیں گے جن سے فتویٰ معلوم کیا جائے گا اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
دو دن قبل محترم جناب مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری کی وفات کی خبر ملی تو دل ان کے فراق سے بہت متاثر ہوا، وہ بہار کی سب سے معروف خانقاہ مجیبیہ کے سب سے ممتاز ذی علم اور معمر بزرگ تھے، اس کی روایتوں کے امین تھے، بہار کے صوفیہ کی تاریخ پر تو ان کی نظر تھی ہی، علوم شرعیہ اور حالات وانساب اور تاریخ پر بھی بہت عالمانہ نظر رکھتے تھے، اور خانقاہ مجیبیہ کے تو گویا وہی سب کچھ تھے، جیسی نظر اس کی تاریخ پر ان کی تھی، جس طرح انہوں نے اس ہر ہر پہلو کا احاطہ کیا تھا، اور وہاں کےعلمی ورثہ کو کھنگالا تھا اب کون ہے جو ان کی طرح رہنمائی کرسکے، وہ صوفیہ کرام سے گہری عقیدت ہی نہیں رکھتے بلکہ ان کے ہر فکر وعمل پر پورا اطمینان رکھتے، اور اس دور میں جب کہ صوفیہ کو مورد الزام قرار دیا جارہا وہ ان کے وکیل تھے۔ میں نے ایک اہل قلم کا ایک اعتراض ان کے سامنے پیش کیا جنہوں نے تصوف کے خلاف لکھتے ہوئے حضرت شیخ نظام الدین اولیاء اور ان کے خلفاء کو بھی مورد الزام ٹھہرایا تھا، ان کا کہنا تھا کہ حضرت نصیرالدین چراغ دہلی جو حضرت نظام الدین اولیاء کے خلیفہ تھے، انہوں نے محمد تغلق کے انتقال کے وقت کہا تھا کہ ملک الموت نے کہا کہ جتنی بدبو مجھے اس کے منہ سے محسوس ہورہی تھی اتنی روح نکالتے ہوئے کسی کے منہ سے نہیں ہوئی، جب کہ وفات کے وقت وہ روزہ سے تھا، اور نماز کا پابند، شرب سے دور تھا، جب کہ اس کے مقابلہ میں فیزور شاہ تغلق صوفیہ نواز ضرور تھا لیکن کبھی کبھی شراب سے شغل بھی کیا کرتا تھا، اور بھی برائیاں تھیں، یہ اعتراض بادی النظر میں بہت زیادہ قوی ہے، مجھے خود بھی یہ سن کر حضرت شیخ نصیر الدین پر شبہہ ہونے لگا، ایک دو علماء کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا لیکن کوئی تشفی بخش جواب نہ مل سکا، موصوف سے ایک ملاقات میں اس اعتراض کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فورا اس حدیث کا حوالہ دیا جس میں حضرت علی رض کے قاتل کو اشقی القوم کہا گیا ہے جب کہ وہ نماز روزہ کا پابند ہی نہیں ایسا ذاکر تھا کہ جس وقت اس کو قتل کیا جارہا تھا اس وقت بھی وہ ذکر میں مشغول تھا، لیکن اس کے باوجود زبان نبوت سے وہ اشقی القوم کا خطاب یافتہ تھا، اس لئے بزرگوں کی نگاہ جو دیکھتی ہے وہ دوسرے نہیں دیکھ سکتے. ایک ملاقات میں نے ایک عرب بزرگ کا یہ مقولہ نقل کیا کہ بارہ ربیع الاول کی رات لیلہ القدر سے بھی افضل ہے، پھر ہم نے کہا کہ شاید غلو ہو، کہنے لگے من وجہ ہوسکتی ہے اس لیے اس میں تاویل کی گنجائش ہے۔
بہرحال موصوف کی دلچسپ ملاقاتیں اور یادیں اور بھی ہیں
کبھی فرصت سے سن لینا بڑی ہے داستاں ان کی
اسی رات تین بجے صبح کے قریب بہار کے قاضی شریعت اور اس صوبہ کے بزرگ اور معروف عالم مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری نے بھی وفات پائی، قاضی صاحب علم وعمل کے ایسے جامع تھے جس کی نظیر اس دور میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے، وہ ایک عالم وقاضی شریعت کی حیثیت سے معروف تھے، بیعت وافادہ کا سلسلہ غالبا نہیں تھا، لیکن ایک عام ربانی کے جو اوصاف ہونے چاہئیں وہ ان کے اندر موجود تھے، جو شاید بہت سے مشائخ طریقت میں بھی ڈھونڈنے سے نہ ملیں، تواضع اور فروتنی ان کی ہر ہر ادا سے نمایاں تھی،
مجھے حضرت قاضی صاحب کی خدمت میں انفرادی حاضری اور استفادہ کا موقع تو نہیں ملا البتہ ندوہ کے دور طالب علمی میں ان کی سب سے پہلی زیارت ہوئی، ان کی تقریر سننے کا موقع ملا، پہلے تو ان کی معمولی وضع قطع دیکھ کر ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہوسکی لیکن ان کے جو چند دن پروگرام کی مناسبت سے وہاں گذرے اس میں ان کی باتیں سن کر اور ان کی تواضع اور فروتنی دیکھ کر دل بہت متاثر ہوا، اس کے بعد بھی ایک دو ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا۔
‌تیسری شخصیت اورنگ آباد ضلع کی معروف علمی بستی سملہ کے عثمانی خانوادہ کے ممتاز ومشہور عالم و دانشور مولانا امین احمد عثمانی کی ہے، موصوف کی خدمات گرچہ صوبہ بہار میں نہیں رہیں اور اسی وجہ سے وہاں کے عوامی حلقہ میں ان کا تعارف زیادہ نہیں ہے، لیکن ملک و بیرون ملک ان کی خدمات بھی تھیں، اور تعارف بھی، ان کی وفات پر بیرون ملک کے اہل علم نے بھی تعزیتی کلمات پیش کئے، گرچہ مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری بھی بیرون ہند کے بعض حلقوں میں متعارف تھے، لیکن مولانا عثمانی دہلی میں مستقل قیام اور ایک بڑے ادارہ کی وجہ سے زیادہ معروف تھے، اسی لیے ان پر تعزیتوں کا سلسلہ جاری ہے، موصوف فقہ اکیڈمی کی جان تھے، جماعت اسلامی ہند کے بنیادی رکن تھے، ان کی خاموش مساعی نے دونوں کو فائدہ پہنچایا، وہ ندوہ العلماء کے قابل فخر فرزند بھی تھے، عربی اور انگریزی پر عالمانہ نظر رکھتے تھے، خاموش مساعی، زبردست انتظامی صلاحیت اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ان کی شخصیت کا عنوان ہے، اور راقم کو ان عنایتوں اور شفقتوں سے مستفید ہونے کا خوب موقع ملاہے، جس کی داستان طویل ہے اس لئے کسی مستقل مضمون میں جلد ہی ان شاءاللہ اپنے مشاہدات اور تاثرات پیش کرنے اور یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کی جائے گی۔
‌افسوس بہار ایسے ممتاز اہل علم وکمال سے محروم ہوگیا، دو سال قبل بھی اسے اسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا کہ ایک سال میں کئی ممتاز شخصیات اٹھ گئی تھیں، لیکن یہ حادثہ تو صرف دو دن کے اندر پیش آیا، اللہ آئندہ علماء اور بزرگوں کی حفاظت فرمائے اور ان سے استفادہ کا موقع اور توفیق دے اور اس اس سرزمین کے اس علمی ودینی نقصان کی تلافی فرمائے۔ اور جانے والوں کے درجات بلند فرمائے۔آمین